اپنے ہی ہیروں کی آمدن سے محروم افریقی ممالک کا المیہ

ویب ڈیسک

برِاعظم افریقہ میں ہیروں کی غیر قانونی تجارت نے مقامی لوگوں کو ترقی اور خوشحالی کے حق سے محروم کر رکھا ہے۔ طاقتور ملکوں کے اسمگلر ہیروں کی مدد سے منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت میں ملوث ہیں

افریقہ کے ہیروں سے مالا مال ممالک میں اس قیمتی ترین شے کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدن مقامی لوگوں کے معیارِ زندگی میں بہت کم ہی بہتری لاتی ہے تاہم بوٹسوانا کو اس معاملے میں استثنٰی حاصل ہے

ورلڈ بینک کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ یہ زیریں صحارا افریقہ کے سب سے خوشحال ممالک میں سے ایک بن گیا ہے

افریقہ کے ان ممالک میں کیا ہوتا ہے، جہاں سماجی و اقتصادی فوائد حاصل کیے بغیر جواہرات نکالے جاتے ہیں۔ اس بارے میں ہیروں کی صنعت کے اندرونی حالات سے واقف افراد اور ماہرین مختلف آراء رکھتے ہیں

ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو (ڈی آر سی) میں افریقی ڈائمنڈ کونسل کے صدر ڈاکٹر ایمزی فُولا اینگیگے اس حوالے سے کہتے ہیں کہ وسیع پیمانے پر لالچ، بعد از نوآبادیاتی علیحدگی، نیز پبلک سیکٹر اور حکومتی جوابدہی کی کمی کی وجہ سے عدم استحکام اور تنازعات کی ایک تاریخ ہے

اینگیگے کا کہنا ہے کہ کانگو کے کچھ خطوں میں تنازعات کا منظر نامہ دوسرے افریقی ممالک میں بار بار دیکھا جاتا ہے، جہاں معدنیات کی بہتات ہے اور یہ کہ ان ممالک کو جان بوجھ کر سیاسی اور سماجی عدم استحکام کا نشانہ بنایا جاتا ہے

کانگو، انگولا، موزمبیق اور افریقہ کے بہت سے دوسرے معدنیات سے مالا مال ممالک میں جو ایک چیز مشترک ہے، وہ معدنی وسائل کے استحصال کی دو الگ الگ منڈیاں ہیں۔ ان میں سے ایک تو قانونی طریقے سے باضابطہ طور پر ہیروں کی کان کنی کی صنعت ہے، جبکہ دوسری ایک خفیہ صنعت ہے، جس پر کان کنوں اور ان کے کفیلوں کا غلبہ ہے

صورتحال کا جائزہ لینے کے لیمے اور پتہ چلانے کے لیے کہ ہیروں کی پیداوار اور تجارت کی خفیہ مارکیٹ کیسے چلتی ہے، حال ہی میں جرمن نشریاتی ادارے ڈی ڈبلیو کی ایک ٹیم نے کانگو کی سرحد پر واقع انگولا کے صوبے لنڈا نورٹے میں ہیروں کی کان کنی کے قصبے کافونفو کا دورہ کیا

کائینگو اڈیلینو دس سال سے زائد عرصے تک ہیروں کے ایک غیر رسمی کارکن یا گیریمپیروس رہے ہیں۔ انچاس سالہ اڈیلینوکا کہنا ہے کہ ایک عام اصول کے طور پرگیریمپیروس کے گروپوں کے اسپانسرز ہوتے ہیں، جو انہیں کان کنی کے لیے ادائیگی کرتے اور ہیرے خریدتے ہیں

رپورٹ کے مطابق سینیگال، چین، فرانس، اریٹیریا، گھانا اور جمہوریہ کانگو کے شہری قیمتی پتھروں کی خرید و فروخت کے لیے پوشیدہ بازار پر غلبہ رکھتے ہیں، خاص طور پر گیریمپیرو کے ذریعے ہیروں کی کان کنی پر

ایک کفیل گیرمپیروز کو کان میں ان کی زندگی گزارنے کے لیے ضروری سامان مہیا کرتا ہے، جس کے بعد اس سامان کی قیمت ہیروں کی ادائیگی سے کاٹ لی جاتی ہے جو گیریمپیروس ہیرے بیچ کر کماتے ہیں

