ماحول کے تحفظ کے لیے صرف درخت لگانے کافی نہیں

اسٹیو بوگن

11 نومبر 2019 کو ماحولیات کے حوالے سے باشعور ترکی کے عوام نے ملک بھر میں دو ہزار سے زائد مقامات پر 1.1 کروڑ پودے لگائے۔ محض کورم صوبے میں ایک گھنٹے کے اندر اندر تین لاکھ تین ہزار ایک سو پچاس درخت لگائے گئے اور یہ ایسا کارنامہ تھا، جو گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ کا حصہ بن گیا

موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے یہ لوگوں کی رغبت یا مجبوری کا خوبصورت مظاہرہ تھا کہ وہ اپنے حصے کا کام کر رہے ہیں۔ درخت بڑھیں گے اور فوٹو سنتھیسز کے عمل کے دوران کاربن ڈائی آکسائڈ جذب کریں گے، جو گلوبل وارمنگ کا بنیادی ترین سبب ہے

تاہم تین ماہ بعد ترکی کی انجمن زراعت و جنگلات نے دعویٰ کیا کہ ان میں سے نوے فیصد مر چکے ہیں۔ انجمن کے صدر سکرو ڈورمس نے کہا کہ پودے زندہ نہ رہ سکے کیونکہ وہ غلط وقت پر لگائے گئے تھے، انہیں مناسب پانی نہ دیا گیا اور کیونکہ درخت لگانا ماہرین کا کام ہے، پُرجوش شوقیہ افراد کا نہیں

یہ چین میں صحرائے گوبی کی پیش قدمی روکنے کے لیے شروع کی گئی چینی شجرکاری مہم کی ابتدائی ناکامی کی بازگشت تھا۔ 1978ع میں شروع ہونے والے تھری نارتھ شیلٹر بیلٹ پروجیکٹ میں چین کے شمالی جانب پیش قدمی کرتے ہوئے صحرا کے کنارے دو ہزار آٹھ سو میل کی لمبائی میں درختوں کے طویل سلسلے کھڑے کیے گئے، ایک ’طویل سبز دیوار‘ جو اسے آگے بڑھنے سے روکے گی۔ ٹنوں کے حساب سے بذریعہ جہاز بیج گرائے گئے اور لاکھوں پودے ہاتھ سے لگائے گئے، لیکن 2011ع میں سائنس دانوں کی ایک تحقیق سے معلوم ہوا کہ ان میں سے تقریباً 85 فیصد فنا ہو چکے ہیں کیونکہ وہ ماحول ان کے لیے سازگار نہیں تھا

چین نے وہاں شجرکاری کا سلسلہ جاری رکھا اور اندازے کے مطابق ابھی تک 70 بلین درخت لگا چکا ہے، یہ منصوبہ 2050ع تک چلتا رہے گا۔ اسے ’جنگل کاری‘ یا Afforestation کہا جاتا ہے. ایک ایسا عمل، جس میں ایسی جگہ پر درخت لگانا شامل ہے، جہاں پہلے نہیں تھے

یہ ایک مثبت چیز ہونی چاہیے، کیا خیال ہے؟

ٹھیک ہے، لیکن ہمیشہ نہیں۔ اگر جنگل کاری ایسی زمین پر کی جائے، جو اس کے لیے سازگار نہیں تو درخت اس زمین کو چوس کر خشک کر دیں گے، جس سے ممکنہ طور پر معاملہ زیادہ سنگین ہو جائے گا

بیجنگ میں واقع چائینیز اکیڈمی آف سائنسز سے وابستہ صحرا بندی کے ماہر شیان شیوے نے نیشنل جیوگرافک میگزین کو 2017ع میں انٹرویو دیتے ہوئے بتایا ’(یہ ایسا ہی ہے جیسے) امریکی کسان 1930ع کی دہائی میں خطرناک ریتلے طوفانوں کا سبب بنے۔ لوگ قدرتی ریت کے ٹیلوں اور گوبی میں درخت لگانے کے لیے جوق در جوق پہنچے، جس کے سبب مٹی کی نمی اور زیر زمین پانی کی سطح میں تیزی سے کمی واقع ہوئی۔ دراصل اس کے سبب (کچھ علاقے) صحرا بن جائیں گے‘

