سندھ سلطنت: سندھو کی کہانی، اسی کی زبانی (قسط34)

شہزاد احمد حمید

اب ہم خوشحال خاں خٹک کی سرزمین پر ہیں۔۔
گل گنٹردہ دتورے،
کہ کابک دے کہ کشمیر۔
میٹرنی دی چہ یادیگی،
پہ سمندر وہم پہ دلیر۔۔
(خوشحال خاں خٹک)

(فتح تلوار کی مرہونِ منت ہے چاہے کابل ہو یا کشمیر۔ فاتح اور بہادری کو لوگ یاد رکھتے ہیں۔ اپنے گیتوں میں بھی اور سسکیوں میں بھی۔)

”ایسا ہی کچھ حال سکندر کے ہندوستان پر حملے کا بھی ہے۔ لوگ آج بھی اسے اپنے گیتوں میں یاد رکھے ہوئے ہیں، خواہ وہ گیت خوشی کے ہوں یا ظلم اور بربریت کے۔۔ ہم اس سر زمین میں پہنچے ہیں، جہاں سے دنیا کے بہت سے نامور فاتح خواہ سکندر مقدونیہ ہو یا اشوک اعظم، وحشی منگول ہوں یا تیمور لنگ، راجہ جے پال ہو یا محمود غزنوی، محمد غوری ہو یا ظہیرالدین بابر، اکبر اعظم ہو یا احمد شاہ ابدالی سبھی یہاں سے گزر کر تاریخ اور اس دھرتی پر اپنے نشان ثبت کر گئے ہیں، انمٹ نشان۔۔ میں اور یہ اونچے پہاڑ دونوں ہی اس خطے کی تاریخ، ظلم اور بربریت، بہادری اور بزدلی، ہار اور جیت، غم اور خوشی کے خاموش گواہ ہیں۔ یہاں سے گزرتے سفر کرتے آپ کو سکندر، منگولوں، تیمور کے گھوڑوں، بابر کے ہاتھیوں کے قدموں کے نشان بھی ملیں گے اور ہارے ہوئے راجوں، مہاراجوں، بادشاہوں کے آنسو اور پچھتاوے بھی فضا میں بکھرے دکھائی دیں گے۔ اسی راہ سے گزرے اللہ کے درویش بھی دکھائی دیں گے، جو اپنے رب سے لو لگائے اس کا دین پھیلانے نکلے اور ہندوستان کے طول و عرض کو نور کی روشنی سے منور کر گئے۔ یہ ہے میرا آج کا خیبر پختون خواہ، ماضی کا صوبہ سرحد اور انگریز کا فرنٹئیر۔“

یہ ’پٹن‘ ہے۔ سر سبز، پرسکون بستی۔۔ سندھو کے کنارے آباد زرخیز اور شاداب قصبہ 1974ء کے زلزلے میں برباد ہو گیا تھا۔ سات (7) ہزار انسان لقمہ اجل بنے تھے۔ ’چوہادرا‘ اور ’پالس‘ کے شفاف نالے اسی وادی میں سندھو میں اترتے ہیں۔ پالس وادی میں سندھو پر پن بجلی کے منصوبے پر کام بھی ہو رہا ہے۔ پالس وادی دو سو تیس (230) کے قریب مختلف اقسام کے پرندوں اور جانوروں کا مسکن ہے۔ پتن میں لبِ سڑک اُن شہداء کی یادگار ہے جو شاہراہ ریشم تعمیر کرتے پہاڑوں کی سنگ باری اور ہیبت کا شکار ہو گئے تھے۔ چہار سو پھیلی ہریالی۔جگالی کرتے بے پرواہ چرند۔کانوں میں رس گھولتے پرند۔گھنے جنگل اور جنگلوں کے بیچ سے گزرتے کچے پکے راستے۔ ٹھنڈی مستانی ہوا اور ہوا میں جھومتے پودے۔ پودوں اور پھولوں کی خوشبو سے معطر فضا۔ اعتبار نہ آئے تو خود ان وادیوں میں چلے آئیں اور ان نظاروں میں جھوم جائیں۔ یہاں کی خوشبو، جل ترنگ، مستانی ہوا کو دل و دماغ میں بند کر کے عمر بھر کے لئے آنکھوں کا غلام بنا لیں۔

