چوالیس سال قبل آج ہی کے دن پاکستان کی تاریخ کے طویل ترین اور سیاہ ترین مارشل لا کا نفاذ ہوا تھا۔ پانچ جولائی 1977 کو چیف آف آرمی سٹاف جنرل ضیا الحق نے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت برطرف کرنے کے بعد پورے ملک میں مارشل لا نافذ کرکے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ سنبھال لیا تھا۔
کہانی تو شروع ہوتی ہے پانچ جولائی 1977 سے لیکن ہم انڈپینڈنٹ اردو کے قارئین کو اپنے والد گرامی صوبیدار (ر) رسول بخش نسیم مرحوم کی یادداشتوں پر مشتمل غیر مطبوعہ خود نوشت سوانح حیات ’پردے میں رہنے دو‘ سے اقتباسات کے ساتھ مارچ 1977 کے عام انتخابات سے سنانا شروع کرتے ہیں۔
سات مارچ 1977 کو قومی اسمبلی اور 10 مارچ 1977 کو چاروں صوبائی اسمبلیوں کے ہونے والے عام انتخابات سقوط ڈھاکہ کے بعد ’نئے‘ پاکستان کے پہلے عام انتخابات تھے۔ اگرچہ پاکستان پیپلز پارٹی کا دور حکومت 14 اگست 1978 کو ختم ہونا تھا لیکن پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے کم و بیش ایک برس سات ماہ قبل ہی قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیاں تحلیل کر دیں اور جنوری 1977 کے آغاز میں ہی انہوں نے اعلان کر دیا کہ سات مارچ 1977 کو پاکستان کی قومی اسمبلی اور 10 مارچ 1977 کو چاروں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوں گے۔
اس وقت آئین پاکستان میں نگران سیٹ اپ کے بارے میں کوئی شق موجود نہ تھی، چنانچہ ذوالفقار علی بھٹو نے نگران وزارت عظمیٰ کا منصب اپنے پاس ہی رکھا اور حزب اختلاف کی تمام جماعتوں نے اگرچہ ان کے اس فیصلے پر اعتراضات کیے مگر ان کے تمام اعتراضات کو مسترد کر دیا گیا۔
ان عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کو شکست سے دوچار کرنے کے لیے 10 جنوری 1977 کو رفیق باجوہ کے مکان پہ حزب مخالف کی نو سیاسی جماعتوں نے ’پاکستان نیشنل الائنس‘ (پی این اے) کے نام سے ایک اتحاد تشکیل دیا۔ اس نو جماعتی اتحاد میں پاکستان جمہوری پارٹی، تحریک استقلال، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے پاکستان، جمعیت علمائے اسلام ، خاکسار تحریک، پاکستان مسلم لیگ (قاسم گروپ)، نیشنل عوامی پارٹی اور آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس شامل تھیں جبکہ ایک اور سیاسی جماعت مسلم لیگ (قیوم گروپ) بھی ان انتخابات میں حصہ لے رہی تھی۔ حکومت مخالف نو جماعتی اتحاد کا سربراہ مفتی محمود کو چنا گیا۔ ان انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کا انتخابی نشان تلوار جبکہ پاکستان نیشنل الائنس کا انتخابی نشان ہل تھا۔
قومی اسمبلی کی 200 نشستوں کے کاغذات نام زدگی 19 جنوری کو داخل کیے گئے، اسی روز لاڑکانہ کی نشست پر قومی اسمبلی کے انتخابات میں ذوالفقار علی بھٹو کو بلامقابلہ کامیاب قرار دے دیا گیا کیونکہ اس سے پہلے اسی نشست پر قومی اتحاد کے امیدوار مولانا جان محمد عباسی کو اغوا کر کے نامعلوم مقام پر پہنچا کر انہیں کاغذات نامزدگی داخل کرنے سے محروم کر دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ چاروں صوبوں کے وزرائے اعلی کو بھی حریف امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد کر کے بلا مقابلہ کامیاب قرار دے دیا گیا۔ ملک کے انتخابات میں یہ دھاندلی کی ابتدا تھی۔
خدا خدا کر کے سات مارچ 1977 کا سورج طلوع ہوا اور اس کے ساتھ ہی انتخابی عمل بھی شروع ہوا اور شام تک انتخابی نتائج آنا بھی شروع ہو گئے۔