اگر آپ پر ان باتوں سے مایوسی طاری ہونے لگی ہے تو آپ دنیا بھر کے ان لاکھوں لوگوں میں سے ایک ہو سکتے ہیں، جنہوں نے اپنے حصے کی کاربن کے تدراک کے لیے درخت لگانے کی خاطر کوشش کی ہے۔ اگرچہ جس زاویے سے دیکھیں درخت لگانا ایک مثبت عمل محسوس ہوتا ہے لیکن کرہ ارض کے تحفظ کے لیے صرف اسی پر انحصار درست نہیں

یونیورسٹی کالج لندن میں گلوبل چینج سائنس کے پروفیسر سائمن لیوس کہتے ہیں، ’لوگ درختوں سے بہت جڑے ہوئے اور ان سے محبت کرتے ہیں، یہ ایک اچھی بات ہے۔ لیکن اکثر وبیشتر شجرکاری کو موسمیاتی مسائل کے حل کا جواز بنا کر پیش کرنا مسخ شدہ سائنس اور سیاسی سہولت کے سوا کچھ نہیں، جسے وہ کاربن کا اخراج کم کرنے اور جلد سے جلد کم کرنے کی ضرورت کے پیش نظر حسب معمول جاری رکھتے ہیں۔

مارچ کے آخری ہفتے میں نیس ڈیک نے دنیا کا پہلا ایسا کموڈٹی انڈیکس تیار کیا، جو اس بات کا پتہ چلائے گا کہ فضا سے کاربن ڈائی آکسائڈ ختم کرنے کے لیے کیا قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ یہ مختلف قسم کے کاربن ریمول سرٹیفیکیٹس یا Corcs کی نگرانی کرے گا، قابل تجارت ڈجیٹل اثاثہ جات، جو ختم کی گئی ایک ٹن کاربن کی نمائندگی کرتا ہے

اس کموڈٹی انڈیکس کی نمائش کاربن آف سیٹ مارکیٹ کی روزافزوں ترقی میں تازہ ترین پیش رفت تھی، جس کی مالیت بینک آف انگلینڈ کے سابق گورنر (اور اب ایک کینیڈین اثاثہ جات مینیجمینٹ کمپنی کے وائس چیئرمین) مارک کارنی کے مطابق ایک سو ارب ڈالر ہوگی۔ جیسا کہ حکومتیں اور کمپنیاں کاربن کے اخراج میں کمی لانے سے متعلق کیوٹو، پیرس اور گلاسکو میں طے کیے گئے اہداف پورا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں، کاربن کریڈٹس خرید کر کاربن کا اخراج کم تر ظاہر کرنے کا امکان ایک بڑا کاروبار بنتا جا رہا ہے

جس طرح قرون وسطیٰ کے کیتھولک اپنی روحوں کو پاک کرنے اور جنت کا راستہ ہموار کرنے کے لیے پوپ کی خوشنودی خرید سکتے تھے، بالکل اسی طرح کمپنیاں ایسی اسکیمیں خرید سکتی ہیں، جو ممکنہ طور پر اس ماحولیاتی نقصان کا تدارک کرتی ہیں جو ان کی سرگرمیوں سے ماحول کو پہنچتا ہے۔ کیوں کہ یہ کاربن کا اخراج کم کرنے کی نسبت کہیں زیادہ آسان ہے، اس لیے شجرکاری بعض حکومتوں اور کارپوریشنز کے درمیان معافی تلافی کا پسندیدہ طریقہ بن گیا ہے

معروف جریدے نیچر کے مطابق 2015ع کے ایک جائزے سے واضح ہوتا ہے کہ کرہ ارض پر تیس کھرب درخت ہیں۔ ایک ٹریلین میں بارہ صفر ہوتے ہیں، اگر اس ہندسے کو تین ہزار بلین لکھا جائے تو سمجھنا آسان ہے۔ کیوں کہ یہ درخت کاربن ڈائی آکسائڈ جذب یا Sequester کرتے اور آکسیجن خارج کرتے ہیں اس لیے موسمیاتی تبدیلی کے خلاف فطری ہتھیار سمجھے جاتے ہیں

