❖ اپنی اس کتاب میں ریمنڈ ڈیوس نے سنسنی خیز انکشافات کیے ہیں اس کتاب میں اس نے لکھا ہے کہ وہ کس طرح گرفتار ہوا اور پھر کس طرح رہا ہوا. ریمنڈ ڈیوس لکھتا ہے کہ 23 جنوری 2011 کو لاہور میں دو نوجوان اچانک میرے سامنے آگئے میں سمجھا وہ مجھے قتل کرنا چاہتے تھے تو میں نے ان کو گولیاں مار کے وہیں قتل کر دیا میں وہاں سے نکلا تو تیز رفتاری کی وجہ سے مزید ایک لڑکا میری گاڑی کے نیچے آ کر مر گیا..
یوں یہ داستان شروع ہوئی اور بڑی دور نکل گئی.. اس کہانی کے سب سے ڈرامائی سین آخری دن کی عدالتی کارروائی ہے..
ریمنڈ ڈیوس نے اس کتاب میں وہ ساری کہانی بیان کی ہے جس کے مطابق مقتولین کے ورثا صلح کو تیار نہ تھے لیکن پھر کس طرح آئی ایس آئی چیف جنرل شجاع پاشا نے مقتولین کے گھر کے 18 لوگوں کو اٹھوا لیا اور کوٹ لکھپت جیل میں بند کرکے سن کے گھروں کو تالے لگا دیے اور ان سے کہا کہ دیت لے کر صلح کر لیں ورنہ نتائج کے لیے تیار رہیں، اس ساری کارروائی سے فوج، تب کے صدر آصف زرداری اور نواز شریف کو آگاہ کر دیا گیا تھا۔
❖ مصنف ریمنڈ ڈیوس کا ابتدائی نوٹ:
جو وقت میں نے ایک پاکستانی جیل میں بسر کیا، اس پر بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ بدقسمتی سے وہ زیادہ تر جھوٹ ہے۔ میں یہ کتاب تحریر کرتے ہوۓ ریکارڈ درست کرنے کی امید کرتا ہوں اور بہت سی باتیں سامنے لانا چاہتا ہوں۔ اگر میں کوئی معلومات چُھپا رہا ہوں تو اس کی وجہ اپنی قومی سلامتی اور امریکی سکیورٹی سروسز کے اہل کاروں اور کنٹریکٹرز کی خفیہ سروسز سے جڑے لوگوں کا تحفظ مقصود ہے۔ان میں سے کچھ لوگوں کے نام بدل دیے گئے ہیں۔ یہ کتاب نہ تو اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے خیالات کا اظہار کرتی ہے اور نہ ہی کسی خفیہ فوجی کنٹریکٹنگ کمپنی کے خیالات کا، جس کا میں ملازم ہوں۔ کتاب میں بیان کردہ زیادہ تر واقعات میری یاداشت پر مبنی ہیں اور صرف چند قابل ذکر استثناء کے ساتھ میں نے تمام واقعات بیان کر دیئے ہیں۔ میں نے اس وقت کی سب سے زیادہ اہم بات چیت کو یاد کرنے کے لئے اپنی پوری کوشش کی ہے اور میں غیر جانبدار ہوکر سب چیزوں کو سامنے لے آیا ہوں۔ میں نے پوری کوشش کی ہے کہ میں اہم واقعات بیان کرتے ہوئے اپنی بہترین یاداشت کو بروئے کار لاؤں۔
ریمنڈ ڈیوس
❖مزنگ چوک لاہور پاکستان
(27 جنوری، پہلا دن)
یہ کتنی عجیب بات ہے کہ کچھ معمولی اور دلچسپ فیصلے مل کر بہت بڑے نتائج کے حامل ثابت ہوتے ہیں۔ میں کم و بیش ایک گھنٹے سے جاگ رہا تھا جب ایسی ہی ایک چوائس میرے سامنے تھی۔ میرے ٹیم لیڈر ، جو ایک سابق نیوی سیلر تھے، نے مجھے اطلاع دی ”باہر ایک ہی گاڑی SUV ہے۔ کیا آپ کو اس کی ضرورت ہے؟ اگر نہیں، تو کیا میں اسے آفس لے جاؤں؟‘‘
