پاکستان پیپلز پارٹی کا جلسہ ہو اور "تم کتنے بھٹو مارو گے، ہر گھر سے بھٹو نکلے گا” کا نعرہ نہ لگے، یہ ناممکن ہے. یہ نعرہ آج بھی جیالوں کا لہو گرما دیتا ہے، ایک طرح سے یہ نعرہ پیپلزپارٹی کی عوامی شناخت بن چکا ہے، لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ نعرہ ایک نظم کے مصرعے سے اخذ کیا گیا ہے. اس نظم کے شاعر سے بھی بہت کم ہی لوگ واقف ہیں
اس نظم کے تخلیق کار شاعر کا نام نصیر کوی ہے. نصیر کوی 1946ع کو جہلم میں پیدا ہوئے۔ وہ پنجابی اور اردو کے شاعر تھے۔ ان کی یہ مشہور نظم ”تم کتنے بھٹو مارو گے” بہت مشہور ہوئی۔
نصیر کوی انقلابی سوچ کے انسان تھے جس کا اظہار ان کی شاعری میں موجود ہے۔ ان کا انتقال 24 نومبر 2014ع کو جہلم میں ہوا۔ ان کی کتاب ”ساڈے ہتھ اگنی دا تا“ ان کی وفات سے چند دن پہلے شائع ہوئی
سنگت میگ کےقارئین کے لیے ہم نصیر کوی کی یہ مکمل نظم یہاں پیش کر رہے ہیں
❖ نظم
ہر گھر سے بھٹو نکلے گا،
تم کتنے بھٹو مارو گے..
تم ڈاکو چور لٹیرے بھی نگرانی کرنے آئے ہو،
تم خلقِ خدا کے ٹھکرائے سلطانی کرنے آئے ہو،
تم بھوکے ننگوں کے خوں کی ارزانی کرنے آئے ہو،
تم ٹینکوں توپوں کے بل پر من مانی کرنے آئے ہو..
تم آمر کے پروردہ ہو، جمہور کے معنی کیا جانو؟
تم قاتل ہو دستوروں کے، دستور کے معنی کیا جانو؟
تم فتویٰ گر ہو شاہوں کے، منصور کے معنی کیا جانو؟
تم تاریکی کے پالے ہو، تم نور کے معنی کیا جانو؟
ہم بھٹو کے دیوانے ہیں، یہ جان امانت بھٹو کی،
بی بی پہ کرنے آئے ہیں قربان امانت بھٹو کی،
ہم آن پہ مرنے والے ہیں، یہ آن امانت بھٹو کی،
جس شان سے مقتل میں آئے، وہ شان امانت بھٹو کی..
کیوں اتنا بوجھ اٹھاتے ہو، کل کیسے قرض اتارو گے!؟
تم اپنی جاں بخشی کے لیے پھر ہم سے عرض گزارو گے،
یہ بازی جان کی بازی ہے، اور تم یہ بازی ہارو گے،
ہر گھر سے بھٹو نکلے گا، تم کتنے بھٹو مارو گے…!!
بنیادی طور پر پنجابی شاعر نصیر کوی اپنی قسمت پر مطمئن تھا۔ جہلم میں جی ٹی روڈ پر واقع دوست کے ہوٹل کے باہر ایک کھوکھے میں پان سیگریٹ بیچتے ہوئے آمرانہ حکومتوں کے خلاف انقلابی نظمیں لکھتے ہوئے، اس کی طبیعت خراب ہونا شروع ہو گئی، تو اسے لاہور شوکت خانم میموریل ٹرسٹ کینسر ہسپتال میں لایا گیا۔
یہاں مختلف ٹیسٹوں کے بعد کوی کو بتایا گیا کہ انھیں پروسٹیٹ کا کینسر ہے۔ دوستوں کی ان کے علاج کے لئے جمع کی گئی دو لاکھ پچاس ہزار روپے کی رقم پہلے ہی ابتدائی اخراجات میں ہی ختم ہو گئی تھی۔ تب ایک نجی ٹی وی چینل پر پی پی پی کے اس نظریاتی کارکن کی اذیت کو اجاگر کرنے والی ایک دستاویزی فلم نشر ہونے کے بعد کوی کو ایک دن اور دو راتوں کے لئے گورنر ہاؤس لاہور میں مدعو کیا گیا تھا۔ اس وقت پیپلز پارٹی کے گورنر لطیف کھوسہ نے کوی کے علاج کے تمام اخراجات برداشت کرنے کا وعدہ کیا تھا، لیکن یہ اعلان محض ایک اخباری خبر ہی رہا، نصیر کوی اپنی غربت اور غیرت کی وجہ سے کینسر کے خلاف جنگ جاری نہ سکا، اس کے دو ماہ بعد وہ اس دنیا سے رخصت ہو گیا
