وہ کیا شے ہے، جو ہاری جا رہی ہے

وسعت اللہ خان

بہت ہاتھ پاؤں مارے، روٹھے، ہوا میں مکے چلائے، منت سماجت کی مگر بین الاقوامی ساہوکار ایک نہ مانا۔ مرتا کیا نہ کرتا پاکستان نے بالآخر آئی ایم ایف سے درخواست کر ہی دی کہ وہ اگلے ہفتے ہی اپنا وفد اسلام آباد بھیجے

ہر شرط پوری کی جائے گی، بس جلد از جلد ایک اعشاریہ اٹھارہ ارب ڈالر کی نئی قسط دے ڈالو۔ تاکہ چین، سعودی عرب اور یو اے ای جیسے دوستوں کو دکھا کے ان سے کم از کم اتنا ڈیپازٹ لے لیا جائے، جس سے اگلے چھ ماہ گزر جائیں

اور اس شش ماہی ادھاری ساکھ کے بل پر جن جن اداروں سے لیے گئے قرضوں کی قسطیں اس عرصے میں واجب الادا ہیں، کم ازکم انہیں تازہ قرضے سے ادا کر کے یہ تاثر برقرار رکھا جا سکے کہ ہم کمزور ضرور ہوئے ہیں، مگر اتنے بھی نہیں کہ ادھار نہ اتار سکیں اور دیوالیہ ممالک کی فہرست میں شامل ہو جائیں

کیونکہ یہ کوئی سادہ دیوالیہ پن نہیں ہوگا بلکہ ایک جوہری طاقت کا دیوالیہ پن ہوگا۔ لہٰذا خوف یہ بھی ہے کہ اگر باضابطہ دیوالیے کا نقارہ پیٹ دیا گیا تو پھر اکادکا بین الاقوامی غنڈے ایٹم بم کے پیچھے پڑ کے جوہری پروگرام کو رول بیک کرنے کا کہہ سکتے ہیں

ویسے بھی پاکستان اگلے ایک برس میں سری لنکا، لبنان، ونیزویلا کی قطار میں آ جاتا ہے تو یہ صرف پاکستان کا نقصان نہیں ہوگا بلکہ آس پاس کے ممالک اور بین الاقوامی اداروں کے لیے بھی سنگین لمحہِ فکریہ بنے گا

پاکستان کوئی افغانستان نہیں کہ نظریاتی ہٹ دھرمی کے بل پر کنگالیت کو مسلسل گلے لگا کے رکھ پائے۔ پاکستان کوئی ایران بھی نہیں ہے کہ بین الاقوامی اقتصادی بوجھ اور سالہا سال کی تادیبی مار اپنے تیل کے ذخائر کے بل پر جھیل جائے

پاکستان تو وہ قدرتی گیس بھی ’حلوائی کی دوکان پر دادا جی کی فاتحہ‘ کی طرح لٹا بیٹھا ہے، جس کے بارے میں ستر برس پہلے خیال تھا کہ یہ کم از کم اگلے سو برس کے لیے کافی ہوگی۔ اب حالت یہ ہے کہ مقامی گیس کے نرخ بھی آئی ایم ایف کے مشورے سے طے ہو رہے ہیں

پاکستان پر اس وقت جس اشرافی ٹولے کا قبضہ ہے، اس کے اجزاِ ترکیبی میں جرنیل، جج، نوکر شاہ، صنعت کار، لینڈ ڈویلپرز، روحانی و زمینی پیر، بین الاقوامی کارپوریٹ اداروں کے مقامی دلال اور ان سب کے بیانیے کو زود ہضم بنا کے عوام کے معدوں میں اتارنے والا ہاتھ بند میڈیا شامل ہے، کہ جس کے سیٹھوں کا اصل کاروبار کچھ اور ہے اور اس سیٹھ کو اپنے اور اشرافیہ کے نسبتاً طاقت بخش ارکان کے لیے اس میڈیا کو وہ تحفظاتی ابلاغی افیون تیار کرنا پڑتی ہے، جسے لفظ، آواز، تصویر اور ٹرول کے کیپسول بنا کے گھر گھر مفت تقسیم کیا جا سکے