ہمارا دفتر لاہور میں امریکی قونصلیٹ جنرل تھا۔ ہمارا کام نجی فوجی ٹھیکیداروں کے طور پر غیرملکی ماحول میں کام کرنے والے امریکیوں کی حفاظت کرنا تھا، خاص طور پر جو دشمنوں کے ماحول میں رہتے ہیں۔ یقیناً یہ کوئی بہت خوشگوار کام نہ تھا۔ کچھ لوگ ہمیں پرکشش سکیورٹی گارڈ سمجھتے تھے، جبکہ کچھ اور ہمیں خنجر بردار دستے قرار دیتے تھے، جن کا کام ہلاک کرنا تھا۔ بہرحال ہمارا جو بھی کام تھا، بہت اہمیت کا حامل تھا۔ اگر ہم نہ ہوتے تو بیرونی ممالک میں کام کرنے والے بہت سے مزید امریکی ہلاک ہو چکے ہوتے۔
میری پسند کی گاڑی ایک SUV تھی۔ ایک مرتبہ افغانستان میں کسی مشن پر ایک بڑی SUV لے گیا، جس کا فریم ٹوٹ گیا۔ ہم بہت مشکل سے اسے واپس لائے۔ ہمارے پاس یہاں لاہور میں ایک چھوٹے سائز کی SUV تھی۔ اسٹیل باڈی کی وجہ سے یہ آرمرڈ گاڑی ہمارے اعتبار کی تھی۔ ٹیم ورک کا مظاہرہ کرتے ہوئے میں نے اپنے ساتھی سے کہا کہ وہ SUV لے جائے، میں سفید سیڈان لے جاؤں گا۔ میرا ارادہ لاہور کی گلیوں میں کار چلانے کا تھا۔ اس کے بعد واقعات کا وہ سلسلہ شروع ہوا جو جان ایف کینڈی اسکول اور ہاورڈ یونیورسٹی میں ایک سٹڈی کیس کے طور پردیکھا گیا کہ کس طرح چھوٹے چھوٹے واقعات مل کر ایک خوفناک بحران کی شکل اختیار کرتے ہیں۔ یہ واقعہ لاہور میں پیش آیا اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے میرے نام کے ساتھ جڑ گیا۔ ایک چھوٹی سی غلطی اور ایک اہم سنگین سفارتی بحران آپ کے درپے، اور پھر آپ تمام عمر اس سے پیچھا نہیں چھڑا سکتے ہیں۔ اگر میں اس صبح قدرے جلدی بیدار ہو جاتا تو شاید یہ واقعات پیش ہی نہ آتے!
میں اس واقعہ سے کوئی ہفتہ بھر پہلے ہی لاہور آیا تھا۔ یہ گذشتہ دو سال کے دوران میرا پاکستان کا نواں دورہ تھا۔ میں نے اپنا نصف وقت افغان سرحد کے قریبی شہر پشاور، جبکہ نصف لاہور میں بسر کیا تھا۔ ایک کروڑ سے زائد آبادی کا یہ شہر صوبہ پنجاب کا درالحکومت ہے اور لاتعداد مساجد تعلیمی اداروں اور مارکیٹوں کی وجہ سے مشہور ہے۔ شہر میں سیر کے دوران ہم نے خیال رکھنا تھا کہ کسی ناخوشگوار واقعے کا سامنا نہ ہو۔ پلیز مجھے غلط نہ سمجھیں، بطور سیکیورٹی کنٹریکٹر ہم نے بہت سے اہم افراد کی حفاظت کو یقینی بنانا تھا۔ غیر ملکی علاقہ ہونے کے باوجود میرا کام عام طور پر غیر معمولی تھا اور یہ وہی راستہ تھا، جسے میں نے پسند کیا۔ ہم ایک عظیم کام کر رہے ہیں.
