چین نے اویغور مسلمانوں کے حقوق کی سنگین خلاف ورزی کی: اقوام متحدہ کی رپورٹ

ویب ڈیسک

اقوام متحدہ نے چین کے مغربی صوبے سنکیانگ میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے بارے میں اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ تشدد کے الزامات مصدقہ ہیں

اقوام متحدہ نے باوثوق اطلاعات کی بنیاد پر اپنی انتہائی اہم رپورٹ میں کہا ہے کہ ایغور مسلمانوں کو تفریق آمیز قید و بند اور اذیت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ چین کا یہ تفریق آمیز سلوک انسانیت کے خلاف جرائم کے مترادف ہے

فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اقوام متحدہ نے بدھ کو ایک انتہائی چونکا دینے والی رپورٹ جاری کی ہے، جس میں سنکیانگ صوبے میں ایغور مسلمانوں کے خلاف انسانیت سوز ممکنہ جرائم کی نشاندہی کی گئی ہے

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے بدھ کے روز جاری کردہ اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ سنکیانگ میں ایغور اور مسلم گروپوں کے دیگر افراد کو سن 2017 سے 2019 تک اور ممکنہ طور پر اس کے بعد بھی ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان افراد کے ساتھ اذیت یا غلط سلوک بشمول جبراً طبی علاج اور ناگفتہ بہ حالات میں قید میں رکھنے کے الزامات درست اور مصدقہ ہیں

رپورٹ میں اویغوروں اور دیگر مسلم اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں کی تفصیلات فراہم کی گئی ہیں، تاہم رپورٹ میں نسل کشی کا کوئی حوالہ نہیں دیا گیا

واضح رہے کہ امریکہ اور دیگر ناقدین چین پر اویغوروں کی نسل کشی کا الزام عائد کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ اور دیگر گروپوں کی جانب سے ایک عرصے سے چین پر سنکیانگ خطے میں دس لاکھ سے زائدایغور افراد کو قید میں رکھنے کے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں

چین نے تاہم ان الزامات کو مغربی طاقتوں کی جانب سے "جھوٹ کا پلندہ” قرار دیتے ہوئے رپورٹ کو مسترد کر دیا ہے

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’دنیا کو اب سنکیانگ میں انسانی حقوق کی صورتحال پر فوری توجہ دینی چاہیے۔‘

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی سربراہ مشیل بیچلیٹ کا کہنا ہے کہ چین کے خود مختار علاقے سنکیانگ کے اندر کی صورتحال کا مکمل جائزہ لینے کی ضرورت ہے

اقوام متحدہ نے یہ رپورٹ اس وقت جاری کی جب اقوام متحدہ انسانی حقوق کمیشن کی سربراہ میشیل بیچلیٹ کی چار سالہ مدت کار ختم ہونے میں صرف 13 منٹ باقی رہ گئے تھے۔ بیچلیٹ پر ماضی میں چین کے ساتھ نرم رویہ اختیار کرنے کے الزامات عائد ہوتے رہے ہیں۔ تاہم انہوں نے اس رپورٹ کو جاری نہ کرنے کی چین کی اپیل مسترد کر دی

یہ رپورٹ تقریباً ایک سال سے تیار ہو رہی تھی اور چین نے اسے جاری کرنے کی شدید مخالفت کی تھی، جبکہ مشیل بیچلٹ نے اسے اگست کے آخر میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر کے طور پر اپنی چار سالہ میعاد ختم ہونے سے پہلے ہی جاری کرنے کا تہیہ کر رکھا تھا

مشیل بیچلیٹ نے جمعرات کو اے ایف پی کو بھیجی گئی ایک ای میل میں کہا ’میں نے کہا تھا کہ میں اسے اپنا مینڈیٹ ختم ہونے سے پہلے شائع کر دوں گی۔‘

انہوں نے مزید کہا ’کچھ ریاستوں کی طرف سے انسانی حقوق کے ان سنگین مسائل کو سیاسی بنانے سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔‘

