مجھے زیادہ دکھ اس بات کا تھا کہ ہر بار پراسیکیوٹر کے بیان بدل لینے کے باوجود جج نے اسے ٹوکنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ پاکستان کے کمزور عدالتی نظام کا ذکر تفصیل سے یو ایس ایڈ کی 2008ع کی رپورٹ میں بھی کیا گیا ہے۔ اس کیس کی پانچویں پیشی پر میں نے قونصلیٹ جنرل کارمیلا سے مایوسی کا اظہار کیا اور اس سے پوچھا کہ کیا مجھے وکیل مل سکتا ہے۔ اس سے اگلی پیشی پر مجھے معاون مل گیا۔ اس کا تعلق امریکن قونصلیٹ سے تھا اور وہ اچھی اردو بول سکتا تھا۔ اسی دوران مجھے نیا سفارتی پاسورٹ اور ویزہ بھی جاری کر دیا گیا تھا، جس کی معیاد 2016ع تک تھی۔ امریکی حکومت کے نمائندے یا کنٹریکٹر کے لئے پاکستانی ویزے کی درخواست کی منظوری پاکستانی سفیر دیتا ہے۔ پاکستانی حکام کے نرم موقف کی وجہ سے پاکستانی سفیر حسین حقانی بڑی فراخ دلی کے ساتھ امریکی حکام کو ویزے جاری کیا کرتے تھے۔انہوں نے ہی میرے اور دیگر کنٹریکٹرز کے ویزوں کی منظوری دی تھی۔ گمنام امریکی اہلکاروں کی اس بڑھتی تعداد پر پاکستانی حکام نالاں تھے، لہٰذا انہوں نے امریکا کو ہراساں کرنے کے لئے میرا کیس اچھالنا شروع کر دیا۔ سب سے زیادہ موقع پرستی کا مظاہرہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کیا۔ انہوں نے حکومت کے اصرار پر مجھے سفارتی استثناء دینے سے انکار کرتے ہوئے بیس جنوری کو اپنے عہدے سے استعفی دے دیا۔
اپنے بیان میں انہوں (شاہ محمود قریشی) نے کہا کہ ویانا کنوینشن 1961ع اور 1963ع کے تحت امریکی سفارت خانے کے اندھے استثناء کا مطالبہ کسی بھی صورت درست نہیں ہے۔
یکم ستمبر کو کانگریس کے وفد نے بھی صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سے الگ الگ ملاقاتیں کیں۔ ان ملاقاتوں میں ویانا کنوینشن کے تحت میری رہائی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ صدر زرداری کے امریکا سے اچھے تعلقات تھے، لیکن اس کے باوجود وہ سیاسی طور پر اتنے مستحکم نہیں تھے کہ میری رہائی کے سلسلے میں کوئی مدد کر سکتے۔ میری رہائی کی صورت میں ان کے خلاف مظاہرے شروع ہو سکتے تھے سو انہوں نے میری قسمت کا فیصلہ دوسروں پر چھوڑ دیا. وزیر اعظم گیلانی بھی میری رہائی کے سلسلے میں کچھ نہیں کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے قومی اسمبلی میں میرے کیس کے بارے میں یہ کہہ کر اپنی جان چھڑا لی کہ یہ معاملہ عدالت میں زیر غور ہے۔
اسی دوران ایک وکیل نے لاہور ہائی کورٹ میں رٹ دائر کر دی کہ میری رہائی کی کوششوں پر پابندی عائد کی جائے، جس پر عدالت نے مجھے امریکی حکام کے حوالے کرنے سے روکنے کا حکم جاری کرتے ہوئے میرا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم دے دیا۔ اس کے ساتھ ہی میرے خلاف میڈیا پرلا تعدا د "سازشی کہانیاں” بھی گردش کرنے لگیں۔ ایک کہانی میں مجھے بلیک واٹر نامی تنظیم کا حصہ قرار دیا گیا جو پاکستان سے جوہری ہتھیار چرانے کی کوشش کر رہی ہے۔ ایک میڈیا نے یہ رپورٹ جاری کی کہ مجھے فون پر صدر اوبامہ سے رابطہ کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔ یہ افواہ بھی پھیلائی گئی کہ میں نے پاکستان کے حساس مقامات کی تصاویر بنائی ہیں جن میں نیوکلیئر تنصیبات بھی شامل ہیں۔ صوبائی وزیر رانا ثناءُﷲ نے میرے کیمرے سے کچھ مبینہ تصاویر کو میرے خلاف بطور ثبوت استعمال کرتے ہوئے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ میں ایک جاسوس ہوں۔ میرے خلاف سب سے منفی کہانی میرے جسمانی ریمانڈ کے چودھویں روز پاکستانی حکومت اور پولیس نے پھیلانے کی کوشش کی۔ یہ کہانی مقتول فہیم کی بیوی شمائلہ کنول کے حوالے سے تھی کہ اس نے زہریلی گولیاں نگل لیں۔ اسے فیصل آباد کے الائیڈ ہسپتال لایا گیا جہاں اس نے کیمرے کے سامنے نزاعی بیان دیا کہ اسے انصاف کی امید نہیں اس لئے احتجاجاً خودکشی کی ہے۔ اسی دوران میڈیا نے خبر جاری کی کہ شمائلہ کنول فوت ہو گئی ہے۔ میڈیا نے اسے شہید ثابت کرنے کی کوشش کی اور یہ کہ اس کی ماں معذور ہے۔ اس کی فہیم سے چھ ماہ قبل شادی ہوئی تھی اور فہیم کی موت کے بعد سے وہ سخت ڈپریشن کا شکار تھی۔ میرے لئے پریشانی کی بات یہ تھی کہ میں نو روز قبل نوجوان لیفٹیننٹ کی زبانی فہیم کی بیوہ کی خودکشی کی کہانی سن چکا تھا۔ میں حیران تھا کہ یہ خبر کیوں نو دن تک میڈیا سے چھپائی گئی۔ جماعت اسلامی کے کارکنوں نے الائیڈ ہسپتال کے باہر کنول کی ہلاکت کے خلاف جبکہ کچھ نے لاہور میں امریکی قونصلیٹ کے باہر مظاہرہ کیا۔ اس پراپگنڈے میں مجھے خوفناک عفریت کے طور پر پیش کیا گیا۔ سڑکوں پر مظاہرین نے میرے پتلے جلائے اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ مجھے پھانسی پر لٹکایا جائے۔
پولیس ٹریننگ کالج میں میری آزادی کے دن بھی ختم ہونے لگے تھے ۔ مجھے ایک چھوٹے اور اندھیرے کمرے میں رکھا جانے لگا۔ ان دنوں قونصلیٹ جنرل اور ان کے عملے سے ملاقاتیں میرے لئے کسی نعمت سے کم نہ تھیں.
چودہ روزہ ریمانڈ ختم ہونے کے بعد مجھے11 فروری 2011ع کو ماڈل ٹاؤن میں انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ اس موقع پر مسلح فوجی دستے نے گاڑی کو گھیرے میں لے رکھا تھا۔ اس کی وجہ وہ خدشات تھے جن کے تحت مذہبی انتہا پسند عناصر عوامی پذیرائی کے لئے میرا خون بہانا چاہتے تھے۔ پیشی کے دوران پراسیکیوٹر نے عدالت میں میرا مزید ریمانڈ مانگا۔ عدالت کی جانب سے ریمانڈ کی وجہ پوچھنے پر ایک پولیس افسر نے کہا کہ ملزم انتہائی مکار اور عیار ہے لہٰذا کیس کو مضبوط بنانے کے لئے مزید وقت کی ضرورت ہے۔ جج نے انکار کرتے ہوئے چالان پیش کرنے کا حکم دیا۔ اس پر میرے وکیل حسام قادری نے ایک درخواست جمع کروائی، جس میں کہا گیا کہ مجھے سفارتی استثناء حاصل ہے اور میرے خلاف مقدمہ بند کمرے میں چلایا جائے جبکہ میڈیا اور عوام کو اس کیس کی سماعت سے دور رکھا جائے۔ وکیل حسام قادری کی انگریزی اتنی اچھی نہ تھی جس کی وجہ سے مجھے مایوسی ہوئی، تاہم دلائل سننے کے بعد عدالت نے مجھے چودہ روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔
(جاری ہے)