اس وقت پاکستان امریکہ مخالف جذبات سے کھول رہا تھا، چنانچہ ہمارا کام مزید دشوار ہو چکا تھا۔ کچھ عرصہ پہلے میں یو ایس ایڈ کے افسران کی حفاظت پر معمور تھا، جو افغانستان کے دیہی علاقوں میں چھوٹے مکانات اور سڑکیں تعمیر کرنے کا پروگرام رکھتے تھے. ہم مقامات کا جائزہ لینے کے لیے روانہ ہوئے، لیکن میں نے ہر کسی کو خبردار کیا کہ یہ ملک بارودی سرنگوں سے بھرا ہوا ہے، چنانچہ وہ محتاط رہیں۔ تاہم گروپ میں شامل ایک خاتون کوئی تصویر لے رہی تھی، کہ میں نے اسے چلا کر خبردار کیا کہ وہ کوئی اور قدم نہ اٹھائے کیوں کہ وہ بارودی سرنگوں کے درمیان کھڑی ہے۔ پھر میں نے اس پارٹی کو بہت مشکل سے اس خطرناک علاقے سے نکالا۔ سکیورٹی کنٹریکٹرز کا سب سے مشکل کام ایسی ناگہانی صورت پل سے بچنا اور اہم افراد کو بچانا ہوتا ہے۔کبھی آپ دوستوں کے ساتھ بیئر پی رہے ہوتے ہیں، کبھی آپ کی لاش بیگ میں بند ہوکر واپس وطن جارہی ہوتی ہے۔
افغانستان اور پاکستان، دونوں کا ماحول یکساں طور پر خطرناک ہے۔ تاہم اس ناگہانی پن کا تدارک کرنے والی چیز آپ کی مہارت ہے کیونکہ آپ عام افراد نہیں ہیں۔ آپ نے ایسے ہی مواقع سے نمٹنے کی اعلیٰ ترین مہارت حاصل کی ہوتی ہے۔ بہت سے جنگی ماہرین ریٹائرمنٹ کے بعد طویل عرصے تک بہت کامیابی سے سیکیورٹی کنٹریکٹرز کے فرائض سرانجام دیتے ہیں۔طویل تجربہ انہیں بہتر اور فوری فیصلے کرنے اور جان بچانے کے قابل بنا دیتا ہے۔لیکن اس کام میں ایک اہم عامل قسمت بھی ہے۔ جس دن قسمت آپ سے روٹھ گئی، مہارت اور حربی صلاحیت دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔ ایک بات آپ نہیں جانتے کہ قسمت آپ کو کتنے مواقع دینا چاہتی ہے۔ چونکہ خطرہ مستقل ہے، اس لیے آپ پر منحصر ہے کہ آپ پریشان ہوتے رہیں، یا اسے ایک معمول کے طور پر لیں۔
اب واپس لاہور میں پیش آنے والے واقعات کا ذکر کرتا ہوں۔ جب میں نے اس سفید سیڈان کا اسٹیرنگ سنبھالا اور سکاچ کارنر کے اس احاطے سے باہر آیا، جہاں میری ٹیم ٹھہری ہوئی تھی، تو میرے ذہن میں خود کو درپیش کام کے سوا کچھ نہ تھا۔ باہر جانے کا مقصد اس راستے کا جائزہ لینا تھا، جس پر مجھے تین دن بعد سفر کرنا تھا۔ میں اس راستے پر خطرناک مقامات کی نشاندہی کرنا چاہتا تھا۔ میری نظریں کسی خطرناک مقام کی نشاندہی کے لیے اِدھر اُدھر بھٹک رہی تھیں۔ پاکستان جیسے ملک میں آپ کو ہمیشہ ہی چونکنا رہنا پڑتا ہے۔ دہشت گردی کی جنگ کے آغاز کے بعد سے پاکستان میں امریکہ کے سفارتی مشن پر درجنوں حملے ہو چکے تھے۔ اس کے علاوہ امریکی بزنس مقامات بھی حملوں کا نشانہ بن چکے تھے۔ 2010ع میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ہلاک ہونے والے پاکستانیوں کی تعداد افغانوں سے کم نہ تھی، حالانکہ یہ جنگ پاکستان میں نہیں، افغانستان میں لڑی جارہی تھی. کم از کم سرکاری طور پر یہی کہا جاتا تھا۔