تشدد کے مصدقہ الزامات:

چین پر برسوں سے الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ اس نے خطے میں دس لاکھ سے زائد اویغور اور دیگر مسلمانوں کو حراست میں رکھا ہوا ہے

جبکہ بیجنگ ان دعووں کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے اصرار کرتا رہا ہے کہ وہ انتہا پسندی روکنے کے لیے بنائے گئے پیشہ ورانہ مراکز چلا رہا ہے

اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’حکومت کی جانب سے انسداد دہشت گردی اور انسداد انتہا پسندی کی حکمت عملی کے اطلاق کے تناظر میں اویغور کے خود مختار علاقے میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی گئی ہیں‘

رپورٹ میں چین کے ’پیشہ ورانہ تعلیم اور تربیتی مراکز‘ (وی ای ٹی سی ایس) میں رکھے گئے لوگوں کے ساتھ سلوک کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا گیا ہے

تاہم اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کا دفتر اس بات کی تصدیق نہیں کر سکا کہ ان مراکز سے کتنے لوگ متاثر ہوئے ہیں لیکن یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ یہ نظام پورے خطے میں وسیع پیمانے پر کام کرتا ہے

اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کا کافی عرصے سے انتظار تھا۔ یہ رپورٹ سنکیانگ میں آٹھ مختلف حراستی مراکز کے سابق قیدیوں اور وہاں کام کرنے والے دیگر افراد کے ساتھ انٹرویو پر مبنی ہے

بعض قیدیوں کا کہنا ہے کہ انہیں ایسے دستاویزات پر دستخط کرنے کے لیے مجبور کیا گیا کہ وہ اپنے ساتھ ہونے والے سلوک کے بارے میں کسی کو نہیں بتائیں گے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کا کہنا ہے کہ چینی حکام یہ معلومات آسانی سے دینے کے لیے آمادہ نہیں تھے

اڑتالیس صفحات پر مشتمل رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایغوروں کو جرائم کے الزام میں حراستی مراکز، جنہیں چین "ووکیشنل سینٹر” کہتا ہے، سے اب روایتی جیلوں میں منتقل کیا جا رہا ہے

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دہشت گردی، انتہاپسندی اور عوامی سلامتی کے متعلق غیر واضح اور وسیع تر تشریح کے تحت ملکی جرائم قانون کا استعمال بالخصوص تشویش کا موجب ہے کیونکہ ان کے تحت طویل مدتی سزائیں دی جا سکتی ہیں

اقوام متحدہ سے جامع کارروائی کی اپیل

ہیومن رائٹس واچ کے چین امور کی ڈائریکٹر سوفی رچرڈسن کا کہنا تھا کہ”رپورٹ سے پتہ چل گیا کہ آخر چین کی حکومت اس رپورٹ کی اشاعت کو روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کیوں کر رہی تھی۔”

واضح رہے کہ اقوام متحدہ میں چین کے سفیر زانگ جن نے رپورٹ کے اجراء سے قبل کہا تھا کہ بیجنگ، مہینوں سے تیار پڑی، اس رپورٹ کو جاری کرنے کی مخالفت کرے گا

سوفی رچرڈسن نے کہا "اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کونسل کو اس رپورٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے چینی حکومت کی جانب سے انسانیت کے خلاف جرائم کے حوالے سے جامع تفتیش شروع کرنی چاہئے اور اس کے لیے ذمہ داروں کو قصوروار ٹھہرانا چاہئے۔”

خیال رہے کہ سنکیانگ میں تقریباً ایک کروڑ بیس لاکھ ایغور ہیں اور ان میں غالب اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ہوسکتا ہے غیرمسلموں کے ساتھ بھی تفریق آمیز سلوک کیا جاتا ہو۔ ماضی میں بعض ممالک سنکیانگ میں چین کے اقدامات کو نسل کشی قرار دے چکے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close