اشرافیہ کو سب سے بڑا خطرہ یہ درپیش ہے کہ کہیں کوئی پھٹے گریبان والا بدتمیز غول یہ سوال سونت کر سڑک پر نہ نکل آئے کہ بتاؤ ہر موڑ پر ہر لمحے قربانی مانگنے والو! تم نے ہمارے لیے خود اپنے مفادات کی کتنی قربانی دی، اور تم ہو کون ہم سے مزید قربانی مانگنے والے؟

قومی خزانے پر پلنے والے سب مراعاتیوں کو آج پہلے سے زیادہ خوف ہے کہ کہیں یہ سوال کوبرا کی طرح سر نہ اٹھا لے کہ تم ہو کون؟

لہٰذا پاکستان کے تمام مسائل کا قصور وار حسب معمول بین الاقوامی سازش، غداری، سیاست گروں کی کوتاہ اندیشی اور حق مانگنے والوں کی شوریدہ سری کو قرار دیا جا رہا ہے۔ مگر مصیبت یہ آن پڑی ہے کہ اب یہ نظریاتی و بہانہ جاتی منجن کوئی ٹکے سیر لینے کو بھی تیار نہیں

آج بھی پاکستان کو لاحق اقتصادی دیمک کا الزام یوکرین کی لڑائی، بھارت کی مودی گیری، کووڈ، افغان سرحدی حالات، ٹیکس چوری، کرپشن اور انفرادی و اجتماعی گناہوں کی آسمانی سزا کے سر منڈھا جا رہا ہے

کبھی یہ موضوع چھیڑنے کی اجازت نہیں دی جاتی کہ حقیقی دفاعی بجٹ اور مجموعی دفاعی بجٹ میں کیسے فرق کیا جائے، حاشیہ گیر صنعتی و تجارتی طبقات کو براہِ راست یا بلاواسطہ مراعات کی نیپیاں کب تک پہنائی جاتی رہیں، اور اس کے عوض اب تک اس ملک کو کیا ملا جو آئندہ کے لیے بھی امید رکھی جائے

کبھی یہ بات زیرِ بحث نہیں لائی جا سکتی کہ تنخواہوں، نوکری سے جڑی مراعات، بیرونِ ملک علاج، محلاتی رہائشوں، گولف کورسز، صنعتی مراعاتی چھوٹ، ٹیکس ربیٹ اور بیمار اداروں کی تیمار داری کے لیے تو پیسے کی کبھی کمی نہیں ہوئی

لیکن بچوں کے تعلیمی انرولنمنٹ اور صحت کے بجٹ میں اضافے کا مطالبہ کیا جائے تو فوراً ریاستی رونا شروع ہو جاتا ہے کہ صاحب پیسے ہی نہیں ہیں۔ بیرونِ ملک سے تعلیم اور صحت کے شعبوں کے لیے خیرات آئے گی تو ہی کچھ گنجائش نکل پائے گی

اور پھر زخموں پر ہر بار یہ کہہ کے نمک کی مقدار بڑھا دی جاتی ہے کہ ہم جو بھی کمر توڑ اقدامات کر رہے ہیں ان کا منفی اثر عام آدمی پر نہیں پڑنے دیا جائے گا

اس وقت ریاست کے چوک پر ہر ادارے کی گاڑیاں ایک دوسرے سے ٹکرانے کے سبب ٹریفک جام ہے اور کوئی اپنی گاڑی سے اتر کے ٹریفک رضاکار بننے کے لیے تیار نہیں۔ سب کی انگلیوں اور گالیوں کا رخ دوسرے کی جانب ہے

کیک کم پڑ جائے تو عالی نسب بھی ایک دوسرے کے لیے کتے ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ ریاستی ٹریفک جام میں ہر جانب بھونپو اور بھونک کی گونج ہے۔

میں پیہم ہار کر یہ سوچتا ہوں،
وہ کیا شے ہے جو ہاری جا رہی ہے؟

بہت بدحال ہیں بستی تیرے لوگ،
تو پھر تو کیوں سنواری جا رہی ہے ؟
(جون ایلیا)

بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close