اڈیلینو کہتے ہیں ”آخری بار جب میں نے ہیرا بیچا تو اس کی قیمت بارہ سو پچاس ڈالر تھی۔ یہ حقیقی قیمتیں نہیں ہیں کیونکہ ہم سے ہیروں کی خریداری کے لیے جو پیمانہ استعمال کیا جاتا ہے وہ اس سے مختلف ہے، جو ہیروں کی فروخت کے بازار میں ہوتا ہے۔‘‘

کافونفو میں غیر رسمی کارکنوں کی جانب سے نکالے گئے ہیروں کے خریدار ایک اسپانسر یا سرمایہ کار کے طور پر کسی بھی ہیرے کی قیمت فروخت کا پچاس فیصد حصہ پہلے ہی اپنے پاس رکھتے ہیں اور اس کے بعد بقیہ پچاس فیصد رقم گریمپیروس میں تقسیم کر دی جاتی ہے

افریقی ڈائمنڈ کونسل کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ افریقی سے نکالے جانے والے خام ہیروں کی اسمگلنگ کی صورت میں افریقی ہیروں کی کل پیداوار کا اٹھائیس سے بتیس فیصد حصہ ضائع ہو جاتا ہے

ڈاکٹر اینگیگے کا کہنا ہے کہ آمدنی کا تعلق خاص طور پر خام اور قدرتی، غیر دستاویزی یا غیر تصدیق شدہ ہیروں سے ہوتا ہے، جو افریقی براعظم پر ہیروں کی کان کنی والے ممالک سے باہر ہیروں کے مراکز میں اسمگل کیے جاتے ہیں

وہ بتاتے ہیں ”بعض صورتوں میں بہت سے غیر قانونی ہیرے ضبط کر لیے جاتے ہیں اور وہ ان ممالک کی ریاست کی ملکیت بن جاتے ہیں جو انہیں ضبط کرتے ہیں۔ لہٰذا ‘ترقی یافتہ دنیا‘، یقینی طور پر اس قسم کی کوتاہی کی طرف آنکھیں، کان اور منہ بند کرنے کی زمہ دار ہے۔‘‘

اس سلسلے میں ڈی ڈبلیو نے ہیروں کی جغرافیائی سیاست اور خام ہیروں کی دنیا میں منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کے طریقہ کار کے ایک ماہر سے بات کی، جس نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی

اس ماہر کا کہنا تھا ”بعض اوقات ہیروں کو انگولا کی کانوں سے چوری کر کے کانگو لے جایا جاتا ہے اور پھر ان دستاویزات کے ذریعے دبئی برآمد کیا جاتا ہے، جن میں کہا جاتا ہے کہ یہ ہیرے کانگو سے آئے ہیں، جبکہ اصل میں یہ انگولا سے آتے ہیں۔‘‘ تاہم افریقی ڈائمنڈ کونسل کے صدر کے مطابق اس طرح کی سرگرمیوں سے نمٹنے کا واحد طریقہ غربت سے لڑنا ہے

انگولا کے ایک صحافی، انسانی حقوق کے کارکن اور معروف کتاب ’بلڈ ڈائمنڈز‘ کے مصنف رافیل مارکیز ڈی موریس ہیروں کی تصدیق کے عالمی طریقہ کار یا ”کمبرلے عمل‘‘ کو ناقص قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں ”ایک تنازعہ ہے، مقامی کمیونٹیز کا استحصال ہے، روس کے الروسا گروپ کی طرف سے ہیرے نکالنے میں مقامی برادریوں کے ساتھ بدسلوکی ہے۔‘‘

الروسا انگولا اور افریقہ کے دیگر حصوں میں کان کنی میں دلچسپی رکھتا ہے۔ ”یہ کمبرلے عمل کا مسئلہ ہے۔ یہ کچھ ممالک کے اسٹریٹجک مفادات کے مطابق کام کرتا ہے۔‘‘ روسی ہیروں کی کمائی کا یوکرین کی جنگ میں ایک کردار ہے

ڈائمنڈ جیو پولیٹکس کے ماہر اس سے اتفاق کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے ”الروسا آپریشن سے ہیروں کی آمدنی کو ہدف بنانا اہم ہے تاکہ یوکرین میں جنگ کے لیے روسی پیسے کے فوری بھاؤ کو روکا جا سکے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا ”بیلجیئم کے وزیر اعظم اپنے فوجیوں کو یوکرین بھیجنے کی تیاری کر رہے ہیں جب کہ بیلجیئم اپنے شہر اینٹورپ میں روسی خام ہیروں کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی کی رقم ماسکو کو فراہم کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ کیا یہ مفادات کا ٹکراؤ نہیں ؟‘‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close