اسلام آباد: کراچی میں بجلی کی ناقص فراہمی پر فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) اور کے الیکٹرک کے مابین حالیہ تنازع کے بعد حکومت "کے الیکٹرک” کو کسی غیرملکی فرم کو بطور ایک کمپنی منتقل کرنے کے بجائے علیحدہ جنریشن، ٹرانسمیشن اور تقسیم کار کمپنیوں میں بدلنے پر غور کر رہی ہے
وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے بجلی و پیٹرولیم تابش گوہر نے تحریری طور پر اس بات کی تصدیق کی ہے
ان کا کہنا ہے کہ حکومت نے مختلف صنعتی ایسوسی ایشنوں کے الگ الگ جنریشن، ٹرانسمیشن اور ایک سے زیادہ ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے حوالے کرنے کی سفارش کی تائید کی ہے
ایف پی سی سی آئی کے صدر میاں ناصر حیات میگو کو ایک مراسلے میں وزیر اعظم کے معاون نے لکھا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اجارہ داری کنٹرول اور انتظامیہ کی ناکامی کی ذمہ داری کسی ایک پر ڈالنے کے بجائے مختلف نجی اداروں کے زیر انتظام معاملات چلائے جائیں
انہوں نے کہا کہ انہیں وزیر اعظم آفس سے اس تجویز کا جواب دینے کے لیے کہا گیا ہے
تابش گوہر نے وزیر اعظم کے ساتھ اپنے خط کے مندرجات، نجکاری سے متعلق کابینہ کمیٹی کے ممبروں کے علاوہ وزیر خزانہ، توانائی اور نجکاری کے علاوہ نیپرا کے چیئرمین بھی شامل کیے ہیں
انہوں اس امرپر زور دیا کہ دو کروڑ لوگوں کو بجلی کی ضروری خدمت فراہم کرنے والے مربوط اور اجارہ دار فراہم کرنے والے ادارے کی نجکاری ایک ’پالیسی غلطی‘ تھی
اس سے "کے الیکٹرک” کے غیر ملکی سرمایہ کاروں خصوصاً سعودی بزنس ٹائکون کا ردعمل سامنے آسکتا ہے، جنہوں نے حالیہ مہینوں میں وزیر اعظم عمران خان اور دوسرے اسٹیک ہولڈرز سے ملاقاتیں کر کے چین کی شنگھائی الیکٹرک لمیٹڈ کو 66 فیصد سے زیادہ کے حصص کی آسانی سے منتقلی کے لیے حمایت حاصل کی گئی تھی
وزیر اعظم کے معاون خصوصی گوہر تابش نے کہا کہ حکومت کو یقین ہے کہ الگ کرنے سے قبل "کے الیکٹرک” کے لیے بجلی کی مجموعی لاگت اور معاشی آرڈر بھیجنے کی بنیاد پر حکومت پاکستان پر سبسڈی کا بوجھ پیداواری یونٹوں اور اس کے آئی پی پیز کو قومی نیٹ ورک میں ضم کرکے کم ہونا چاہیے
تابش گوہر نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے کراچی کو نیشنل گرڈ سے بجلی کی فراہمی 650 میگاواٹ سے 2000 میگاواٹ تک بڑھا کر اس سمت میں کام کا آغاز کر دیا ہے
انہوں نے کہا کہ تجارتی بنیاد پر بجلی کی خریداری کے معاہدے پر دستخط تاحال زیر التوا ہے
تابش گوہر نے کہا کہ دیگر تقسیم کار کمپنیوں کی طرح 2023ع میں اجارہ داری ختم ہونے پر حکومت کو ایک مرتبہ پھر "کے الیکٹرک” کے صارفین کو ریٹیل سپلائی کے انتخاب کا موقع دینا پڑا جو حکومت کی پالیسی کے عین مطابق تھا
ایف پی سی سی آئی نے وزیر اعظم کو باور کرایا تھا کہ شعبہ الیکٹرک میں موجودہ اجارہ داری سے قومی خزانے کو سیکڑوں ارب لاگت کا نقصان پہنچا ہے اور ملکیت کے تبدیلی سے قبل ضروری فیصلے نہ کیے گئے تو نتائج مایوس کن ہوں گے
انہوں نے کہا کہ کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی (کے ای ایس سی) کی اس امید کے ساتھ نجکاری کی گئی کہ اس سے نظام میں کارکردگی میں بہتری آئے گی اور اس کے نتیجے میں شہریوں اور کراچی سمیت حب اور دھابیجی کی صنعتوں کے لیے کم محصولات وصول ہوں گے جبکہ یہ علاقہ کے ای ایس سی کو لائسنس یافتہ ہے.