اپوزیشن کو بدترین شکست دیں گے، وزیراعظم. اسلام آباد میں”کانپیں ٹانگ رہی ہیں“ بلاول. ہر لمحہ بدلتی سیاسی صورتحال

اسلام آباد – سنہ 2018 کے انتخابات کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی حکومت بنی تو عمران خان کو وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد ایوان میں پہلا خطاب کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، جس سے یہ اندازہ ہوا کہ وزارت عظمیٰ عمران خان کے لیے پھولوں کی سیج نہیں ہوگی

اپوزیشن نے عمران خان کو اقتدار سے باہر کرنے کے لیے عملی قدم اٹھاتے ہوئے قومی اسمبلی میں ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرا دی ہے۔ اس کے باعث عمران خان کو بحیثیت وزیراعظم پہلی بار اپوزیشن کی جانب سب سے بڑے امتحان کا سامنا ہے

صرف اپوزیشن ہی نہیں عمران خان کی اپنی جماعت کے ناراض ارکان اپنے ہی وزیراعلیٰ پنجاب کے خلاف صف آرا ہیں اور اتحادی جماعت مسلم لیگ ق کی جانب سے چیلنجز بھی سامنے آ گئے ہیں اور ان کی مشکلات مزید بڑھ گئی ہیں

اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کے لیے عمران خان کے پاس اگرچہ نمبر گیم بظاہر پورے ہیں، لیکن ایک طرف پی ٹی آئی کے ناراض ارکان ہیں، دوسری طرف ان کے اتحادی چوہدری برادران اور تیسری طرف ایم کیو ایم، جو سب کھیل کا پانسہ پلٹنے کی پوزیشن میں ہیں

اپوزیشن کو بدترین شکست دیں گے، وزیراعظم

وزیراعظم عمران خان سے پی ٹی آئی کے ارکان قومی اسمبلی کی ملاقات کی اندرونی کہانی سامنے آگئی جس میں وزیراعظم نے کہا تحریک عدم اعتماد پر اپوزیشن کو بدترین شکست دیں گے

ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے اظہار خیال کیا کہ پنجاب پر گہری نظر ہے اور سب کچھ علم میں ہے، تحریک عدم اعتماد پر اپوزیشن کو بدترین شکست دیں گے۔ ارکان نے بھی یقین دہانی کروائی کہ تحریک عدم اعتماد ناکام بنانے کے لیے ہم آپ کا ڈٹ کر ساتھ دیں گے

ارکان قومی اسمبلی نے وزیراعظم پر اعتماد کا اظہار کیا لیکن عثمان بزدار سے متعلق شکوے کیے، تحریک انصاف کے کچھ ارکان وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی کارکردگی پر نالاں ہیں۔
ارکان نے وزیراعظم سے ملاقات میں عثمان بزدار سے متعلق تحفظات کا اظہار بھی کیا اور بتایا کہ صوبے میں بیڈ گورننس سے حکومت کو پریشانی کا سامنا ہے

اکثریتی اراکین کی حمایت کے باوجود بعض ارکان کے تحفظات تاحال برقرار ہیں اور میجر ریٹائرڈ طاہر صادق کے حلقے میں ملک امین اسلم کی مداخلت پر نالاں ہیں

حکومت سے ناراض رہنے والے تحریک انصاف کے ارکان قومی اسمبلی کی تعداد کتنی؟

پاکستان میں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد جمع کرائے جانے کے بعد جہاں ان کو اتحادی جماعتوں کی حمایت کی ضرورت ہوگی وہیں اپنی ہی پارٹی کے تمام اراکین قومی اسمبلی کو بھی اپنے حق میں ووٹ ڈالنے پر آمادہ کرنے کا چیلنج درپیش ہوگا۔
اس وقت قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے ارکان کی تعداد 155 ہے جبکہ وزیراعظم کو سادہ اکثریت ثابت کرنے کے لیے 172 اراکین کی حمایت درکار ہوگی۔ تحریک انصاف کی اتحادی جماعتوں کے ارکان کی تعداد 24 ہے

تاحال اتحادی جماعتوں نے واضح طور پر حکومت سے راستے الگ کرنے کا کوئی بیان نہیں دیا لیکن تحریک انصاف کے کئی ایسے ارکان ہیں جو ماضی قریب میں اپنی ہی حکومت سے ناراض رہتے ہوئے بیانات دیتے رہے ہیں

میجر طاہر صادق کی
اٹک سے پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی میجر (ر) طاہر صادق نے اپنی ہی حکومت پر کڑی نکتہ چینی کرتے رہے ہیں

