❖ کلیجہ
اور پھر صبح کا اجالا چاروں طرف پھیلنے لگا۔ فرائیڈے کو کیبن میں ہی رکنے کی ہدایت دے کر میں باہر آیا۔ کیبن سے نیچے اترا اور محتاط انداز میں آس پاس کا جائزہ لیتے ہوئے پھر اسی ٹیلے پر آ گیا۔ میں نے جب سمندر کی طرف دیکھا تو سمندر صبح کی روشنی سے چمک رہا تھا.
آدم خوروں کی کشتی غائب ہو چکی تھی..
اس سے یہ صاف اشارہ ملتا تھا کہ آدم خور جزیرے سے نکل بھاگے ہیں۔ میں تیز تیز چلتا کیبن کے پاس پہنچا اور فرائیڈے کو اونچی آواز میں بتایا کہ آدم خور جا چکے ہیں، اس لئے وہ بھی کیبن سے نیچے اتر آئے۔ وہ بہت خوش خوش نیچے آیا اور ہم دونوں سمندر کے کنارے کی طرف چل پڑے۔
پھر اچانک ایک تیر، ایک طرف سے آیا ۔فرائیڈے کی گردن کے بالکل قریب سے ہوتا ہوا ایک درخت میں گڑ گیا!
نشانہ فرائیڈے کو بنایا گیا تھا اور یہ اس کی خوش قسمتی تھی کہ وہ بال بال بچ گیا تھا…
آدم خور ابھی جزیرے میں موجود تھے.. یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ ایک ہے یا زیادہ۔ یہ تیر ایک درخت کی جانب سے آیا تھا اور سو فیصدی فرائیڈے کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ گویا وہ فرائیڈے کو ہر حال میں ختم کرنا چاہتے تھے۔ یہ بھی ممکن تھا کہ وہ سب آدم خور تو چلے گئے ہوں، لیکن اپنے ایک ساتھی کو وہاں چھوڑ گئے ہوں، کہ ہم جب بھی کیبن سے باہر نکلیں، وہ جان پر کھیل کر چھپ کر، فرائیڈے کو ہلاک کر دے۔
میں نے درختوں کا جائزہ لینا شروع کیا اور درختوں کے اوپر دیکھا۔ اگرچہ اس میں کوئی کامیابی نہیں ہو سکتی تھی۔ روشنی کے باوجود درختوں کے اوپر شاخوں اور پتوں میں چھپا ہوا آدم خور تلاش کرنا مشکل تھا۔ کیونکہ یہ آدم خور ننگے ہوتے ہیں اور ان کی رنگت پتوں اور شاخوں میں گھل مل جاتی ہے.
مجھے ایک ترکیب سوجھی اور وہ تیر میرے اندازے کے مطابق جس درخت کی طرف سے آیا تھا۔ اس کی طرف میں نے گولی چلا دی. فرائیڈے نے بھی میری تقلید کی اور یوں ہم نے دشمن کو دھماکوں سے خوفزدہ کرنا شروع کر دیا۔ میں اور فرائیڈے درختوں کی اوٹ میں چھپے وقفے وقفے سے فائز کر تے رہے۔ سارا جنگل گونج اٹھا پرندے شور مچاتے اڑ گئے۔
اس کے بعد ہم نے دشمن کو تلاش کرنا شروع کیا۔فرائیڈے نے کچھ زبان سے اور کچھ اپنے اشاروں سے بتایا کہ ان کے قبیلوں میں کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں، جنہیں جانباز کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ اپنی جان قبیلے کے لئے وقف کر چکے ہوتے ہیں۔ ایسے ہی کسی جانباز کو آدم خور یہاں اپنے پیچھے چھوڑ کر گئے ہیں، تا کہ وہ اپنی جان قربان کر کے بھی فرائیڈے کو قتل کر دے۔ ایسے لوگوں کو اپنی جان کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔ وہ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر آتے ہیں۔ وہ بڑے سے بڑے خطرے کی بھی پرواہ نہیں کرتے۔ فرائیڈے کی ان باتوں نے مجھے مزید محتاط اور چوکنا کر دیا۔ کیونکہ یہ تو کوئی ایسا پاگل اور اپنی زندگی سے بے خوف شخص لگتا تھا، جو کسی وقت بھی ہمارے لئے خطرہ بن سکتا تھا۔ ہم دونوں اس نامعلوم شخص کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ جس نے فرائیڈے پر تیر چلایا تھا۔ ہم نے جزیرے کو چھان مارا۔ لیکن اس کا کوئی سراغ نہ ملا۔ وہ کسی جگہ چھپ کر بیٹھ گیا تھا اور موقع کی تلاش میں تھا۔
میں نے فرائیڈے سے کہا ۔’’فرائیڈے واپس کیبن میں جاؤ..“
میں سمجھتا تھا کہ اصل خطرہ فرائیڈے کو ہے. اسی کو پہلے نشانہ بنایا گیا تھا اور آدم خور قبیلے نے اسی کو قتل کرنے کے لیے یہاں اس خاص بہادر جانباز کو پیچھے چھوڑا ہے. بہرحال وہ دشمن تو میرے بھی تھے لیکن ان کا پہلا ہدف فرائیڈے ہی تھا. فرائیڈے اکیلا کیبن میں جانے کے لیے تیار نہیں تھا مگر میرے اصرار پر وہ کیبن کے اندر چلا گیا.