200 نشستوں میں سے پاکستان پیپلز پارٹی پہلے ہی 19 نشستوں پر بلا مقابلہ کامیاب قرار پا چکی تھی۔ ان بلامقابلہ کامیاب ہونے والوں میں ذوالفقار علی بھٹو بھی تھے جو لاڑکانہ کی نشست سے کامیاب ہوئے تھے۔ بلامقابلہ کامیاب ہونے والوں میں 15 کا تعلق صوبہ سندھ اور چار کا تعلق صوبہ بلوچستان سے تھا۔ البتہ لاڑکانہ وہ ضلع تھا جہاں ووٹنگ ممکن نہ ہو سکی، کیونکہ تینوں نشستوں پر حکمران جماعت کے لوگ بھٹو سمیت بلامقابلہ کامیاب ہو گئے تھے۔
قومی اسمبلی کی بقایا 181 نشستوں پر ہونے والے انتخابات کے نتائج کا اعلان ہوا تو حزب اختلاف کا نو جماعتی اتحاد محض 36 نشستوں پر ہی کامیابی حاصل کر پایا جبکہ حکمران جماعت نے 155 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ ایک نشست مسلم لیگ (قیوم گروپ) اور آٹھ نشستیں آزاد امیدواروں کے حصے میں آئیں۔ پاکستان نیشنل الائنس نے صوبہ سرحد سے 17، پنجاب سے آٹھ اور صوبہ سندھ سے 11 نشستیں حاصل کیں جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی نے پنجاب سے 107، سندھ سے 32، سرحد سے آٹھ اور بلوچستان سے سات نشستیں حاصل کیں۔ ان انتخابات میں پی این اے کے اکثر رہنما ایک سے زائد نشستوں پر انتخاب لڑ رہے تھے، ان رہنماؤں میں سے مفتی محمود اور بیگم نسیم ولی خان دو دو حلقوں سے کامیاب ہوئے۔ اصغر خان بھی دو حلقوں سے کامیاب ہوئے جبکہ انہوں نے پانچ حلقوں سے انتخاب لڑا تھا۔ پروفیسر غفور احمد اور شیر باز خان مزاری ایک ایک نشست جیتنے والے رہنما تھے۔
ان انتخابات میں ملک قاسم، چوہدری ظہور الٰہی اور مولانا عبدالستار خان نیازی کامیابی حاصل نہ کر سکے چنانچہ پی این اے کے رہنماؤں نے انتخابی نتائج تسلیم نہ کرنے کے ساتھ ساتھ 10 مارچ 1977 کو چاروں صوبائی اسمبلیوں کے ہونے والے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان بھی کر دیا۔ ان کے اس بائیکاٹ کے باعث خواتین کی مخصوص دس نشستوں پر بھی پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والی تمام خواتین کامیاب ہو گئیں، جن میں بیگم نصرت بھٹو، نسیم سلطانہ، مبارک بیگم، نرگس نعیم، دلشاد بیگم، نفیسہ خالد، بیگم کلثوم سیف اللہ ، بیگم سمیعہ عثمان فتح اور بیگم بلقیس حبیب اللہ شامل تھیں۔
ان حالات میں پاکستان نیشنل الائنس کے رہنماؤں نے دھاندلی کا الزام لگا کر ملک بھر میں احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان کر دیا۔ حکومت کی طرف سے گرفتاریاں شروع ہو گئیں جس سے مزید حالات خراب ہو گئے۔ تقریبا 12 ہفتوں کے بعد تین جون 1977 کو حکومت اور پی این اے کے درمیان بات چیت کا آغاز ہوا۔ اس میں حکومت سے زخمی افراد کی مالی معاونت، میڈیا پر پی این اے کے خلاف پروپیگنڈا مہم فوری طور پر ختم کرنے اور تحریک کے قائدین کی رہائی جیسے مطالبات کیے گئے۔
دوسرے اجلاس میں پی این اے کے سربراہ مفتی محمود نے دوبارہ انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا جس میں جزئیات پر اختلاف ہوا لیکن آخرکار ذوالفقار علی بھٹو (نہ چاہتے ہوئے بھی) مان گئے۔ یہ سلسلہ چلتا رہا اور مذاکرات کی آٹھویں نشست میں حکومت کا اصرار تھا کہ انتخابات نومبر میں ہوں گے جبکہ پی این اے کا مطالبہ تھا کہ 14 اگست 1977 سے پہلے کروائے جائیں۔ 15 جون 1977 کو نویں نشست منعقد ہوئی اور مذاکرات آخری مراحل میں داخل ہو گئے اور فریقین کے دستخط کے بعد مکمل متن پریس کو جاری کرنے پر اتفاق ہو گیا۔
لیکن اس بےحد نازک موڑ پر بھٹو صاحب نے ایک ایسا فیصلہ کیا جس پر آج تک سوال اٹھ رہے ہیں۔ پہلے انہوں نے تھکاوٹ کا عذر کر کے پانچ دن لاڑکانہ جانے کا ارادہ کیا، پھر 18 جون کو اچانک بیرونِ ملک چلے گئے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بھٹو صاحب دستخط کے لیے تیار نہیں تھے۔ قومی اتحاد کی مذاکراتی ٹیم نے بھٹو صاحب کو اس عمل سے سختی سے روکا بھی تھا۔
