ماحولیاتی گھڑی میں بارہ بجا چاہتے ہیں ( قسط اول )

وسعت ﷲ خان

اکتیس اکتوبر تابارہ نومبر گلاسگو میں ماحولیاتی تبدیلی کے چیلنج سے نمٹنے کی موثر حکمتِ عملی کی تیاری کے لیے اقوامِ متحدہ کے زیراہتمام ایک چوٹی کانفرنس ہو رہی ہے۔ اس موقعے پر اقوامِ متحدہ سے منسلک ماحولیاتی تحقیقی ٹیمیں تازہ ترین اعداد و شمار کے ذریعے معاملات کی سنگینی اور ہماری غیرسنجیدگی کی مسلسل نشاندہی کر رہی ہیں۔

اس وقت ساڑھے تین ارب انسان خشک سالی کے مارے خطوں میں رہ رہے ہیں۔ دو ہزار پچاس تک پانچ ارب انسانوں کو آبی قحط سالی لپیٹ میں لے لے گی۔ پانی کے زیرِ زمین اور گرین لینڈ اور انٹارکٹیکا میں برف کی شکل میں موجود ذخائر میں سالانہ ایک سینٹی میٹر کی کمی ہو رہی ہے۔ہو سکتا ہے کہ ایک سینٹی میٹر بظاہر کچھ بھی نہ لگے۔مگر یہ بھی دھیان رہے کہ اس وقت دنیا میں جتنا پانی میسر ہے۔اس کا محض نصف فیصد انسانی استعمال کے قابل ہے۔

عالمی موسمیاتی ادارے کے سربراہ پیٹری تالاس کا کہنا ہے کہ بڑھتے ہوئے درجہِ حرارت کے سبب بارشوں اور زرعی موسموں کے نظام الاوقات میں اتھل پتھل کا براہِ راست نتیجہ خوراک کی بے ترتیب کمی بیشی اور صحت کے سنگین مسائل کی صورت میں ہم سب دیکھ رہے ہیں۔
خشک سالی اور پانی کی قلت کا مطلب کیا ہے ؟ اس کا اندازہ یوں ہو سکتا ہے کہ ہر دو منٹ بعد ایک بچہ ناقص پانی سے پیدا ہونے والی قابلِ علاج بیماریوں کے سبب مر رہا ہے۔صرف پچیس فیصد آبادی کو مناسب بیت الخلا کی سہولت حاصل ہے۔گویا پچھتر فیصد آبادی پانی اور منصوبہ بندی کی قلت کے سبب پنپنے والی بیماریوں کے بحران سے جوجھ رہی ہے۔

پانی کی قلت اور خشک سالی کیا ہوتی ہے۔یوں سمجھ لیجیے کہ صحارا پار افریقہ کے درجن بھر ممالک کی خواتین اور بچیاں مجموعی طور پر چار ارب گھنٹے سالانہ صرف پانی کی تلاش اور اسے جمع کرنے میں صرف کر رہی ہیں۔

سن دو ہزار سے اب تک کے دو عشروں میں موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب بکثرت سیلابوں سے ہونے والے نقصان میں ایک سو چونتیس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ سیلاب کی کثرت کا ایک بنیادی سبب اس عرصے کے دوران سمندری درجہِ حرارت میں اضافے کے نتیجے میں فضائی نمی میں سات فیصد کا اضافہ ہے۔پچھلے بیس برس میں خشک سالی کے تناسب میں بھی تیس فیصد اصافہ ہوا  اور اس تبدیلی کا سب سے بڑا ہدف افریقہ ہے۔

عالمی ادارہِ موسمیات کے سربراہ کا شکوہ ہے کہ مملکتی و حکومتی سربراہان بڑے بڑے اقدامات کے وعدے تو کرتے ہیں مگر عمل میں انتہائی سست ہیں۔مثلاً دنیا کی دوسری بڑی صنعتی قوت چین نے سن دو ہزار ساٹھ تک کاربن کے اخراج میں فیصلہ کن کمی کا اعلان تو کیا ہے مگر یہ کیسے ممکن ہوگا۔اس بارے میں اب تک کسی منصوبے کا خاکہ سامنے نہیں آیا۔حالانکہ سب جانتے ہیں کہ اب ابتری کے ایک ناقابلِ واپسی موڑ تک پہنچنے میں عشرے نہیں بلکہ چند برس ہی باقی ہیں۔