جہانگیر ترین گروپ کے اہم رکن ایم این اے راجہ ریاض
تحریک انصاف کے ناراض رہنما جہانگیر ترین کے گروپ میں شامل فیصل آباد سے رکن قومی اسمبلی راجہ ریاض بھی اپنی ہی حکومت کی پالیسیوں پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے رہے ہیں

کراچی سے منتخب تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی عامر لیاقت حسین متعدد بار اپنی حکومت سے ناراض ہوئے اور منائے گئے

نومبر 2021 میں تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی ریاض فتیانہ نے غیرملکی دورے سے واپسی پر اپنی ہی پارٹی کے ساتھی ارکان قومی اسمبلی پر الزامات عائد کیے تو جماعت کی جانب سے اُن کو شوکاز نوٹس جاری کیا گیا

پیپلز پارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف کے ٹکٹ پر پشاور سے منتخب ہونے والے نور عالم خان نے رواں سال کے آغاز پر اپنی حکومت کے بعض اقدامات پر سخت تنقید کی تھی

”کانپیں ٹانگ رہی ہیں“

اس سیاسی گرما گرمی کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری کی جوش خطابت میں کی گئی غلطی سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی

اسلام آباد میں عوامی مارچ سے خطاب کے دوران بلاول بھٹو زرداری جوش خطابت میں ٹانگیں کانپ رہی ہیں کے بجائے ’اسلام آباد میں کانپیں ٹانگ رہی ہیں‘ کہہ گئے

وائرل ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہےکہ بلاول بھٹو عوامی مارچ میں جیالوں کا جوش وجذبہ بڑھانے کے لیے خطاب کررہے ہیں اور اس دوران وہ کہتے سنائی دئیے کہ ’ آپ کا جوش وجذبہ اسلام آباد کو ہلا رہا ہے اور اسلام آباد کی ’کانپیں ٹانگ رہی ہیں‘َ

ایم کیو ایم راہنماؤں سے ملاقات کے لئے وزیراعظم کراچی روانہ

ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ ایم کیو ایم راہنماؤں سے ملاقات کے لئے وزیراعظم عمران خان کے کراچی روانہ ہونے کی اطلاعات ہیں، جہاں وہ ایم کیو ایم پاکستان کی قیادت سے سیاسی صورت حال پر گفتگو کریں گے، اس ملاقات میں تحریک عدم اعتماد پر گفتگو اور حمایت سے متعلق بات چیت کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے

واضح رہے کہ تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے جہاں اپوزیشن جماعتیں متحرک ہیں وہیں وزیراعظم عمران خان نے بھی اتحادی جماعتوں سے رابطے تیز کر دیے ہیں

عمران خان نے گزشتہ ہفتے مسلم لیگ ق کے قائدین چوہدری براردران سے اُن کی رہائش گاہ پر ملاقات کی تھی جس کے بعد وزیرقانون بیرسٹر فروغ نسیم نے ایم کیو ایم مرکز کے دورے کی نوید بھی سنائی تھی

ق لیگ کا پہلی بار وزیراعظم کو اپوزیشن کے ساتھ جانے کا اشارہ

مسلم لیگ (ق) نے وزیراعظم کو کہا ہے کہ اگر آپ کے پندرہ بیس ارکان ٹوٹ گئے تو ہم بھی اپوزیشن کے ساتھ جانے پر مجبور ہوں گے

وزیراعظم عمران خان سے مسلم لیگ (ق) کے وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ کی ملاقات کی اندرونی کہانی سامنے آگئی ہے، ملاقات میں سیاسی صورتحال اور آئندہ منظر نامے پر آپشنز پر بات چیت ہوئی اور حکومتی ارکان ٹوٹ جانے کی صورت میں آئندہ سیاسی تعاون پر تبادلہ خیال کیا گیا

ذرائع نے بتایا کہ مسلم لیگ (ق) نے حکومتی ارکان ٹوٹ جانے پر پہلی بار اپوزیشن کے ساتھ جانے کااشارہ دے دیا ہے۔ طارق بشیر چیمہ نے وزیراعظم عمران خان سے کہا کہ اگر آپ کے پندرہ سے بیس ارکان ٹوٹ گئے تو ہم بھی اپوزیشن کے ساتھ جانے پر مجبور ہوں گے