نتیجتاً زیادہ سے زیادہ پودے اگانے کا جوش و جذبہ پیدا ہوا۔ جنوری 2021ع میں ورلڈ اکنامک فورم نے دس کھرب درخت لگانے کا اپنا منصوبہ شروع کیا، جس کا مقصد کرۂ ارض پر درختوں کو اگانا، بچانا یا بحال کرنا ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور منصوبہ ’ٹریلین ٹریز‘ بھی ہے، جو ماحولیاتی تحفظ کے لیے سرگرم کئی گروہوں کے اشتراک سے وجود میں آیا ہے اور اس کی سرپرستی وائلڈ لائف کنزرویشن سوسائٹی اور وائلڈ لائف فنڈ کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک ٹریلین ٹری کمپین ہے، جسے جرمنی کی ایک تنظیم پلانٹ فار دا پلانِٹ چلا رہی ہے۔

اسی طرح عمران خان کی حکومت نے بھی پاکستان میں ’بلین ٹری سونامی‘ کے نام سے شجرکاری کی مہم شروع کی تھی، مگر اس پر بھی اعتراضات ہوتے رہے ہیں کہ لگائے گئے درختوں میں سے بیشتر سوکھ گئے

تاہم کچھ سائنس دان خبردار کر رہے ہیں کہ شجرکاری شاید وہ حل نہیں، جس کی دنیا کو تلاش ہے۔ درحقیقت جب تک صحیح وجوہات کی بنا پر صحیح مقامات پہ صحیح درخت نہیں لگائے جاتے وہ فائدے کے بجائے نقصان زیادہ پہنچا سکتے ہیں

بین الحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلیIPCC کے مطابق اگر 2015 کے پیرس معاہدے کے تحت گلوبل وارمنگ کو 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ کی حد تک لانے کا ہدف پورا کرنا ہے تو رواں صدی کے آخر تک تقریباً 730 بلین ٹن کاربن ڈائی آکسائڈ کرہ ارض سے ختم کرنا ہوگی

پروفیسر لیوس کے اشتراک سے لکھے گئے 2019ع کے مقالے کے مطابق یہ صنعتی انقلاب کے آغاز کے بعد سے امریکہ، برطانیہ، جرمنی اور چین کی طرف سے خارج ہونے والی کل کاربن ڈائی آکسائڈ کے برابر ہے

"قدرتی جنگلات کی بحالی، ماحولیاتی کاربن سے نجات کا بہترین طریقہ” کے عنوان سے شائع ہونے والے اس مقالے کے مطابق ”کوئی نہیں جانتا کہ اس قدر زیادہ کاربن ڈائی آکسائڈ پر کیسے قابو پایا جائے۔ جنگلات کو اس میں ضرور اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ ماحولیاتی نظام میں کاربن کو کم کرنے کے لیے شجرکاری محفوظ اور بیشتر صورتوں میں قابل برداشت اخراجات کی حامل ثابت ہو چکی ہے۔ درختوں کے زمین کے زیادہ سے زیادہ حصے پر پھیلانے کے حیاتیاتی تنوع کے تحفظ سے لے کر پانی کے انتظام اور ملازمتوں کے مواقع سمیت دیگر فوائد بھی ہیں۔

”آئی پی سی سی کی تجاویز کے مطابق جنگلات، گھاس اور پودوں کے مجموعی رقبے میں اضافہ اُس ماحولیاتی کاربن کا ایک چوتھائی حصہ کم کر سکتا ہے، جو گلوبل وارمنگ کو صنعتی انقلاب سے پہلے والے دور کے 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ کے ہدف تک لانے کے لیے درکار ہے۔ اس کا مطلب ہے فوری طور پر موجودہ وقت سے لے کر 2030ع تک ہر سال جنگلات میں چوبیس ملین ہیکٹرز تک کا اضافہ کرنا ہوگا“

