یار محمد بادینی کثیر الجہت شخصیت کے مالک ہیں۔ ادیب، محقق، صحافی، سیاسی کارکن سب کچھ ہیں، پھر کتابیں بھی شائع کرتے ہیں۔ بلوچی، اردو اور انگریزی زبانوں میں خوب لکھتے ہیں۔ ان کی نئی کتاب ’’افریقہ کے بلوچ ‘‘ بہت سی معلومات اور دلچسپ حقائق پر مشتمل ہے۔ محمد بادینی نے یہ کتاب بلوچی میں تحریر کی اور غلام فاروق بلوچ نے اس کا ترجمہ کیا اور مضامین کی ترتیب کی ہے۔
کتاب کا انتساب افریقہ میں بسنے والے بلوچوں کے نام منسوب ہے، جنھوں نے تقریباً چار سو سال گزارنے کے باوجود اپنی شناخت کو برقرار اور موروثی سرزمین کو یاد رکھا ہے۔ کتاب کا ابتدائیہ تربت کے غلام فاروق بلوچ نے تحریر کیا ہے۔
غلام فاروق بلوچ ابتدائیہ میں لکھتے ہیں کہ ’’کراچی کے قدیم ترین رہائشی علاقہ بغدادی نام کی ایک بستی ہے، جس کے اندر ممباسا اسٹریٹ کے نام سے ایک سڑک ہے۔ سڑک کی تاریخ کے بارے میں صحیح معلومات تو موجود نہیں لیکن اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ یہاں زمانہ قدیم میں افریقہ سے لائے گئے غلاموں کی خرید و فروخت ہوتی تھی۔ اس بارے میں مستند معلومات نہ ہونے کی وجہ سے بقول مصنف وہ کچھ نہیں کہہ سکتے۔ لیکن بغدادی اور ممباسا اسٹریٹ کے حوالے سے یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ ان کا تاریخی پس منظر ضرور ہے
اس زمانے میں بلوچی لبزانک (بلوچی ادب) کے نام سے ایک معیاری بلوچی مجلہ ’’کراچی‘‘ سے شائع ہورہا تھا۔ اس مجلہ میں اس سے قبل ترکمانستان کے بلوچوں کے بارے میں ایک خصوصی اشاعت سامنے آئی تھی۔ اس لیے یہ بات طے کی گئی کہ اس طرح کی ایک تحقیق افریقہ کے بلوچوں کے بارے میں کی جائے، یوں واجہ یار جان بادینی اور ان کے دوست فوراً افریقہ جانے کے لیے آمادہ ہوئے
اس سے قبل ان دونوں نے ترکمانستان کا دورہ کیا تھا۔ یہ دونوں دوست افریقہ کے ملک کینیا گئے، تقریباً ایک ہفتہ کے دوران انھوں نے بلوچوں کی تاریخ اور ثقافت پر بے شمار مواد اکٹھا کیا اور مشہور سماجی شخصیات، دانشوروں اور مختلف شعبوں کے بارے میں معلومات جمع کیں۔ بعد ازاں ان معلومات کو ’’بلوچی لبزانک‘‘ میں ایک خصوصی اشاعت کے طور پر شائع کیا
دسمبر 2014ع میں جب بلوچستان گورنمنٹ نے میر گل خان نصیر کی یاد میں ایک بین الاقوامی سیمینار کا انعقاد کیا تو اس میں کینیا سے بلوچ کمیونٹی سینٹر کے سیکریٹری جنرل واجہ نواز خان بلوچ نے خصوصی طور پر شرکت کی اور مقالہ پڑھا۔ اس کتاب کے پہلے باب کا عنوان ’’ بکھرے موتی‘‘ ہے۔ مصنف نے اس باب میں تحریر کیا کہ چونکہ طالب علم ہونے کی وجہ سے ہمارے پاس مناسب مالی وسائل نہیں تھے تو میر اسلم بلیدی (جو اس وقت بلوچستان کے صوبائی وزیر تھے) نے اس وقت کے وزیر اعلیٰ میر جان محمد جمالی سے ہماری ملاقات کرائی
