ضلع سوات کے ایک ہی گھر میں ساس، بہو اور کم سن بچی کے مبینہ قتل کا معمہ، قتل یا جانوروں کا حملہ؟

نیوز ڈیسک

سوات – صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع سوات کی تحصیل مٹہ کے ایک گاؤں اونڑ میں جمعرات کو ایک مکان سے ایک معمر خاتون اور جواں سال خاتون سمیت ایک بچی کی لاشیں ملی تھیں، ان تینوں کے سروں پر شدید ضربوں کے نشانات تھے

پولیس کے مطابق اس مکان میں جھولے میں ایک بچی زندہ سلامت ملی ہے۔ مقامی سطح پر یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ جنگلی جانور گھر میں داخل ہوئے اور ان خواتین کو مار دیا، لیکن انسپکٹر طارق خان نے ابتدائی تفتیش میں اس تاثر کو غلط قرار دیا ہے کہ یہ کام کسی جنگلی جانور کا ہے

پولیس انسپکٹر طارق خان، جو انتہائی پسماندہ اور دور دراز پہاڑ پر ایک مکان میں دو خواتین اور ایک بچی کے قتل کی ابتدائی تفتیش کے لیے پہنچے تھے، انہوں نے متاثرہ گھر کی منظر کشی کرتے ہوئے بتایا ’کمروں اور کچن میں خون زمین پر بکھرا پڑا تھا، ٹوٹے برتن اور ایک جگہ خون کے ساتھ انسانی سر کے کچھ حصے بھی تھے۔ جسم ثابت تھے، ان پر کوئی تشدد یا خراش کے نشان نہیں تھے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ان کے ہمراہ ڈاکٹر اور وائلڈ لائف کے محکمے کے افسر گئے تھے اور سب نے کہا ہے کہ ’یہ قتل ہے، جنگلی جانور کا حملہ ایسا نہیں ہو سکتا۔‘

پولیس کا کہنا ہے کہ اب اس بارے میں قتل کی دفعات کے تحت مقدمہ درج ہوگا اور قاتلوں کی گرفتاری کو یقینی بنایا جائے گا

انسپکٹر طارق خان نے بتایا کہ ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ سے واضح ہے کہ سر پر تیز دھار آلے یا بھاری چیز سے حملہ کیا گیا، جس سے ان کی کھوپڑیاں پر شدید چوٹیں آئیں

ان کا کہنا تھا کہ ان کے سروں پر شدید ضربیں آئیں لیکن جسم پر کوئی چوٹ یا زخم کے نشان نہیں ہیں

سوات پولیس کے ضلعی سربراہ زاہداللہ مروت نے بتایا کہ تینوں لاشوں کا پوسٹ مارٹم ہوگیا ہے اور پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق تینوں کو تیز دھار آلے سے قتل کیا گیا ہے

زاہداللہ نے بتایا ”پولیس نے تینوں خواتین کے قتل کا مقدمہ نامعلوم ملزمان کے خلاف درج کردیا ہے اور تفتیش شروع کی ہے۔“

پوسٹ مارٹم سے قبل متعلقہ پولیس سٹیشن کے اہلکار مدثر خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ واقعہ رات کو پیش آیا تھا جس میں ایک 61 سالہ، ایک 40 سالہ خاتون جبکہ ایک چھ سالہ بچی کی لاشیں ایک گھر سے برآمد ہوئی تھیں۔

پولیس اہلکار نے بتایا، ’علاقے کے لوگوں کا دعویٰ ہے کہ خواتین کو ایک خونخوار جانور نے ماردیا ہے، جو قریبی پہاڑی سے گھر میں گھس گیا تھا۔ تاہم ان میں سے کسی نے خونخوار جانور کو گھر میں گھستے ہوئے اور نکلتے ہوئے نہیں دیکھا ہے۔‘

اہلکار نے بتایا کہ ابھی تک یہ صرف افواہ ہے اور پولیس تفتیش کر رہی ہے کہ کیا واقعی خواتین پر حملہ کسی خونخوار جانور نے کیا ہے۔ علاقہ مکین یہ بھی بتاتے ہیں کہ گھر میں جانور کے حملے کے دوران کوئی مرد موجود نہیں تھا کیونکہ وہ پنجاب میں مزدوری کی غرض سے گئے تھے