قبل ازیں جون میں اقوامِ متحدہ کے ماحولیاتی پینل کی ایک اور جاری کردہ رپورٹ میں خبردار کیا گیا کہ کوویڈ کے بعد اگلی عالمی وبا عالمگیر خشک سالی ہو گی۔ ماحولیاتی خطرات میں کمی سے متعلق اقوامِ متحدہ کے خصوصی نمایندے مامی میزوتوری کے بقول کوویڈ کے برعکس خشک سالی کی وبا کے لیے کوئی ویکسین نہیں ہے۔ انیس سو اٹھانوے سے دو ہزار سترہ کے درمیان خشک سالی سے ڈیڑھ ارب انسان متاثر ہو چکے ہیں اور کم ازکم ایک سو چوبیس ارب ڈالر کا اقتصادی نقصان پہنچ چکا ہے۔

رپورٹ کے مطابق اس صدی میں ہی کم ازکم ایک سو تیس ممالک اس وبا کا شکار بن سکتے ہیں۔ جو ممالک بظاہر متاثر نہیں ہوں گے وہ متاثرہ خطوں میں خشک سالی سے پیدا ہونے والے زرعی بحران کے نتیجے میں خوراک اور اجناس کی مہنگائی کی لپیٹ میں آئیں گے۔

گزشتہ ایک عشرے سے جنوبی ایشیا (بھارت، پاکستان، نیپال، بنگلہ دیش ) اور چین اچانک اور غیر معمولی سیلابوں کی زد میں ہے۔ چین کے سوا بقیہ چار ممالک میں پانی ذخیرہ کرنے کا ڈھانچہ آبادی کی ضروریات کے اعتبار سے انتہائی ناکافی ہے۔ جس رفتار سے آبادی بڑھ رہی ہے اس حساب سے فی کس پانی کی حصہ داری بھی مسلسل گھٹ رہی ہے۔چنانچہ پانی کے قدرتی ذخائر تیزی سے کم ہوتے جا رہے ہیں۔

گزشتہ پینسٹھ برس میں پاکستان میں تیس بڑے سیلاب آئے۔دو ہزار دس کے سپر فلڈ سے دو کروڑ پاکستانی متاثر ہوئے۔پاکستان اپنی ضرورت کا سینتالیس فیصد پانی انڈس دریائی نظام سے حاصل کرتا ہے جب کہ بھارت اس نظام سے انتالیس فیصد آبی ضروریات پوری کرتا ہے۔البتہ پاکستان کے پاس زیرزمین پانی کے ذخائر کا چوتھا بڑا عالمی خزانہ ہے۔پچاس فیصد زرعی اور ستر فیصد پینے کا پانی زیرِ زمین ذخائر سے حاصل ہوتا ہے مگر یہ ذخائر تیزی سے تھک رہے ہیں۔

اس کا اندازہ یوں لگائیے کہ اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کے تخمینے کے مطابق دو ہزار پچیس تک پاکستان کے زیرِ زمین پانی کے ذخائر میں بیس فیصد کی کمی ہو جائے گی۔ان ذخائر کے استعمال میں اب کسان اور عام آدمی کے علاوہ انتہائی سستے داموں پانی زمین سے کھینچ کر مہنگے دام اسی عام آدمی کو فروخت کرنے والی کمپنیاں بھی شامل ہو گئی ہیں۔

بفضلِ قلتِ آب شہروں میں طاقتور افراد اور اداروں کے گٹھ جوڑ سے اربوں روپے کے آبی کاروبار پر مافیائیں قابض ہو چکی ہیں۔جب کہ بھارت میں جس طرح بے لگام استعمال ہو رہا ہے۔ اس کے سبب دلی ، چنائی اور حیدرآباد سمیت بھارت کے بیس بڑے شہروں میں زیرِ زمین پانی کی سطح خطرناک حد تک گر چکی ہے۔

اس وقت دنیا میں میٹھے پانی کی قلت کا سب سے زیادہ سامنا مالدار ترین ممالک میں سے ایک یعنی قطر کو ہے۔ لیکن اس کمی کو پورا کرنے کے لیے قطر کے پاس پیسہ ہے۔قطر کے بعد جو ممالک اس فہرست میں آ رہے ہیں ان میں چند ممالک کے پاس اس بحران سے نمٹنے کی مالی سکت ہے اور کچھ کے پاس نہیں ہے۔جیسے قطر کے بعد پانی کی انتہائی کمی سے دوچار ممالک کی فہرست میں علی الترتیب لبنان ، اسرائیل ، ایران ، اردن ، لیبیا ، کویت ، سعودی عرب ، اریٹیریا ، امارات ، سان مرینو اور بحرین ہیں۔اس فہرست میں بھارت تیرہویں اور پاکستان چودھویں نمبر پر ہے۔    (قصہ جاری ہے)

بشکریہ ایکسپریس اردو اور بی بی سی اردو

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close