وزیر اعلیٰ نے ہماری ٹیم کو ایک لاکھ روپے دیے جن سے صرف کینیا کے لیے آنے جانے کے ٹکٹ لیے جا سکتے تھے۔ باقی اخراجات ہم نے خود برداشت کیے۔ نیروبی پہنچنے کے بعد بذریعہ بس ممباسا پہنچے۔ راستہ طویل تھا، دورانِ سفر جانوروں کے خوف کے ساتھ انسانوں سے بھی ڈر لگتا تھا۔ جب ہم کینیا کے ساحلی شہر ممباسا کے سیکریٹری نواز خان سے رابطہ کیا اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افریقہ کے بلوچوں سے ملنے کا شیڈول بنایا، جن میں مرد اور خواتین بھی شامل تھیں۔ افریقہ کے بلوچ زیادہ تر مکرانی بلوچی بولتے تھے، حتیٰ کہ اگر رخشانی بلوچی میں کچھ پوچھتے تو وہ سمجھ نہیں پاتے تھے
ہماری افریقہ کے مختلف ممالک میں آباد بلوچوں سے ملاقات بھی ہوئی جن میں کینیا، تنزالہ، یوگنڈا اور زائرے کے بلوچ شامل تھے۔ یوگنڈا سے تعلق رکھنے والے یوسف دارا کا کہنا تھا کہ تاریخ گواہ ہے کہ عمان کے بلوچوں نے صدیوں تک اپنا خون بہایا اور مشرقی افریقہ کے تمام ساحلی علاقے فتح کر کے عمان کو دیے
اس بات کو صدی گزر چکی ہے لیکن آج بھی میر شہداد اور جعدار تنگی کا نام زندہ ہے ، اگر آپ قلعہ عیسٰی جائیں تو وہاں بلوچوں کے قدیم جنگی سامان رکھے ہیں۔ دیکھیں کہ یہ سب اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ بلوچوں نے یہاں دلیرانہ زندگی گزاری ہے
مصنف کا کہنا ہے کہ نواز خان کے والد ناکو محمد عیدو عمر رسیدہ تھے لیکن جب بھی بلوچ اور بلوچستان کا نام سنتے تو آنکھوں سے آنسو رواں ہوجاتے۔ افریقہ کے بلوچ حیران تھے کہ ہم بلوچستان سے اپنے اخراجات پر کینیا اور ممباسا کا دورہ کر رہے ہیں
ہم اکثر ڈاکٹر فوزیہ میر در کی دکان کے سامنے سے گزرتے تو وہ کھانے کی دعوت دیتی۔ وہ لکھتے ہیں کہ بلوچوں میں بے اتفاقی کا اندازہ مجھے اس دن ہوگیا جب بلوچ کمیونٹی ممباسا کے چیئرمین خیر محمد علی بلوچ کے گھر لے گئے۔ انھوں نے بلوچوں کی تاریخ اور ثقافت کے متعلق مواد فراہم کیا۔ واپس اپنے ہوٹل جارہے تھے تو ایک صاحب نے خیر محمد علی بلوچ کے خلاف بولنا شروع کیا تو میں نے نواز خان سے کہا کہ ’’بلوچ کے مزاج میں بے انصافی ہے، وہ دوسروں کے لیے اچھا مگر اپنے بھائی کے لیے کبھی نہیں۔‘‘
کتاب کے اہم باب کا عنوان ’’افریقہ کے بلوچ، تاریخ، ثقافت، سماجی و معاشی حالات‘‘ میں واجہ یار محمد بادینی لکھتے ہیں کہ ’’بلوچ قدیم دور سے جن ممالک میں آباد ہیں ان میں مشرقی افریقہ کے خطہ میں واقع کینیا، تنزالہ اور یوگنڈا جب کہ وسطی افریقہ کے ممالک زائرے (کانگو) ، روانڈا اور برونڈی شامل ہیں