میں اکیلا اس چھپے دشمن کی تلاش میں نکلا. میں بے حد محتاط اور چوکنا ہو چکا تھا. جھاڑیوں اور درختوں کے پیچھے سے ہوکر میں اسے تلاش کر رہا تھا۔ جزیرے کے چپے چپے سے میری واقفیت تھی۔ میں سمجھتا تھا کہ وہ آ دم خور بھی جنگلی ہے، کسی درخت پر بندر کی طرح اچھل کر چڑھنا اور چھپ جانا اس کے لئے عام مہارت اور مشق کی طرح ہے۔ بہرحال میں پوری طرح چوکس تھا۔ ایک ایک آہٹ پر کان لگائے ہوئے میں جزیرے کے مشرقی ساحل کی طرف نکل آیا۔
اچانک ایک سنسناتا ہوا تیر میرے بازو کے قریب سے گزرتا ہوا سامنے ایک پتھر سے جا ٹکرایا۔ میں نے زمین پر بیٹھنے میں ایک لمحے کی تاخیر بھی نہ کی اور گھٹنوں کے بل دوڑتا ہوا ایک چٹان کے پیچھے چپ گیا اور پھر جس طرف سے میرے اندازے سے وہ تیر آ یا تھا۔ ادھر بندوق سے فائر کر دیا مگر اس سے کچھ حاصل نہ ہوا۔
ابھی تک مجھے یہ معلوم نہ ہو سکا تھا کہ وہ کہاں چھپا ہے۔ کسی جھاڑی کے پیچھے یا درخت کے عقب میں.. مجھے یہ بھی احساس تھا کہ وہ میری نقل و حرکت پر کڑی نگاہ رکھے ہوئے ہوگا۔
دوسری بار بندوق چلانے کے لئے میں اس میں بارود بھر رہا تھا کہ ایک دوسرا تیر سنسناتا ہوا میرے سر کے اوپر سے گزرتا ہواچٹان سے جا لگا اور دو ٹکڑے ہو گیا۔
میں نے فوراً اس طرف گولی چلا دی لیکن اس بار بھی کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ درختوں پر بیٹھے پرندے شور مچاتے اڑ گئے۔ اسی لمحے ایک اور خیال میرے لئے تکلیف اور خطرے کا سبب بنا کہ کہیں فرائیڈے فائروں کی آواز سن کر کیبن سے باہر نہ آ جائے۔ایسی صورت میں اس کی جان خطرے میں پڑ سکتی تھی.
میں نے پھر بندوق میں بارود بھر کر حملے کی تیاری کی اور اسی لمحے ایک خوفناک چیخ فضا میں گونجی اور پھر کسی کے درخت سے دھم کے ساتھ گرنے کی آواز سنائی دی۔ میں اس طرف تیزی سے بھاگا۔ میں نے ایک خوفناک منظر دیکھا۔
آدم خور زمین پر گرا ہے۔ ایک تیر اس کی گردن میں پیوست ہے اور زمین اس کے خون سے سرخ ہو رہی ہے..
ابھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ یہ تیر کہاں سے آیا کہ میں نے اچانک فرائیڈے ایک درخت کے پیچھے سے مسکراتا ہوا اپنی طرف بڑھتے دیکھا۔ میں سمجھ گیا کہ یہ فرائیڈے کا کارنامہ تھا.. جیسا کہ میں نے اندازہ لگایا تھا، ویسے ہی ہوا تھا۔ میرے پہلے فائر کی آواز سن کر فرائیڈے کیبن سے باہر آ گیا تھا۔ وہ تیر کمان لے کر آدم خور کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔ وہ چونکہ ان آدم خوروں کی تمام عادات سے واقف تھا، اس لئے بخوبی اندازہ لگا سکتا تھا کہ آدم خور کہاں چھپا ہوسکتا ہے. فرائیڈے نے اپنی تیز نظروں سے آدم خور کو ایک درخت کی شاخوں میں چھپے ہوئے دیکھ لیا۔ اس کے بعد اس نے اس کا نشانہ لیا اور تیر چلا دیا.
فرائیڈے کا نشانہ خطا نہیں جا سکتا تھا، کیونکہ تیر چلانے میں اسے خاص مہارت حاصل تھی.
اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا، فرائیڈے نے اپنے لنگوٹ کے ساتھ اڑسا ہوا ایک چاقو نکالا اور بڑی بے دردی سے اس آدم خور کا پیٹ چاک کر دیا۔ اس کے بعد اس نے آدم خور کا کلیجہ نکالا اور اسے چبانے لگا۔ میرے لئے یہ منظر بہت ہولناک اور کریہہ تھا.. میں اسے نہیں دیکھ سکتا تھا، اس لئے میں نے منہ پھیر لیا۔ میں فرائیڈے کو روک بھی نہ سکتا تھا۔ فرائیڈے تو انتقام لے رہا تھا۔ یہ آدم خور ان لوگوں کا ساتھی تھا، جنہوں نے مل کر اس کے سارے قبیلے اور ماں باپ کو قتل کیا تھا اور بھون کر کھا گئے تھے..
فرائیڈے آگے بڑھا، ادب سے میرے سامنے جھکا۔ میں نے اس پر نگاہ ڈالی اس کے ہاتھ خون سے لت پت تھے اور منہ بھی.. اس نے چند لفظوں میں سارا ماجرا بیان کر دیا.
اس نے مجھے بتایا کہ آدم خور کا کلیجہ چبا کر اس نے قدیم رسم کے مطابق اپنے خاندان کے قتل کا بدلہ چکا دیا ہے۔ اب وہ فخر کر سکتا تھا کہ اس نے اپنے خاندان کی ہلاکت کا بدلہ لے لیا تھا۔
پھر اس خیال سے، کہ لاش کی بُو جزیرے میں پھیل سکتی ہے، ہم دونوں نے مل کر ایک گڑھا کھود کر آدم خور کی لاش کو اس میں دفن کر دیا۔ اس کے بعد ہم دونوں سمندر کی طرف گئے۔وہاں دیر تک نہاتے رہے اور پھر کیبن کا رخ کر لیا.
جاری ہے