ذرائع کے مطابق طارق بشیر چیمہ نے وزیراعظم کو آگاہ کیا کہ اتحاد کے معاملات میں اپ کے ساتھ کھڑے ہیں، لیکن اگر آپ کے ارکان بکھر گئے تو ہم بھی نئی پالیسی بنا سکتے ہیں

اگرچہ مسلم لیگ (ق) نے عمران خان کی حمایت برقرار رکھی ہے لیکن مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کی رائے ہے کہ بدلتے ہوئے سیاسی منظر نامے کی وجہ سے چوہدریوں کو بالآخر اپوزیشن میں شامل ہونا پڑے گا

مسلم لیگ (ن) کے ایک سینئر رہنما نے ڈان کو بتایا کہ ہممسلم لیگ (ق) کی قیادت کے ساتھ رابطے میں ہیں اور انہیں عوام کے ساتھ ساتھ اپنی سیاست کی خاطر اپوزیشن میں شامل ہونے کے لیے قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں

انہوں نے دعویٰ کیا کہ نہ صرف چوہدری بلکہ ایم کیو ایم اور بی اے پی بھی اپوزیشن کے وزیراعظم خان کو ہٹانے کے اقدام میں شامل ہوں گے

مسلم لیگ ن کی اہم قیادت کا ترین گروپ سے رابطہ

مسلم لیگ ن کی اہم قیادت نے ترین گروپ کے مرکزی رہنما عون چوہدری سے رابطہ کیا۔

اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کے اعلان کے بعد ملک میں سیاسی ہلچل عروج پر ہے، تمام سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے طور پر روابط کو تیز کردیا ہے، اور ماضی میں ایک دوسرے کی حریف رہنے والی جماعتوں کی قیادت کی آپس میں ملاقاتوں کے سلسلے جاری ہیں، ملکی سیاسی منظر نامے پر ایک اور اہم پیش رفت سامنے آئی ہے، اور مسلم لیگ (ن) کی اہم قیادت نے تحریک انصاف کے ناراض رہنماؤں پر مشتمل ترین گروپ سے رابطہ کیا ہے

ذرائع نے بتایا کہ مسلم لیگ (ن) کے اہم اور سینئر رہنماؤں نے ترین گروپ کے مرکزی رہنما عون چوہدری سے رابطہ کیا اور بتایا کہ مسلم لیگ (ن) کا اعلیٰ سطحی وفد ترین گروپ سے ملاقات کا خواہشمند ہے

دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے ٹیلی فونک رابطے کے بعد ترین گروپ نے بھی مشاورت شروع کردی ہے، اور اس حوالے سے ایک اور اجلاس طلب کرلیا ہے، جو لاہور میں عون چوہدری کی رہائش گاہ پر ہوگا، یہ ترین گروپ کا مسلسل تیسرے روز اجلاس ہوگا، جس میں ن لیگ کے رابطے اور سیاسی صورتحال کاجائزہ لیا جائے گا، اور گروپ ارکان آئندہ لائحہ عمل کے حوالے سے مشاورت کریں گے

واضح رہے کہ ترین گروپ عثمان بزدار سے سیاسی راستے الگ کر کے مائنس عثمان بزدار پالیسی کا اعلان کرچکا ہے

تحریک عدم اعتماد کے پیچھے بیرونی ہاتھ ہے: جے یو آئی ایم این اے

جمعیت علماے اسلام کے ایک ایم این اے نے انکشاف کیا ہے کہ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کے پیچھے بیرونی ہاتھ ہے

ذرائع کے مطابق جے یو آئی کے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک رکن قومی اسمبلی نے حکومت کو اپنی حمایت کی یقین دہانی کرا دی ہے

ایم این نے کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کے پیچھے بیرونی ہاتھ ہے، ایسی کسی تحریک کا حصہ نہیں بن سکتا جو بیرونی ہاتھوں میں کھیلے

تحریک عدم اعتماد کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب کو ہٹانے کی کوششیں زور پکڑ گئیں

اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریکِ عدم اعتماد جمع کرانے کے بعد تمام توپیں اب وزیراعلیٰ پنجاب کی طرف اٹھتی دکھائی دے رہی ہیں

اس پس منظر میں وزیر اعظم نے عثمان بزدار سے ملاقات کی اور انہیں تسلی دی کہ وہ حکمران جماعت کی پانچ سالہ مدت کے اختتام تک صوبے پر حکومت کرتے رہیں گے

تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے فوراً بعد عمران خان نے متعدد ڈیجیٹل صحافیوں سے ملاقات کی اور واضح طور پر کہا کہ وہ کہیں نہیں جا رہے ہیں اور نہ ہی وہ اپوزیشن کے اقدام سے خوفزدہ ہیں