نصیر کوی نے اکتوبر 1947 میں جہلم کے ایک سفید پوش گھرانے میں آنکھ کھولی۔ جہلم شہر میں دریاء جہلم کی ٹھنڈی ہواؤں اور پر سکون گلیوں میں بچپن گزار کر اس نے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ وہ مالی نا آسودگی کا دور تھا، جس کا شکار ان کا گھرانا بھی تھا۔ خراب معاشی حالات کی ستم ظریفی اور تنگدستی کے ہاتھوں اسے اپنی تعلیم ادھوری چھوڑنی پڑی۔ چھوٹا سا شہر ہونے کی وجہ سے میٹرک پاس کو نوکری کیا ملتی، مزدوری ملنی بھی مشکل ہو گئی تھی
انہی دنوں تربیلا کے مقام پر بہت بڑے ڈیم کی تعمیر شروع ہو رہی تھی۔ شہر سے کافی لوگ تربیلا ڈیم میں مزدوری کے لئے گئے ہوئے تھے۔ اس نے بھی وہاں جانے کی ٹھانی اور بطور ترکھان وہاں پر نوکری کر لی۔ اپنے جیسے دوسرے بہت سے نوجوانوں کے ساتھ وہ بھی کام میں جتا ہوا تھا، جن کی کمائی سے پیچھے ان کے گھروں کے چولہے جل رہے تھے
تربیلا ڈیم مکمل ہوا تو ستر کی دہائی کے درمیان تیل کی دولت دریافت ہونے پر مڈل ایسٹ میں ہنرمندوں کی بہت ڈیمانڈ ہو گئی تھی، نصیر کو بھی سعودی عرب میں نوکری مل گئی۔ سعودی عرب میں چار پانچ سال کی سخت محنت کے بعد وہ اپنے وطن واپس لوٹا۔ وطن واپس کے بعد اس نے اپنی محنت سے کمائے گئے پیسوں میں سے کی گئی بچت کے تھوڑے سے سرمائے سے جہلم شہر میں میں ایک مناسب سا ہوٹل کھول لیا۔ زندگی ایک ڈگر پر چل نکلی
اسے روزی کمانے کا ایک مستقل ٹھکانہ مل گیا تھا۔ ابتدا میں اس کا کام چل نکلا تو زندگی کے معمولات میں کچھ بہتری آ گئی۔ انہی دنوں نصیر سیاست میں متحرک ہوا، اس وقت ایم آر ڈی کی تحریک زور پکڑ رہی تھی۔ اب اس کا ہوٹل ایک سیاسی کارکن کا ہوٹل بن گیا تھا، ظاہر ہے اس میں سیاسی کارکن ہی زیادہ آ کر بیٹھتے تھے جو سارا دن ایک چائے کی پیالی پر گزار دیتے تھے۔ دیکھتے دیکھتے اس کا ہوٹل پارٹی کی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا
اس میں کارکنوں کے اجلاس ہونے لگے تو ہوٹل پر چھاپے پڑنے شروع ہو گئے۔ ایک چھاپے کے بعد ہوٹل سیل ہو گیا اور نصیر کو بھی زیر زمین جانا پڑا۔ مستقل کمائی کا ذریعہ ختم ہوا تو مالی مشکلات شروع ہو گئیں۔ زیر زمین رہنے پر کچھ عرصہ بچت کی گئی رقم پر گزارا ہوا لیکن آخرکب تک..؟ اس کے بعد وہ کبھی مالی طور پر سنبھل نہیں سکا۔
دوبارہ کاروبار سیٹ کرنے میں اور اسی طرح کے چھوٹے موٹے کاروبار کرتے کرتے وہ اپنی ساری جمع پونجی ختم کر بیٹھا تو اس نے جی ٹی روڈ پر اپنے ایک دوست کے ہوٹل کے باہر ٹھنڈی بوتلوں اور سگریٹ کا ایک کھوکھا لگا لیا۔ جوان بیٹا بیروزگار تھا لیکن اس کی نوکری کے لئے کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا اس کو کب گوارا تھا۔ اور سیاسی جماعتیں اپنے ایسے کارکنوں کا کب خیال کرتی ہیں
