سندھی زبان میں بننے والی مختصر پاکستانی فلم ’اے ٹرین کراسز دی ڈیزرٹ‘ کو ساتویں عالمی میلے کے لیے منتخب کر لیا گیا ہے
یاد رہے کہ گوئتے انسٹیٹیوٹ کراچی نے 2019ع میں پاکستان اور افغانستان کے فلم سازی میں دلچسپی رکھنے والے نوجوانوں کے لیے ایک فیلوشپ کا اعلان کیا تھا، یہ فلم بھی اسی سلسلے ی ایک کڑی ہے
فیلوشپ میں پاکستان اور افغانستان سے مجموعی طور پر پندرہ نوجوانوں کا انتخاب کیا گیا، جن میں کراچی کے راہول اعجاز بھی شامل تھے
مذکورہ مختصر دورانیے کی سندھی فلم کے ڈائریکٹر اور لکھاری راہول اعجاز کا کہنا ہے کہ فیلوشپ کے اختتام پر گوئتے انسٹیٹیوٹ اور جرمنی نے انہیں فلم بنانے کے لیے کچھ فنڈنگ دی، جس سے انہوں نے ’اے ٹرین کراسز دی ڈیزرٹ‘ بنائی
انہوں نے مزید بتایا کہ فلم کی اب تک چھ عالمی فلم میلوں میں نمائش ہوچکی ہے، جو بھارت، میکسیکو، ترکی اور امریکہ میں منعقد ہوئے تھے
’اب یہ فلم ستمبر میں روس کے ‘کازان انٹرنیشنل فلم فیسٹیول’ کے لیے بھی منتخب کی گئی ہے، جہاں اسے روسی زبان میں دکھایا جائے گا۔‘
اس فلم کی کہانی دو بھائیوں کے گرد گھومتی ہے جن میں سے ایک کینسر کا مریض ہے۔ وہ اپنے درد سے نکلنا چاہتا اور مرنا چاہتا ہے۔ وہ اپنے بھائی کو درخواست کرتا ہے کہ اسے مار دو
راہول اعجاز نے بتایا کہ انہیں فلم کے مرکزی خیال سے مکمل کرنے تک چھ مہینے لگے
ان کا کہنا ہے کہ بجٹ کم ہونے کے باعث ایک ہی دن میں شوٹ کیا، جبکہ سکرپٹ پر ڈیڑھ مہینہ لگا۔ کووڈ وبا کی وجہ سے پراجیکٹ سست روی کا شکار رہا۔ تین چار مہینے ایڈیٹنگ میں لگے
سندھی زبان میں شارٹ فلمیں بنانے کا رجحان بہت کم ہے، جس کی وجہ سے بہت ہی کم فلمیں بنی ہیں۔ راہول کے مطابق سندھی شارٹ اور فیچر فلموں کا بڑا سکوپ ہے، مگر یہاں کم لوگ ہی سندھی فلم بنانے کا سوچتے ہیں
انہوں نے کہا کہ میری فلم کو عام لوگوں اور فلم سازوں نے بہت سراہا ہے۔ اتنا اچھا رسپانس ملنے کے بعد اب میں سندھی ثقافت پر ایک فلم بنانا چاہتا ہوں، جو میں نے لکھ لی ہے اور جلد ہی اس پر کام شروع کرنے کا ارادہ ہے.
راہول اعجاز ایک مصنف ، فلم ساز اور پاکستان میں مقیم صحافی ہیں۔ جے پور انٹرنیشنل فلم فیسٹیول (2021) اور ساؤتھ ایشین انٹرنیشنل فلم فیسٹیول (2020) جیسے فلم میلوں میں ان کی مختصر فلم ‘اے ٹرین کراسز دی صحرا’ چار ممالک میں نمائش کے لئے پیش کی گئی۔ اسے ہندوستان اور ترکی کے فلم میں بھی نامزد کیا گیا تھا۔
فلم ‘اے ٹرین کراس دی ڈیزرٹ’ سے راہول اعجاز کا کہنا ہے کہ اس فلم کی تخلیق کا تعلق میری ایک گہری ذاتی جذباتی وابستگی سے ہے۔ میں کافی عرصے سے موت اور خاص طور پر خودکشی کے خیال سے متاثر ہوا ہوں۔ جب میں پانچ سال کا تھا تو اپنے چچا کو خود کشی کی موت کے باعث کھو دیا تھا، اور اس کے بعد دو سال قبل اپنے چھوٹے کزن کو کینسر کی وجہ سے کھونے کا مجھ پر دیرپا اثر پڑا۔ کسی طرح یہ دونوں نقصانات مجھ میں ایک ناقابل معافی احساس پیدا کرنے کے لئے اکٹھے ہو گئے۔ میں اسے کبھی کبھی جرم قرار دیتا ہوں۔ تو شاید یہ فلم میرے جرم کا اظہار ہے کہ میں اپنے کزن کے آس پاس موجود سب کے ساتھ بے بس تھا۔ یہ متضاد احساس کا بھی اظہار ہے۔ اسی لئے میں نے اس فلم کو لکھنے اور بنانے کا فیصلہ کیا۔
ان کا کہنا ہے کہ میں ذاتی طور پر ڈیوڈ لنچ ، فرانسیسی نیو ویو فلم سازوں اور اطالوی نیورالیزم جیسے حقیقت پسند فلم سازوں کے کاموں سے متاثر ہوا ہوں۔ لہٰذا میں کوشش کرتا ہوں کہ اپنے الفاظ اور نظریات کو نورالائزم اور حقیقت پسندی کے مابین عمدہ لکیر پر متوازن رکھوں۔
راہول اعجاز کہتے ہیں کہ میں فلم میں کسی بھی موقع پر ، یہ کسی بھی طرح سے اشارہ کر سکتا ہے اور یہ سامعین پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ اس دباؤ اور کھینچ کو محسوس کریں۔ ایک کہانی کے اندر بنیادی طور پر اس کہانی کی ترتیب کے ساتھ ، میں چاہتا ہوں کہ سامعین اس تنگ جگہ پر گھٹن کا احساس محسوس کریں۔ میں سامعین کو یہ محسوس کرانا چاہتا ہوں کہ وہ کمرے میں ان دو بھائیوں کے ساتھ موجود ہیں ، ان میں سے ایک کی موت ہے اور دوسرا مخمصے کا شکار ہے جس نے فیصلہ کرنا ہے کہ اسے کسی بھی طرح سے بچانے کی کوشش کرنا ہے یا پلگ کھینچنا ہے۔ ان کی زندگی مکمل طور پر رک چکی ہے اور فلم کی رفتار (کرداروں کی زندگی کی رفتار سے ملنے کے لئے) کم کرنے سے ، منشا یہ ہے کہ سامعین یہ محسوس کریں کہ وہ ان کرداروں کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔ موت ، خودکشی اور نقصان عالمگیر ہونے کی وجہ سے ، مجھے لگتا ہے کہ ہر کسی نہ کسی طرح ہر کسی کا اس فلم سے تعلق ہوگا.