وزیر اطلاعات کے مطابق عثمان بزدار کی عمران خان سے وزیراعظم ہاؤس میں ون آن ون ملاقات بھی ہوئی، میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے استعفیٰ کی پیشکش کی تاکہ وزیراعظم پی ٹی آئی کے ناراض رہنما علیم خان اور جہانگیر ترین کو مطمئن کر سکیں، جنہوں نے ان کی برطرفی کا مطالبہ کیا تھا

تاہم کہا گیا کہ وزیراعظم نے عثمان بزدار کا استعفیٰ مسترد کر کے انہیں کہا کہ وہ اس وقت تک پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے طور پر کام کرتے رہیں گے جب تک پی ٹی آئی اپنی مدت حکومت مکمل نہیں کر لیتی۔

دوسری جانب وزیراعظم نے اپنے دفتر میں متعدد قانون سازوں سے ملاقاتیں کیں جن میں فضل محمد خان، محمد افضل خان دھندلہ، غلام محمد لالی، امجد خان نیازی، مخدوم سمیع الحسن، یعقوب شیخ، ساجدہ ذوالفقار اور عندلیب عباس شامل ہیں

ملاقاتوں میں پی ٹی آئی کے سینئر رہنما اسد عمر، پرویز خٹک، شفقت محمود اور عامر ڈوگر بھی موجود تھے

دریں اثنا وزیراعلیٰ پنجاب بھی حرکت میں آئے اور موجودہ سیاسی صورتحال، تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کی حکمت عملی اور مستقبل کے لائحہ عمل پر تبادلہ خیال کے لیے سے تعلق رکھنے والے اراکین قومی اسمبلی سے ملاقات کی

جہانگیر ترین اور علیم خان کی جانب سے وزیر اعلیٰ کو ہٹانے کے مطالبے کے تناظر میں وفاقی حکومت نے اپنی پارٹی کے ناراض رہنماؤں کو راضی کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی اور ان سے کہا تھا کہ وہ جانشین کے لیے نام تجویز کریں

تاہم مسلم لیگ (ق) کے چوہدریوں نے اپنی اتحادی جماعت پی ٹی آئی کو وزیر اعلیٰ کے عہدے کے لیے وزیر اعظم خان کے ‘پرانے دوست’ علیم خان کے نام پر غور کرنے کے خلاف پیشگی خبردار کیا

وزیر دفاع پرویز خٹک کی مصالحت کی کوششیں

ادھر وزیر دفاع پرویز خٹک نے منگل کو ترین گروپ اور عثمان بزدار سے متعلق مخمصے پر مسلم لیگ (ق) کی قیادت سے رابطہ کیا، ترین گروپ میں مبینہ طور پر دو درجن سے زائد اراکین صوبائی اسمبلی اور تقریباً دس اراکین قومی اسمبلی شامل ہیں، جن میں سے اکثریت کاتعلق جنوبی پنجاب سے ہے

پارٹی کے اندرونی ذرائع کا کہنا تھا کہ پرویز خٹک نے ترین گروپ کو کہا کہ اگر وہ وزیراعلیٰ پنجاب سے خوش نہیں ہیں، تو متبادل نام تجویز کریں جس پر حکومت غور کرسکتی ہے

دوسری جانب مسلم لیگ (ق) کے ترجمان نے ڈان کو بتایا کہ پرویز خٹک نے پارٹی سے رابطہ کر کے وزیراعلیٰ پنجاب کے عہدے کے لیے علیم خان کے نام کے حوالے سے رائے مانگی تھی لیکن پارٹی نے صاف انکار کردیا

انہوں نے مزید کہا کہ پارٹی قیادت نے وزیر دفاع کو بتایا کہ وہ دیگرناموں پر غور کر سکتی ہے، لیکن علیم خان کے نام پر نہیں‘

اطلاعات کے مطابق وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے وزیراعظم خان سے ملاقات میں پنجاب اسمبلی کے اسپیکر چودھری پرویزالٰہی کا نام وزیراعلیٰ کے لیے تجویز کیا تھا اور کہا تھا کہ مسلم لیگ (ق) کے رہنما ایک تجربہ کار سیاستدان ہونے کی وجہ سے صوبے کے حالات کو سنبھال سکیں گے

یوں پی ٹی آئی کی قیادت کو دوہرے خطرے کا سامنا ہے، اگر یہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لیے علیم خان پر راضی ہو جاتے ہیں تو چودھری ناراض ہو جائیں گے اور اگر وہ اپنے اتحادی کی رائے کو اہمیت دیتے ہیں تو ترین گروپ عمران خان سے علیحدگی اختیار کر سکتا ہے

