کے ای ایس سی نجکاری کا معاہدہ خفیہ ہے، اسے عوام کے سامنے نہیں لا سکتے، کمیشن کا فیصلہ

نیوز ڈیسک

کراچی : پاکستان انفارمیشن کمیشن نے معلومات تک رسائی کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ حکومت اور نجی پارٹی کے درمیان کے ای ایس سی کی نجکاری کا معاہدہ خفیہ ہے، اسے پبلک نہیں کیا جاسکتا، تاہم وزرات نجکاری آئندہ ایسے معاہدے کرتے ہوئے کمرشل اور عوامی مفاد دونوں کو پیش نظر رکھے

یہ فیصلہ پاکستان انفارمیشن کمیشن کے چیف انفارمیشن کمشنر محمد اعظم کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے دیا۔ بنچ کے ممبران میں فواد ملک اور زاہد عبدﷲ شامل تھے

پاکستان انفارمیشن کمیشن کے فیصلے کے مطابق کیس کی سماعت کے دوران وزارت نجکاری نے کے ای ایس سی نجکاری معاہدہ خفیہ رکھنے کا بڑا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ کے ای ایس سی نجکاری کا معاہدہ خفیہ ہے اس کی تفصیلات عوام کے سامنے نہیں لاسکتے، معاہدہ خفیہ رکھنے کے لیے باقاعدہ شق شامل کی گئی

وزرات نجکاری کا مزید کہنا تھا کہ معاہدہ پبلک کردیا تو پرائیوٹ پارٹی کے عالمی ثالثی عدالت جانے کا خدشہ ہے، معاہدے کی خلاف ورزی پر ملک کو بڑے مالی جرمانے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے

وزارت نجکاری کے اس بیان پر پاکستان انفارمیشن کمیشن نے بے بسی کا اظہار کیا۔ کمیشن نے فیصلے میں کہا کہ معاہدے میں خفیہ شق کے باعث معاہدہ پبلک نہیں کیا جاسکتا اور معاہدہ پبلک کرنے سے ملک کو بڑے مالی نقصان کا خدشہ ہے۔ البتہ کمیشن نے سیکریٹری نجکاری کو اداروں کی نجکاری کے معاہدوں میں توازن رکھنے کی ہدایت دی

کمیشن نے وزارت نجکاری سے مزید کہا ہے کہ نجکاری معاہدوں میں نجی اداروں کے کمرشل اور عوام الناس کے مفاد میں توازن رکھنا جائے نجکاری معاہدوں میں شہریوں کو معلومات تک رسائی قانون کو مد نظر رکھا جائے

چیف انفارمیشن کمشنر محمد اعظم نے فیصلے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ کے الیکٹرک کی نجکاری سے متعلق کیس سمیت سول ایوی ایشن اور کنٹونمنٹ بورڈ کراچی سے متعلق شکایات بھی نمٹائی گئی ہیں

انہوں نے بتایا کہ کے ای ایس سی کی نجکاری کی منظور شدہ شقوں میں ترمیم کے معاملے پر فیصلہ دیا گیا ہے اور اس کی کاپی سیکریٹری وزیراعظم، سیکریٹری نجکاری کو بھی ارسال کردی ہے، کمیشن نے وزرات نجکاری کو ایک ماہ میں فیصلے پر عمل درآمد کرنے کا حکم دیا ہے

واضح رہے کہ کمیشن کو دی جانے والی درخواست میں سینئر وکیل طارق منصور نے موقف اختیار کیا تھا کہ 2005ء میں کے ای ایس سی کی نجکاری کا معاہدہ ہوا جس کے بعد 2008ء اور 2009ء میں خلاف ضابطہ معاہدے برائے ناقابل تنسیخ چھوٹ و رضامندی کیے گئے

درخواست میں مزید کہا گیا تھا کہ کے ای ایس سی معاہدہ نجکاری کی تسلیم شدہ شقوں اور آئین و قانون کے خلاف کیا گیا اور بادی النظر میں 2008ء ، 2009ء ترامیمی معاہدہ قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کے لیے کیا گیا، لہٰذا ترامیمی معاہدوں کی تفصیلات عوام الناس کے سامنے رکھی جائیں اور بتایا جائے کے ای ایس سی نجکاری میں شفافیت کو کتنا مد نظر رکھا گیا.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close