بھٹو صاحب کی طرف سے اس دوران ایک اور غیر آئینی اقدام کا ارتکاب کچھ یوں کیا گیا کہ ابھی معاہدے پر دستخط نہیں ہوئے تھے، صرف زبانی معاہدہ تھا لیکن غلام مصطفیٰ کھر نے وزیر اعظم کے خصوصی مشیر کے طور پر حلف اٹھا لیا جو نہ صرف آئین کی خلاف ورزی تھی بلکہ پی این اے کے ساتھ سخت بددیانتی بھی تھی۔ تاہم پی این اے کے قانونی ماہرین نے سمجھوتے کی ضروری تفصیلات طے کرنے کے بعد پروفیسر غفور احمد کے ذریعے عبدالحفیظ پیر زادہ کو انتخابی قوانین میں تبدیلیوں سے متعلق تجاویز فراہم کر دیں۔ مذکراتی ٹیم کا 20 جون کا اجلاس بھی بدستور اختلاف ختم ہوئے بغیر اختتام پذیر ہوا۔ حکومت اور پی این اے کے مابین اختلاف، نئے انتخابات کی تاریخ، قیدیوں کی رہائی، اسمبلیوں کے توڑنے کی تاریخ، سینٹ کے نئے ارکین کی رکنیت ختم کرنے کی تاریخ پر ہو رہا تھا۔
مذاکرات کے اہم موڑ پر ذوالفقار علی بھٹو کے بیرون ملک جانے کا تذکرہ اوپر ہو چکا ہے۔ بہرحال ذیلی کمیٹیوں میں مذاکرات ٹوٹ چکے تھے اور بھٹو صاحب نے تہران سے پیغام جاری کیا کہ مذاکرات ٹوٹ نہیں سکتے۔ 22 جون کو پی این اے نے یوم احتجاج کا اعلان کیا جس پر پیرزادہ صاحب نے سخت ردعمل کا اظہار کیا۔ 23 جون 1977 کو بھٹو صاحب وطن واپس پہنچ گئے اور مذاکرات کا ایک نیا دور شروع ہو گیا۔ اس اجلاس میں مذاکراتی ٹیم کے تمام ارکان نے حصہ لیا۔ معاہدے کا مسودہ بھٹو صاحب کو پیش کیا گیا جس پر بھٹو صاحب نے صحافیوں سے گفتگوں کرتے ہوئے کہا کہ ان کے اور پی این اے کے مابین بنیادی اور اصولی طور پر سمجھوتہ طے پا گیا ہے لیکن بھٹو صاحب معاہدہ کرنے میں سنجیدہ نہیں تھے۔
25 جون 1977 کو ایک اور اجلاس منعقد ہوا جس میں مسودے کی بعض شقوں پر غور کیا گیا جو 23 جون کو پی این اے نے پیش کیا تھا۔ اس نشست میں ذوالفقار علی بھٹو نے اپنا تیار کردہ مسودہ مفتی محمود کو پیش کیا، جنہوں نے اس پر غور کرنے کے لیے وقت مانگا لیکن پی این اے کے مسودے پر شق وار غور کرنے کے ساتھ ایک نیا مسودہ دینا بہرحال بہت بڑا سوال ہے۔ 26 جون کے اجلاس میں جب دونوں مسودوں کا موازنہ کیا گیا تو دونوں میں زمین و آسماں کا فرق تھا۔
آخر کار طے پایا کہ لیگل کمیٹی کی مدد سے پی این اے کے فیصلوں کی روشنی میں معاہدہ کا نیا ڈرافٹ تیار کیا جائے جو منظوری کے بعد ایک مسودے کی حثیت سے حکومت کو پیش کر دیا جائے۔ 30 جون کو مذکرات کی ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں پی این اے کے ترمیمی مسودے پر حفیظ پیرزادہ نے 17 شقوں پر رضامندی کا اظہار کیا۔
آگے کے دنوں کی روداد یوم وار سنیے:
یکم جولائی
طویل اجلاس میں پی این اے کے ترمیمی معاہدے پر شق وار غور کیا گیا اور ان اختلافی امور پر بحث ہوئی جن پر ذیلی کمیٹی کا اختلاف تھا۔ اس اجلاس میں آئندہ نشست کا وقت بھی طے پایا۔
دو جولائی
ذیلی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں ترامیم زیر غور آئیں اور پی این اے کے ترمیم شدہ مسودے پر حفیظ پیرزادہ نے رضامندی ظاہر کر دی۔
تین جولائی
نشست اس پر منتج ہوئی کہ ذوالفقار علی بھٹو معاہدے کو قانونی حیثیت دینے پر آمادہ نہیں ہیں۔
چار جولائی
1977 کو ذوالفقار علی بھٹو نے پریس کانفرنس میں کہا کہ میں نے ساری باتیں مان لیں، دستخط ہونا تھے لیکن مجھ پر انحراف کا الزام لگا دیا گیا۔ ساتھ ساتھ یہ بھی کہا کہ پی این اے نے مزید نئے نکات پیش کر دیے حالانکہ یہ خلاف واقعہ تھا۔ اس میں کوئی چیز نئی نہیں تھی بلکہ وہی ترمیم شدہ مسودہ تھا جس کے بارے میں پی این اے کا موقف تھا کہ خصوصی عدالتوں سے متعلق معاملہ اور نگران کونسل کو عارضی مدت کے لیے دستور کا حصہ بنانے کا معاملہ حل کرنا فریقین میں سے کسی کے لیے بھی نا ممکن نہیں تھا۔