وزیراعلیٰ پنجاب کی اراکین قومی اسمبلی سے ملاقات

دریں اثنا عثمان بزدار نے بھی کچھ اراکین قومی اسمبلی سے ملاقات کی جنہوں نے اس سے قبل دن میں وزیر اعظم سے ملاقات کی تھی۔

اسلام آباد میں پنجاب ہاؤس میں وزیراعلیٰ سے ملاقات کرنے والوں میں پی ٹی آئی کے ملک عامر ڈوگر، مخدوم سید سمیع الحسن گیلانی، ڈاکٹر محمد افضل دھندلہ اور غلام بی بی بھروانہ شامل تھے

وزیراعلیٰ کے دفتر سے جاری بیان کے مطابق ایم این ایز نے وزیراعظم خان اور وزیراعلیٰ پنجاب پر اعتماد کا اظہار کیا۔ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے عثمان بزدار نے اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کا مقابلہ کرنے کے عزم کا اظہار کیا اور دعویٰ کیا کہ ہم سب متحد ہیں اور مستقبل میں بھی متحد رہیں گے

انہوں نے دعویٰ کیا کہ تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کے لیے اپوزیشن کے پاس ارکان کی تعداد کی کمی ہے اور یہ کہ وزیراعظم عمران خان کو تمام اراکین اسمبلی کی حمایت حاصل رہی اور آئندہ بھی حاصل رہے گی

وزیر اعظم سے ملاقات کے بارے میں پنجاب حکومت کے ترجمان حسن خاور نے کہا کہ وزیر اعلیٰ کے عہدے کے انتخاب کے بارے میں میڈیا رپورٹس کے حوالے سے وزیر اعلیٰ بزدار نے نہ تو علیم خان کے خلاف اور نہ ہی چوہدری پرویز الٰہی کے حق میں بات کی

اپوزیشن کی جماعت اسلامی سے حمایت کی درخواست

اپوزیشن نے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے معاملے پر جماعت اسلامی سے ساتھ دینے کی درخواست کردی

صدر مسلم لیگ (ن) میاں شہباز شریف کی قیادت میں لیگی رہنماؤں کے وفد نے اسلام آباد میں امیر جماعت اسلامی سراج الحق سے ملاقات کی اور ان سے درخواست کی کہ وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد میں اپوزیشن کا ساتھ دیں

ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شہباز شریف کا کہنا تھا کہ آج کی ملاقات میں،میں نے امیر جماعت اسلامی سےکہا کہ تحریک عدم اعتماد کل پارلیمنٹ میں داخل ہوچکی ہے اس میں آپ ہمارا ساتھ دیں

انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی اپنے شوریٰ سے گفتگو کرنے کے بعد عدم اعتماد تحریک کے معاملے پر فیصلہ کرے گی

تحریک عدم اعتماد کے لیے ایم کیو ایم سے رابطے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں شہباز شریف کا کہنا تھا کہ سیاست میں کوئی حتمی بات نہیں ہوتی تحریک عدم اعتماد ہمارا حق ہے

انہوں نے کہا کہ تحریک کی حمایت کے لیے کسی سے بھی بات کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، حکومت نے اقتدار میں آنے سے قبل بلند و بانگ دعوے کیے اور عوام کو سبز باغ دکھائے تھے لیکن اس کا نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے، اسی وجہ سے پی ٹی آئی کے کچھ اراکین خود بھی حکومت کے خلاف ہیں

پنجاب اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد لانے کے حوالے سے مسلم لیگ(ن) کے صدر کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے پارٹی کی قیادت تبادلہ خیال کر رہی ہے جو فیصلہ ہوگا اس سے آگاہ کیا جائے گ۔

ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی سرج الحق کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ موجودہ نظام اور حکومت بری طرح ناکام ہوگئی ہے

انہوں نے کہا کہ موجودہ ماحول بھی حکومت نے خود بنایا ہے، تحریک عدم اعتماد ایک آئینی طریقہ کار ہے، جماعتِ اسلامی ایک جمہوری جماعت ہے، بطور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے ہمیں تجاویز سےآگاہ کیا ہے

سراج الحق کا کہنا تھا کہ وہ شہباز شریف کی تجاویز پر جماعت کی اعلیٰ قیادت کا اجلاس بلائیں گے اور فیصلہ کریں گے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close