مدثر نے بتایا کہ پولیس ٹیم اس کیس پر کام کر رہی ہے اور لاشوں کے پوسٹ مارٹم کے لیے نمونے لیبارٹری بھجوائے تھے اور لاشیں مٹہ کے سول ہسپتال منتقل کی گئیں تھیں

مقامی افراد کے مطابق معمر خاتون کی عمر اَسی برس، ان کی جواں سال بہو کی عمر پچیس سے ستائیس سال، جبکہ بچی کی عمر چھ سال بتائی گئی ہے

غلام بہادر اس علاقے کے رہنے والے ہیں، جہاں پر یہ واقعہ پیش آیا ہے اور ان کا گھر اسی گھر کے بالکل قریب ہے

انہوں نے بتایا ”یہ ایک پہاڑی علاقہ ہے لیکن اس کے قریب کوئی خاص جنگل واقع نہیں ہے، تاہم جنگلی جانوروں کے نکلنے کے واقعات اس علاقے میں ماضی میں بھی ہوئے ہیں۔ پچھلے سال بھی ایک جانور نے گھر میں مال مویشیوں پر حملہ کیا تھا۔“

غلام بہادر سے جب پوچھا گیا کہ گھر کے مرد کہاں گئے تھے، تو اس کی جواب میں ان کا کہنا تھا ”یہ ایک پسماندہ علاقہ ہے اور ان دنوں گھروں کے مرد زیادہ تر دیگر شہروں میں مزدوری کی غرض سے جاتے ہیں“

انہوں نے بتایا کہ یہ واقعہ ایسا لگتا ہے کہ رات کے وقت پیش آیا تھا کیونکہ علاقے کے لوگوں کو صبح آٹھ نو بجے پتہ لگ گیا تھا کہ گھر میں لاشیں پڑی ہیں جبکہ ایک تین چارماہ کی بچی جو جھولے میں تھی، وہ بچ گئی ہے

انہوں نے بتایا ”یہاں یہ ایک قسم کا ٹرینڈ ہے کہ سردیوں میں گھر کے مرد مزدوری کے لیے دیگر شہروں میں جاتے ہیں اور زیادہ تر لوگ ملوں میں مزدوری کرتے ہیں۔“

اسی واقعے کے حوالے سے گاؤں کے ایک اور شخص نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ ان کی پھوپھی ان خواتین میں سے ایک سے ملنے کی غرض سے ان کے گھر گئیں، تو وہاں پر ان کو لاشیں ملیں

انہوں نے بتایا کہ ایک خاتون کی لاش کچن میں، دوسرے کی ایک کمرے میں لگے روایتی چولہے (مقامی زبان پشتو میں اس کو بخاری کہا جاتا ہے جو چمنی کی طرز کا ہوتا ہے کس میں لکڑیاں جلا کر سردیوں میں گرم کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے) کے ساتھ پڑی تھیں، جبکہ ان کے قریب ہی کم سن بچی کی لاش پڑی تھی

لاشوں پر زخموں کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ تینوں لاشوں کے سروں پر وار کیے گئے ہیں

مقتولین کے اہل خانہ نے کہا ہے کہ یہ واردات بظاہر ڈکیتی لگتی ہے

جہاں تک اس علاقے کا تعلق ہے، یہ سوات کے مرکزی شہر مینگورہ سے تقریبا تیس کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے، جو ضلع سوات کا بالائی علاقہ ہے۔ علاقہ مکین غلام بہادر کے مطابق یہاں پر ایسا کوئی جنگل موجود نہیں ہے، تاہم گھروں کے قریب کھیت ضرور موجود ہیں۔‘

اس گھرانے کے مرد صوبہ پنجاب میں مزدوری کرتے ہیں۔ پولیس اہلکاروں نے بتایا کہ اس واقعے کے بعد اس گھرانے کے افراد موقع پر پہنچ گئے ہیں