پیپلز پارٹی کے ساتھ چار دہائی وابستگی کے طویل عرصہ کے دوران شاعر نے بھٹو کے نظریے سے وابستگی کے اعتراف کے سوا کبھی کسی انعام کی توقع نہیں کی۔ حبیب جالب کی طرح وہ بھی ایک روایتی باغی تھا۔ وہ بھی غریبوں اور عوام کے استعسال کا پرجوش نقاد تھا۔ اس کی کہانی ایک عام آدمی کی کہانی ہے جس نے غربت اور غاصبوں کے خلاف اپنے آخری ایام تک نظمیں لکھیں۔ وہ طبقاتی معاشرے کے لئے لڑنے کے اپنے موقف سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹا اور نہ ہی ڈگمگایا۔ کینسر جیسے موذی مرض نے اندر ہی اندر اس کو کھا لیا تھا۔ جس کے لکھے ہوئے ایک ترانے ً یہ بازی جان کی بازی ہے اور تم یہ بازی ہارو گے، ہر گھر سے بھٹونکلے گا تم کتنے بھٹو مارو گے“ نے پیپلز پارٹی میں نئی جان ڈال دی تھی، وہ آخرکار کینسر سے ہار گیا اور ایک گم نام بیچارگی کی موت مر گیا
عرفان جاوید اپنی کتاب ً دروازے ً میں ان کے متعلق لکھتے ہیں۔ ً اس کے سادہ حلیے اور کھوکھے کو دیکھ کر گمان بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ اس جسم کے اندر قومی جذبے دہکتے اور آنکھوں کے پیچھے خواب مچلتے ہیں۔ اس کے منہ سے نکلنے والے اشعار مجمع میں آگ لگا دیتے ہیں اور اسے تنویمی کیفیت میں لے آتے ہیں
شاعر سے اپنی ایک ملاقات کا احوال بیان کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ جہلم کے اندر نیم شہری، نیم قصباتی، خاموشی اور سکون میں سستاتی ایک تنگ گلی میں پھول کی بیلوں سے ڈھکا چھوٹا سا مکان شاعر اور اس کے اہل خانہ کی خوش ذوقی کا آئینہ دار تھا
عرفان جاوید لکھتے ہیں ”صاف ستھرے صوفے پر بیٹھا وہ شخص، جس کی شاعری جلسوں میں پڑھ کر سیاسی رہنما اقتدار کی غلام گردشوں سے گزر کر مسند تک پہنچتے تھے، مجھے بہت تنہا محسوس ہوا۔ ایک بے دوا لاچارگی تھی۔ حسرت تھی یا نا امیدی جو اس شاعر کے اندر سرایت کر گئی تھی۔ میں نے کئی مرتبہ سوچا کہ کیا کھوکھے پر ٹھنڈی بوتلیں بیچنے والے شخص کی سیاسی اور سماجی فہم و فراست اہم دانشوروں سے بڑھ کر ہو سکتی ہے؟ ان کی شخصیت میں اضطراب، دھیمی گفتگو کے دوران پہلو بدلنا، خاموش ہو جانا، موضوع سے ہٹ کر کوئی اور بات شروع کر دینا، جذباتی ہو جانا اور متلون مزاجی شاعر کی شخصیت کے لازمی اجزا تھے“
نصیر کا اپنا یہ کہنا تھا کہ ان کی عادت رہی ہے کہ انہوں نے جو بھی کام کیا ہے پوری نیک نیتی اور خلوص سے کیا ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہر مزدور، ترکھان اور روغن گر میں ایک فنکار چھپا ہوتا ہے۔ شاعر اپنے فن کا اظہار شعر سے کرتا ہے تو ترکھان لکڑی کے ایک ٹکڑے میں۔ نصیرکوی نے اپنی نظموں اور غزلوں میں جو استعارے اور تشبہیات استعمال کی ہیں وہ اپنے گردو پیش اور اپنی پنجابی روایات سے لئے گئے ہیں
نصیر کوی کی زندگی کا بہت سارا حصہ بہت عسرت میں گزرا۔ ان کی ساری زندگی ایک جہد مسلسل میں گزری۔ سیاسی وابستگی کی وجہ سے ان پر بہت کڑا وقت بھی آیا جس وجہ سے ان کا روزگار ختم ہو گیا۔ پارٹی کی بے توجہی بھی ان پر بہت گراں گزری۔ زندگی کی ان کٹھنائیوں کا ان کے اشعار میں بھی اظہار ہوتا ہے۔ ان کازیادہ تر کلام انقلابی نظموں اور بہت ہی اداس غزلوں پر مشتمل ہے
ذیل میں ان کی پنجابی شاعری اور اس کا اردو ترجمہ پیش کیا جاتا ہے:
بکھ وچ پردہ داری کاہدی
چادر چار دیواری کاہدی۔
زویں اسمان دا میل بھلیکھا
چن چکور دی یاری کاہدی.