مصنف کا کہنا ہے کہ مشرقی افریقہ کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ یہاں مختلف ادوار میں مختلف زور آور اقوام اور استعماری قوتوں کی مداخلت رہی ہے۔ مشرقی افریقہ میں سکونت اختیار کرنے والی اقوام میں جرمن، انگریز، بلوچ، فارسی، ترک، ہندوستانی اور چینی شامل ہیں۔ سولہویں صدی کے ابتدائی ادوار میں پرتگیزوں نے عمان پر اپنا قبضہ مستحکم کرلیا تو انھوں نے بلوچستان کے چند ساحلی علاقے بھی اپنے تصرف میں لے لیے۔ ان علاقوں میں گوادر اور چا بہاربندرگاہ شامل ہیں۔ پرتگزیوں نے یوں مکران کو اپنے تسلط میں لینے کی کوشش کی۔ مقامی لوگوں کی مزاحمت کے سبب وہ ایسا نہیں کرسکے۔
اس زمانہ میں حمل جنید اس علاقہ کا سردار تھا اور قبائلی حیثیت کے علاوہ وہ تاجر بھی تھا۔ اس کی کشتیاں تجارت کی خاطر زنجبار تک جاتی تھیں۔ حمل جنید کے بارے میں بلوچ تاریخی طور پر زبان (Epic) شاعری میں بہت سارے واقعات کا ذکر موجود ہے۔ مصنف کی تحقیق کے مطابق جب سولہویں صدی کے ابتدائی دور میں پرتگزیوں نے عمان پر قبضہ کیا تو عمان کے جام امام سلطان بن سیف ایری مکران ساحلی شہر چاہ بہار (ایران ، بلوچستان) پہنچ گئے۔ بلوچ حاکم نے انھیں سپاہیوں کے علاوہ جنگی سامان اور کشتیاں فراہم کیں۔ انھوں نے مسقط پر پرتگزی قبضہ گیروں پر حملہ کیا۔ پرتگزیوں کو پورے عمان سے نکال باہرکیا۔ مشرقی افریقہ کے مقامی لوگ پرتگزیوں کے ظلم و جبر سے تنگ آچکے تھے۔
انھوں نے عمان سے مدد مانگنے کا فیصلہ کیا۔ مصنف نے ایک جنگجو کمانڈر میر شہوارکا یوں ذکر کیا ہے کہ میر شہوار نے سیف بن سلطان کو تعاون کی یقین دہانی کرائی اور یہ تجویز پیش کی کہ پہلے وہ خود خفیہ طور پر مشرقی افریقہ کا سفرکرے گا اور بعد ازاں اپنے لشکر کے ساتھ ان پر حملہ آور ہوگا۔ کچھ عرصہ کے بعد میر شہوار تاجر کے بھیس میں مشرقی افریقہ روانہ ہوئے اور ممباسا پہنچ گئے۔
پرتگزیوں کو ان پر شک ہوا اور میر شہوار کوگرفتارکرکے قلعہ عیسی میں بند کردیا۔ سترہویں صدی کے ابتدائی برسوں کے دوران میر شہوار ایک بڑے لشکر کے ساتھ جن میں بلوچوں کے علاوہ عرب بھی شامل تھے مشرقی افریقہ پر حملہ آور ہوئے۔ اس لشکر کو سلطان عمان کی حمایت حاصل تھی۔ شدید لڑائی کے بعد ممباسا پر بھی قبضہ کیا مگر اس لڑائی میں میر شہوارکا بھائی مارا گیا۔ امام سیف بن سلطان جب عمان واپس گئے تو میر شہوار کو ساتھ لے گئے اور اپنی بیٹی سے شادی کرا دی۔
مصنف نے افریقہ میں بلوچوں کی آبادی کے عنوان سے لکھا ہے کہ افریقہ میں آباد بلوچوں میں سے بیشتر کا تعلق مکران سے ہے۔ مکران سے جو لوگ افریقہ میں جا کر آباد ہوئے ان کا تعلق مند اور ساحلی شہروں سے تھا۔ اسی طرح بہت سارے بلوچ ہندوستان سے آکر افریقہ میں آباد ہوئے وہ اپنے آپ کو ننگری یا ننگرانی بلوچ کہتے ہیں، کیونکہ ان کا تعلق ہندوستان کے شہر جام نگر سے تھا۔
بشکریہ ایکسپریس اردو