پٹن بھی ایسی ہی ہری بھری اور پرسکون وادی ہے۔ شاہراہِ ریشم سے پختہ راستہ پٹن بستی میں اترتا سندھو کے کنارے تک جاتا ہے۔ ہم جیپ سے اتر کر سندھو کے کنارے پہنچے ہیں۔ سندھو کنارے پٹن کا ڈاک بنگلہ رہنے کی بہت ہی رومانوی اور افسانوی جگہ ہے۔ وقت ہو، دلبر ہو تو کبھی ادھر کا رخ کریں یقیناً آپ قدرت اور دلبر کے نظاروں میں کھو جائیں گے۔ سندھو اور ان اونچے پہاٹوں پر طلوع ہوتے اور پھر ڈھلتے سورج کا دل فریب نظارہ کریں۔ چندا ماموں کو ان اونچے پہاڑوں کے پیچھے سے دھیرے دھیرے کئی گھنٹوں کے سفر کے بعد رات کے آسمان پر ان گنت ستاروں کے جھرمٹ میں چاندنی بکھیرتے دیکھیں تو ’سبحان تیری قدرت‘ کہتے سر بہ سجود ہو جائیں گے۔ میں جتنی بار بھی یہاں آیا، ہر بار ایسی ہی کیفیت سے دو چار ہوا ہوں۔ اگر دلبر بے نیاز ہو، محبت میں آپ بھی فیاض ہوں تو سرور و خمور کا عوج ثریا پا ہی لیں گے۔ یہاں اللہ کی فیاضی اور بے نیازی دونوں ہی ہیں۔ ذرا تصور کریں؛ شام کا ڈھلتا سورج، سندھو کا کنارا، ٹھنڈی مست ہوا، پہلو میں مہہ جبین، مقامی لوک فنکار ’تان بورا‘ پر لوک موسیقی کے تار چھیڑے۔۔ یقین جانیں، سارا ماحول جھومتا محسوس ہوگا۔

اگر کسی سرمئی خنک شام جب ہر سو خاموشی ہو۔ دور افق پر چند ہلکے بادل ادھر ادھر تیر رہے ہوں، جن پر غروب ہوتے سورج کی کرنیں منعکس ہو کر اس جہاں کو ارغونی رنگ میں غوطہ دے رہی ہوں۔ کوئی مصور اس تصویر کشی میں مصروف ہو اور کچھ ہی دیر میں آسمان پر میرے دوست ستاروں کی محفل سجنے کو ہو، پہاڑوں کی اوٹ سے طلوع ہوتا چندا ماموں، پہاڑوں کی ڈھلوانوں پر لٹکتی ٹمٹماتی روشنیاں، نین کی خوشبو، گرم گرم کافی کا کپ، سندھو کا جل ترنگ۔ یقین کریں زندگی بھر کی تھکان اتر جائے گی۔ ڈوبتے سورج کا پرفریب منظر، آسمان پر سجی چاند ستاروں کی کہکشاں، قسمت والوں کو ہی یہ مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ہمارے شہروں کی فضا سے تو ایسے مناظر گم ہوئے ایک مدت بیت چکی ہے۔