میرے گھر دیاں کندھاں وی نہیں
بوہا کاہدا، باری کاہدی..
دل والے جے دار تھیں ڈردے
ہوندی فیر دلداری کاہدی..
(جب بھوک لگی ہو تو پھر کوئی پردہ نہیں رہتا۔ چادر اور چاردیواری کا کہاں خیال رہتا ہے۔ بھوک سب کچھ کرا لیتی ہے۔
زمین اور آسمان کبھی آپس میں نہیں مل سکتے۔ زمین آسمان کا ملاپ ایک بھول ہے اسی طرح چاند اور چکور کی دوستی نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ چکور جتنی بھی کوشش کر لے وہ چاند تک نہیں پہنچ سکتی۔
میرے تو گھر کی دیواریں بھی نہیں ہیں۔ دروازوں اور کھڑکیوں کی کیا بات کریں۔
اگر دل میں محبت کا جذبہ رکھنے والے پیار میں دار (پھانسی) پر چڑھنے سے ڈر جائیں تو پھر دلداری کس بات کی۔)
اپنی اس غزل میں وہ اپنے رب کے سامنے اپنا حال رکھ کررب سے کہتے ہیں کہ میں بہت ہی حقیر سا انسان ہوں میں مقابلہ نہیں کر سکتا آپ ہی میرا خیال کریں۔
مہینوں ساری دنیا چھڈ گئی، دکھ نہیں مینوں چھوڑدے ربا،
گل کیہ کرئیے گل نہیں سُندے، گل سن کدے نہ موڑدے ربا!
بندیاں اگے جھکنا پیندا، نہ توں اینی تھوڑ دے ربا،
چڑیاں وانگر عمر وہائی، تیلا تیلا جوڑدے ربا!
اپنے کوجھ نوں دور نہیں کردے، شیشے رہندے توڑ دے ربا،
ساڈے نال نہ آڈھا لا توں، اسیں نہیں تیری جوڑ دے ربا!
(ساری دنیا نے مجھے چھوڑ دیا ہے، تو اے میرے رب! یہ دکھ میرا پیچھا کیوں نہیں چھوڑ تے…؟
لوگوں کی کیا بات کریں وہ جو کبھی میری کوئی بھی بات ٹالتے نہیں تھے وہ اب میری کوئی بات نہیں سنتے، اے میرے رب۔
اے میرے رب مجھے اتنا زیادہ مجبور نہ کرنا کہ مجھے لوگوں کے سامنے جھکنا پڑے،
میں نے بڑی مشکل زندگی گزاری ہے چڑیوں کی طرح تنکا تنکا جوڑ کر ایک آشیاں بنایا ہے، اس کو بچا کر رکھنا میرے رب۔
لوگ اپنا آپ درست نہیں کرتے ان کو آئینے میں جب اپنی بدصورتی نظر آتی ہے تو وہ شیشے کو توڑ دیتے ہیں۔
لیکن اے میرے رب! میرے ساتھ آپ کیوں ناراض ہوتے ہیں میں تو ایک لاچار سا بندہ ہوں میرا اور آپ کا کیا جوڑ ہے۔)
والاں د ا رنگ پھکا ہویا، سونا جثہ سکا ہویا..
بچے جس دن دے وڈے ہوئے، اس دن دا میں نِکّا ہویا
نہ میں پَیر دی جھانجھر بنیا، نہ متھے دا ٹِکّا ہویا
میں سدھراں دی سولی چڑھیا، میرے نال تے دھکا ہویا.