باوجود اس کے کہ لاہور بہت بڑا شہر ہے، یہاں کبھی اس طرح کا خطرہ محسوس نہیں کیا گیا، جتنا کراچی میں، جہاں دہشت گردی کے حملے ایک معمول تھے۔ یقیناً لاہور بغداد نہ تھا، لیکن پھر یہ کنساس بھی نہ تھا۔ میں حسب عادت چو کنا، لیکن ماحول کا لطف لے رہا تھا۔ میں ایک گانے کو یاد کرکے مسکرا رہا تھا۔ مجھے ایک لڑکی کی یاد بھی آئی لیکن یہ یاد بہت مختصر ثابت ہوئی۔
میں مال سے ایک ذیلی سڑک پر آیا جو ایک کھلی گلی تھی اور جس میں برطانوی دور کی خوبصورت عمارتیں بنی ہوئی تھیں۔ یہ اس دور کی یادگاریں تھیں، جب پاکستان برطانوی راج کا حصہ تھا۔ میں گاڑی چلاتے ہوئے بہت محتاط نظروں سے گردوپیش کا جائزہ لے رہا تھا اور اس علاقے کی مسلسل کسی بھی مشکوک سرگرمی کے لئے مسلسل سکیننگ کر رہا تھا۔ ایک نوجوان کی کمر کے قریب ابھار کا مطلب ہے کہ وہ بندوق لے کر جا رہا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ ایک بھاری بھرکم گاڑی بارود سے بھری ہوسکتی ہے۔ کھلے لباس والی کسی عورت نے خودکش جیکٹ پہنی ہوسکتی ہے۔ یہ سب خطرات اپنی جگہ پر موجود تھے۔ میں نے گذشتہ پانچ روز ایسے ہی خطرات کا جائزہ لینے میں بسر کیے تھے۔ لاہور میں سفر کرتے ہوئے ٹریفک جیم کا بھی خیال رکھنا ہوتا تھا۔ در حقیقت یہاں سفارتی نمبر پلیٹ رکھنے والی گاڑیوں کو روک کر بدسلوکی کے واقعات بھی تواتر سے پیش آرہے تھے۔ جب پولیس ہماری کسی گاڑی کو روکتی تو وہ اندر داخل ہونے کی کوشش کرتے، لیکن ہم اس کی اجازت دینے سے انکار کر دیتے۔ عراق میں ہونے والے تجربات نے ہمیں بتایا تھا کہ انتہا پسند بھی پولیس کی وردی استعمال کرتے ہیں۔ چنانچہ ہم کوئی خطرہ مول لینے کے لیے تیار نہ تھے۔ پولیس ہمیں گھنٹوں سڑک پر کھڑا رکھتی اور ہم دروازہ بند کرکے اس وقت تک بیٹھے رہتے جب تک کہ امریکی سفارت خانے اور قونصل خانے میں تعینات ریجنل سیکیورٹی افسر(RSO) ہماری مدد کو نہ پہنچ جاتے۔
کچھ عرصہ قبل پاکستانی پولیس نے ایک معمر خاتون کو بھی گرفتار کیا تھا۔ دیکھنے میں ہی خاتون دادی اماں کی طرح لگتی تھیں۔ یہ خاتون امریکن قونصلیٹ کی نائٹ شفٹ میں کام کرتی تھی۔ پولیس نے اس پر جاسوسی کے آلات استعمال کرنے کا الزام لگایا۔ پولیس نے اس سے جاسوسی کے آلات اور ایک کلاشنکوف 47-AK رائفل بھی برآمد کرلی ۔ کہانی کی بنیاد ایک ڈجیٹل کیمرہ تھا، جبکہ کلاشنکوف کی کہانی جھوٹ تھی۔ بہرحال پولیس نے برآمدگی کا ثبوت فراہم کرکے کیس درج کرلیا۔ جب پولیس کوئی ثبوت پیش نہ کرسکی تو لاہور ہائی کورٹ نے کیس خارج کرتے ہوئے خاتون کو رہا کرنے کا حکم دیا۔