انسپکٹر طارق خان نے بتایا کہ یہ لوگ انتہائی غریب ہیں۔ پولیس جب مکان میں داخل ہوئی اور مکان میں موجود چیزوں کا جائزہ لیا، تو گھر میں آٹا یا گھی وغیر کچھ نہیں تھا

’چند برتن اور چٹائی اور ضرورت کا کچھ دیگر سامان تھا۔ کھانے پینے کی دیگر اشیا بھی گھر میں نہیں تھیں۔ موقع سے لی گئی تصاویر سے ایسا لگتا ہے کہ ایک قتل وہاں کیا گیا جہاں چائے کے برتن اور پیالیاں پڑی تھیں۔ یہاں سب سے زیادہ خون پڑا تھا۔ دوسرا قتل کچن میں جہاں تندور اور انگیٹھی لگی ہوئی تھی، وہاں قدرے کم خون نظر آیا جبکہ ایک قتل علیحدہ ہوا تھا، وہاں سب سے کم خون تھا۔‘

واضح رہے کہ یہ مکان پہاڑ کی چوٹی پر واقع ہے اور مٹہ تحصیل سے اس گاؤں تک پہنچنے کے لیے تین سے چار گھنٹے لگ جاتے ہیں اور یہاں گھنا جنگل ہے، جبکہ مکان ایک دوسرے سے دور دور واقع ہیں

انسپکٹر طارق خان نے بتایا کہ ’اس علاقے میں جنگلی جانور ضرور ہیں، لیکن یہ حملہ جنگلی جانوروں کا نہیں بلکہ یہ سراسر قتل ہے۔‘

خیبر پختونخوا میں سوات پولیس کے لیے یہ قتل چیلنج بن گئے ہیں اور تحقیقات مختلف زاویوں سے کرنی ہوگی۔ پولیس کے مطابق وہ اس کا باقاعدہ مقدمہ درج کر کے اس کی تفتیش شروع کریں گے

پولیس حکام کا کہنا تھا کہ لواحقین پوسٹ مارٹم کی اجازت بھی نہیں دے رہے تھے، اب اس تفتیش کے لیے وہ دائرہ وسیع کریں گے تاکہ اصل قاتلوں تک پہنچا جا سکے

ان کا کہنا تھا یہ لوگ غریب ہیں اور بظاہر کوئی ایسے شواہد بھی نہیں ملے کہ ان کی کسی سے کوئی دشمنی وغیرہ تھی

مقتول خواتین میں سے ایک کے شوہر میرا جان نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ قتل ہونے والوں میں ایک ان کی اہلیہ، دوسری بہو اور نواسی شامل ہے

انہوں نے بتایا کہ خواتین کے کانوں سے سونے کی بالیاں چرا لی گئیں اور ان کے کانوں کو چیرا گیا ہے، جبکہ گھر کے ایک کمرے کے اندر صندوق میں موجود سونا غائب ہے

انہوں نے بتایا: ’صندوق کا تالا توڑا گیا اور اس میں سے سونا چوری ہوا۔ ایک خاتون نے کمرے کے اندر زمین میں کچھ رقم رکھی ہوئی تھی وہ بھی لے گئے۔‘

مقتولین کے اہل خانہ نے کہا کہ یہ واردات بظاہر ڈکیتی لگتی ہے

مقامی صحافی آصف شہزاد کے مطابق سوات کے بالائی علاقوں میں نقدی کو محفوظ رکھنے کے لیے زمین کے اندر گھڑا بنا کر رکھا جاتا ہے، کیونکہ ان علاقوں میں قریبی کسی بینک کی سہولت موجود نہیں

میرا جان نے بتایا کہ تینوں مقتولین کے سر پر وار کیا گیا انہوں نے مبینہ ڈکیتی میں ملوث افراد کو گرفتار کر کے سزا دینے کا مطالبہ کیا

انہوں نے بتایا کہ ان کے خاندان کی کسی کے ساتھ کوئی ذاتی دشمنی یا تنازع نہیں

واقعے کا مقدمہ دفعہ پاکستان پینل کوڈ کے دفعہ 302 کے تحت درج کر لیا گیا ہے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close