پانچ جولائی
پاکستان کی تاریخ میں یہ دن بھلایا نہیں جا سکتا، یہی وہ دن تھا جب پاکستان میں سورج طلوع ہونے سے قبل ہی پورے ملک میں مارشل لا نافذ ہو چکا تھا، فوج کی اس کارروائی کو ’آپریشن فیئر پلے‘ کا نام دیا گیا تھا، یہ کوئی اچانک اور غیر متوقع اقدام نہیں تھا۔ پانچ جولائی 1977 کی صبح چھ بج کر چار منٹ پر مسلح افواج کے ترجمان کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ مسلح افواج نے پانچ جولائی کی صبح سے ملک میں نظم و نسق سنبھال لیا ہے اور تمام سیاسی رہنما عارضی طور پر مارشل لا حکومت کی حفاظت میں ہیں۔
ایسا عظیم انقلاب بپا ہونے کے باوجود ملک میں حالات کلی طور پر معمول کے مطابق رہے۔ بڑے پیمانے پر کوئی احتجاج نہیں ہوا، بلکہ گذشتہ حالات کے پس منظر میں اسے ایک عمومی پذیرائی میسر آ گئی۔ اسی روز جنرل ضیاء الحق نے راولپنڈی میں صدر مملکت فضل الہیٰ چوہدری اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس یعقوب علی خاں سے ملاقات کی۔ پانچ جولائی کو 1977 کے مارشل لا کے نفاذ سے متعلق ایک غیر معمولی گزٹ شائع ہوا جس میں اعلان کیا گیا کہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل محمد ضیاء الحق نے پورے ملک میں مارشل لا نافذ کر کے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ سنبھال لیا ہے اور حکم دیا ہے:
▪️اسلامی جمہوریہ پاکستان کا دستور معطل رہے گا
▪️قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلیاں توڑ دی گئی ہیں
▪️وزیر اعظم، وفاقی وزرا، وفاقی وزرائے مملکت، وزیر اعظم کے مشیر، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر، سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین، صوبائی گورنر، صوبائی وزرائے اعلیٰ اور صوبائی وزرا اپنے عہدوں پر قائم نہیں رہیں گے۔
▪️صدر پاکستان اپنے عہدہ پر کام کرتے رہیں گے
▪️پورا ملک مارشل لا کے تحت آ گیا ہے
28 جولائی 1977 کو جب مارشل لا حکام نے پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان نیشنل الائنس کے سرکردہ رہنماؤں کو رہا کیا تو پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور ملک کے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اسلام آباد، لاہور، لاڑکانہ اور پشاور کے طوفانی دورے کیے اور مارشل لا حکومت کے خلاف جارحانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے تقاریر کیں۔
انہی دنوں مارشل لا حکومت کے ایما پر معزول وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف مقدمات تلاش کرنے کا آغاز ہوا اور بالآخر ریاستی اداروں نے ایک ایسا مقدمہ تلاش کر لیا، جس کے شکنجے میں ذوالفقار علی بھٹو کی گردن پھنسا کر بالآخر انہیں تختہ دار تک پہنچایا گیا۔
یہ پاکستان پیپلز پارٹی ہی کے رہنما احمد رضا قصوری کے والد نواب محمد احمد قصوری کے قتل کا مقدمہ تھا جنہیں 11 نوممبر 1974 کو اس وقت قتل کیا گیا جب وہ اپنے اہل خانہ کے ہمراہ ایک شادی میں شرکت کے بعد اپنے گھر واپس جا رہے تھے۔ یہ کہانی چار اپریل 1979 کی صبح دو بج کر پانچ منٹ پر اپنے اختتام کو پہنچ گئی تھی، مگر اس کہانی کا پہلا باب ٹھیک 640 دن پہلے چار جولائی 1977 کو لکھا گیا تھا۔
نوٹ: ادارے کا مضمون میں بیان کردہ واقعات اور اس کے متن سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے. یہ مضمون قارئین کی دلچسپی اور معلومات کے لیے انڈیپنڈنٹ اردو کے شکریے کے ساتھ شائع کیا گیا.