(میرے بالوں کا رنگ پھیکا پڑ چکا ہے۔ سونے جیسا میرا بدن اب تانبے کی طرح ہو گیا ہے۔
جس دن سے میرے بچے بڑے ہوئے ہیں، میں بہت ہی چھوٹا ہو گیا ہوں
نہ تو میں ماتھے کا جھومر بن سکا اور نہ ہی میں پیروں کی پازیب بن سکا۔
میں اپنی خواہشات کی سولی پر لٹکا ہوا ہوں، میرے ساتھ دھوکہ ہو گیا ہے)
نصیر کوی پیپلز پارٹی کے جیالے تھے۔ انہوں نے اس وقت اس پارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی جب سب بڑے اس کو چھوڑ کر جا رہے تھے۔ 1977ع کے مارشل لاء کے بعد بڑے بڑے لیڈر، وزیر اور مشیر روپوش ہو گئے تھے۔ بہت سوں نے پارٹی چھوڑ دی تھی اور بہت سارے اس وقت اندھیروں میں گم ہو گئے تھے۔ لیکن نصیر کوی جیسے جیالوں نے اس وقت میدان نہیں چھوڑا۔ اپنے آپ کو آگیں لگائیں، خودکشیاں کیں۔ مارشل میں گرفتاریاں دیں، جیلیں کاٹیں اور کوڑے بھی کھائے
وہ ایک انقلابی کارکن تھے اور بڑی ولولہ انگیز نظمیں اور گیت لکھتے تھے۔ ان کی کئی نظمیں ان اور ان جیسے ہزاروں کارکنوں کے ولولوں اور جذبات کی ترجمانی کرتی ہے لیکن صد افسوس کہ پارٹیاں جب برسر اقتدار آتی ہیں تو وہ اپنے اصل اور نظریاتی کارکنوں کو بھلا دیتی ہیں بلکہ ان کے گرد مفاد پرستوں کا ایک ٹولہ اکٹھاہو جاتا ہے اور نصیر کوی جیسے نظریاتی لوگ پیچھے رہ جاتے ہیں.
اسیں سُولی چڑھدے ڈَولے نہیں،
اسیں سی نہیں کیتی، بولے نہیں۔
اسیں ٹکٹکیاں تے چڑدھے رہے،
اسیں اپنی گل تے اڑے رہے۔
اسیں کوڑے کھادے شاناں نال،
اسیں جَیلاں کٹیاں آناں نال۔
ظلماں نوں ہس کے سہندے رہے،
غاصب نوں غاصب کہندے رہے۔
اساں ہیراں دل چوں کڈھیاں نہیں،
اساں منگاں کدے وی چھڈیاں نہیں.
اسیں شاہ حسین تے بلھے ہاں
اسیں ساندل بار دے دلھے ہاں
ناگاں نال منجھیاں بن لیندے،.
سولاں دیاں سیجاں چن لیندے۔
(ہم ہنسی خوشی دار پر چڑھ جاتے ہیں کبھی ہمارا قدم ڈولتا نہیں ہے۔ دار پر چڑھتے ہم کوئی بات نہیں کرتے اور نہ ہی شور مچاتے ہیں۔
مارشل لاء میں اپنی بات منوانے کے لئے ہمیں جیلوں میں ٹکٹکیوں پر چڑھایا جاتا رہا لیکن ہم اپنی بات پر ہمیشہ ڈٹے رہے۔
ہم نے بڑی شان سے کوڑے کھائے اور بڑی آن سے جیلیں کاٹیں لیکن پھر بھی ڈگمگائے نہیں۔
ہم نے ہر ظلم ہنس کر سہہ لیا لیکن حق سچ کی آواز نہیں چھوڑی۔ غاصب کو ہمیشہ غاصب ہی کہا۔
ہر ظلم و ستم سہہ کر بھی ہم نے ہیر کا پیار اپنے دل سے نہیں نکالا۔ ہمارے دلوں میں آج بھی ہیروں کے لئے محبت ہے ہمارے دل پیار محبت سے اب بھی بھرے ہوئے ہیں۔ ہم اپنی مانگ کبھی نہیں چھوڑتے۔ اسے ہر حال میں ضرور بیاہتے ہیں۔
ہم پنجاب کے واسی ہیں، شاہ حسین اور حضرت بابا بلھے شاہ کے پیروکار ہیں۔ ہم ساندل بار کے دلا بھٹی کو ماننے والے ہیں جس نے اکبر بادشاہ سے ٹکر لے لی تھی۔
ہم وہ ہیں جو سانپوں سے ڈرتے نہیں ہیں بلکہ ان کو رسیاں سمجھ کر ان سے اپنی چارپائیاں بنتے ہیں۔ ہم ہمیشہ ثابت قدم رہتے ہیں اور خوشیوں کو چھوڑ کر دکھ کی سیج پسند کر لیتے ہیں.)