لاہور شہر کے اردگرد گھومتے ہوئے میں ٹریفک کے پیٹرن پر بھی توجہ دیا کرتا تھا۔ اُس فیصلہ کن دن، جب میں سفید سیڈان میں لاہور میں ڈرائیو کر رہا تھا، ٹریفک معمول کے مطابق تھا۔ میں جیل روڈ پر تھا۔ میرے سامنے ایک چوک تھا، جو مزنگ چوک کہلاتا ہے۔ یہ ایک طرح کا بس سٹیشن دکھائی دیتا ہے، جہاں بہت سے بنک اور ریستوران ہیں۔ چوک کے قریب آتے ہی میری رفتار سست ہوگئی۔ میں نے چوک میں ایک ٹریفک پولیس مین کو دیکھا۔ پاکستان میں ٹریفک پولیس کے پاس ہتھیار نہیں ہوتے. جب تک میں اسٹاپ تک پہنچا تو میری گاڑی سڑک کے درمیان تھی۔ میرے دائیں اور بائیں کی دونوں لینز گاڑیوں سے بھری ہوئی تھیں۔ کاروں کے درمیان کی جگہ موٹر سائیکلوں سے بھری تھی۔ بہت سے موٹر سائیکل رکشے بھی رکے ہوۓ تھے۔
مجھے یہاں رکے ہوئے دو منٹ ہوئے ہوں گے۔ میں مسلسل گردوپیش کا جائزہ لے رہا تھا۔ میں کم و بیش مطمئن تھا، جب ایک سیاہ رنگ کی موٹرسائیکل میرے سامنے آکر رکی۔ اس پر دو افراد بیٹھے تھے۔ ڈرائیور، جس کا نام بعد میں پتہ چلا کہ فیضان حیدرتھا، نے ہیلمٹ پہنا ہوا تھا. دوسرا شخص محمد فہیم اس کے عین پیچھے بیٹھا تھا لیکن اس کے جسم کا رخ میری طرف تھا۔ میں نے اس کے ہاتھ میں پستول دیکھ لیا تھا۔ پاکستان میں شہریوں کے پاس ہتھیار پائے جاتے ہیں۔ضروری نہیں کہ انہیں کسی خطرے کا سامنا ہو، یا وہ کسی کے لیے خطرے کا باعث بنیں۔ لیکن جب کوئی کسی مصروف چوک میں سڑک کے درمیان آپ پر پستول تان لے تو پھر تمام معروضات تبدیل ہوجاتی ہیں۔ وہ شخص آپ کے لیے فوری خطرہ بن جاتا ہے۔ جب زیادہ تر افراد کو جان کا خطرہ لاحق ہوتا ہے تو خوف سے ان کے حواس جواب دے جاتے ہیں، ان کا ذہن کام کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ یہ کیفیت انہیں لاحق خطرے میں اضافہ کر دیتی ہے۔ اگر وہ بھاگ سکتے ہوں تو وہ اسے ترجیح دیں گے. لیکن خوش قسمتی سے مجھے دنیا کے بہترین ٹرینرز سے تربیت حاصل کرنے کا موقع ملا تھا اور میں جانتا تھا کہ اس موقع پر کیا کرنا ہے۔ میں نے گہرا سانس لیا اور اپنے اعصاب پر پڑنے والے دباؤ کو کم کیا۔ میں اپنے سامنے موجود تمام منظر کی جزویات کو پڑھ رہا تھا۔ ایسے حالات میں عام لوگوں کی توجہ صرف گن پر ہوتی ہے لیکن میں اپنے سامنے 65 انچ کی سکرین کو ایک ٹی وی کی طرح دیکھ رہا تھا۔ میرے سامنے ہر چیز بہت واضح تھی۔ تمام ٹریفک میری نظروں میں تھی، اُن افراد نے یونیفارم نہیں پہنی ہوئی تھی، چنانچہ ان کا تعلق کسی قانون نافذ کرنے والے ادارے سے تو نہیں تھا۔ میرے سامنے دو نوجوان تھے، جن کے پاس گن تھی۔ اب میری توجہ اس گن پر مرکوز ہوئی۔ایسا لگتا تھا جیسے وقت کے لمحات سست ہو گئے ہیں.
میں نے بیک مرر سے دیکھا اور اپنی توجہ آگے کی طرف مرکوز کرلی۔ دائیں، بائیں.. اور پھر اسی موٹر سائیکل سواروں کی طرف دیکھتے ہوئے میں محتاط ہو گیا. موٹر سائیکل باکل میری کار کے سامنے تھا۔ ہر طرح کے اشاروں کنایوں سے ان کی شناخت ہو چکی تھی. میں نے پیچھے بیٹھے شخص کو جیب سے گن نکالتے اور اپنی طرف بلند کرتے دیکھ لیا تھا!
جاری ہے