مجھے سندھو کی آواز سنائی دی، ”نین راستے میں ڈر رہی تھی۔ اسے بتاؤ جن شہداء کی یادگار پر تم فاتحہ پڑھ کر آئے ہو وہ بہادر جوان تھے جو ان پہاڑوں سے ڈرے بغیر دن را ت اپنے کام میں مگن رہے۔ ان پہاڑوں نے غصے سے لال پیلے ہو کر ان جوانوں پر پتھر برسائے، اُن پر غرائے، انہیں ڈرایا، وہ نہ ڈرے تو پتھر گرا کر سڑک کو ہی بند کر دیتے تھے مگر آفرین ماؤں کے ان سپوتوں اور جگر گوشوں پر کہ وہ غیر متزلزل رہے اوریہ عجوبہ شاہراہ تعمیر کر گئے۔ قربانیوں کا یہ آج بھی سلسلہ جاری ہے۔“ نین کہنے لگی؛”مجھے پہاڑوں سے تو کم مگر تم سے زیادہ ڈرلگا ہے۔ پہاڑ تو کبھی کبھار ہی ڈراتے ہیں مگرتم توہر وقت غراتے رہتے ہو۔ بتاؤ؛تم غصے میں آؤ تو کیا کرتے ہو؟“ زور دار لہر اٹھی جیسے اس کا قہقہہ فضاء میں گونجا ہو اور اس نے کہا؛”واہ جی واہ۔ مجھ سے دوستی بھی اور مجھ سے ڈرنا بھی۔ دوست دوستوں سے ڈرتے نہیں ہیں اور نہ ہی ڈراتے ہیں۔یاد رکھنا اس بات کو۔ ہاں جہاں تک غصے کا تعلق ہے تو غصے میں آؤں تو بستیاں ڈبو دوں۔ پٹن کو کئی بار اپنے غصے کی بھینٹ چڑھا چکا ہوں۔جب سڑک بن رہی تھی تب بھی مجھے غصہ آتا تھا۔پہاڑ مجھے پتھر مارتے تو غصہ جوانوں پر ہی نکالتا تھا انہیں نگل جاتا جن کی وجہ سے پتھر مجھ پر گرتے مگر آفرین صد آفرین ان جوانوں پر جونہ ڈرے،نہ گھبرائے اور نہ ہی ان کے عزم و استقلال میں کوئی فرق آ یا۔پہاڑ اور میں ہار گئے۔ گوشت پوست کے جوان جیت گئے۔“

سندھو کنارے کچھ دیر اس کی موجوں کو شور مچاتے دیکھ کر اور اس رومانوی ریسٹ ہاؤس میں گرما گرم چائے کے پیالے سے تازہ دم ہو کر پھر شاہراہ ریشم پر چلے جا رہے ہیں۔ ہزار کلو میٹر طویل یہ سڑک دنیا کے مشکل ترین اور اونچے پہاڑوں سے گزرتی ہے۔ حویلیاں سے گلگت اور گلگت سے ہنزہ کی جانب بلندی کی طرف بڑھتی چلی جاتی ہے۔ اپریل کا آغاز ہے۔ سڑک کے دونوں طرف گری برف کی چھوٹی بڑی ٹکڑیاں اب بھی سڑک کے ساتھ ساتھ دور تک پھیلی ہیں۔ ہو کا عالم ہے۔ جیپ کے انجن کا شور پہاڑوں سے ٹکرا کر گونج پیدا کر رہا ہے۔ کبھی کوئی بس یا فوجی گاڑی نظر آ جاتی ہے۔ فوجی گاڑی میں فوجی جوان بندوق تھامے آنکھیں دائیں بائیں گھماتے چاق و چوبند بیٹھے نظر آتے ہیں

چاروں طرف پھیلی برف دیکھ کر مجھے چشم تصور میں پنجاب کی بہار یاد آ گئی ہے کہ وہاں موسم بسنتی ہو گا۔ کچی منڈیروں کے گرد سرسوں پھیلی ہوگی۔درختوں پر گاؤں کی مٹیاریں جھولا جھولنے لگی ہوں گی۔ گھر کے آنگن میں کسی ماں، بہن، بیوی اور بیٹی نے رنگین چادر ڈال کر ساگ، مکئی کی روٹی، سفید مکھن اور لسی کی چنگیر تیار کی ہوگی اور تھوڑی دیر میں یہ چنگیر وہ سر پر اٹھائے، کولہے پہ لسی کی چاٹی دبائے مستانی چال چلتی کسی کھیت میں خون پسینہ بہاتے گبھرو بیٹے، سجیلے ویر، بلقیس کے ابا یا کسی سوہنے من موہنے دلبر کو دینے نکلی ہوگی۔ کسی درخت کی اوٹ میں چھپا رانجھا اپنی ہیر کی راہ میں انتظار کی آنکھیں لگائے ہوگا اور۔۔۔۔۔ گاڑی کا ٹائر گڑھے سے ٹکرایا تو میرا تخیل بھی گڑھے میں اتر گیا ہے۔ (جاری ہے)

نوٹ: یہ کتاب ’بُک ہوم‘ نے شائع کی ہے، جسے ادارے اور مصنف کے شکریے کے ساتھ سنگت میگ میں قسط وار شائع کیا جا رہا ہے. سنگت میگ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close