ایسی شجرکاری کی حوصلہ افزائی کے لیے 2011ع میں جرمن حکومت اور بین الاقوامی یونین برائے تحفظ فطرت نے ‘بون چیلنج’ کا آغاز کیا، جس میں اقوام متحدہ کو دعوت دی گئی کہ وہ 2030ع تک جنگلات کے کٹنے سے خالی ہونے والی ساڑھے تین سو ملین ہیکٹر زمین پر دوبارہ سے درخت لگانے کا عہد کرے

جس وقت Lewis کا مقالہ شائع ہوا تھا، تب تینتالیس ملکوں نے تقریباً تیس کروڑ ہیکٹر زمین اپنے ذمے لینے کا وعدہ کیا اور اب مزید سات ممالک اس میں شامل ہو چکے ہیں۔ تاہم پروفیسر لیوس اور موسمیاتی تبدیلی پر تحقیق کرنے والے ان کے شریک مصنفین کو معلوم ہوا ہے کہ ذمہ لی گئی کل اراضی کا 66 فیصد حصہ تجارتی شجرکاری یا مصنوعی پودوں میں تبدیل ہو چکا ہے، جبکہ صرف 34 فیصد قدرتی جنگلات کے لیے چھوڑ دی گئی ہے، جہاں وہ بغیر کسی رکاوٹ پرورش پائیں گے اور یہ انتہائی اہم تھا

پروفیسر لیوس کہتے ہیں، ”جب لوگ جنگلات کی بحالی کے بارے میں سنتے ہیں تو ان کے ذہن میں نئے خوبصورت جنگلات کا تصور جاگ اٹھتا ہے جو صنعتی مونو کلچر سے زیادہ قدرتی تخلیق کا نیا روپ ہوں۔ لیکن جب ہم نے دیکھا کہ حکومتیں جنگلات کی بحالی کے سلسلے میں کیا کر رہی ہیں تو دنیا بھر میں تقریباً 45 فیصد رقبہ مونو کلچر کے لیے استعمال ہو رہا ہے، زیادہ تر لکڑی کی پیداوار، گودے اور کاغذ کے حصول کے لیے، اور 21 فیصد تجارتی جنگلات کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔

”جب آپ زمین کے کسی ٹکڑے کا رخ کرتے ہیں تو اس پر پہلے ہی کچھ پودے لگ چکے ہوتے ہیں، سو اس کی مٹی میں کاربن جمع ہو چکی ہوتی ہے لیکن جب آپ مونو کلچر شجرکاری کرنے کے لیے ان پودوں کو اکھاڑ پھینکتے ہیں تو وہ کاربن ڈائی آکسائڈ فضا میں پھیل جاتی ہے۔ آپ کے پاس ایک ہی نوع کے پودے ہوتے ہیں، جنہیں قطار در قطار لگا دیتے ہیں۔ بڑے ہوتے ہی یہ درخت فضا سے کاربن لے کر اپنے تنوں، جڑوں اور پتوں میں محفوظ کرتے جاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے، جیسے وہ ایک بڑا کاربن سنک ہوں، جس میں کاربن کی کثیر مقدار کچھ وقت کے لیے جمع ہو گئی ہو۔

”لیکن جب آپ ان تمام درختوں کو کاٹ ڈالتے ہیں تو ملبے اور کٹے ہوئے ٹکڑوں سے کاربن محض چند ہی برسوں میں جلنے یا گلنے سے دوبارہ ماحول کا حصہ بن جاتی ہے۔ لکڑی عام طور پر چِپ بورڈ یا بچھونے یا سستے فرنیچر کے لیے کاٹی جاتی ہے اور ان میں سے سے زیادہ تر چیز کچھ وقت کے بعد کوڑا کرکٹ میں بدل جاتی ہیں۔ آج کل فرنیچر کی بہت ساری چیزیں چند سال کے استعمال کے لیے تیار کی جاتی ہیں اور پھر انہیں تبدیل کر لیا جاتا ہے۔ بدلے میں انہیں جلا دیا جاتا ہے یا گلنے سڑنے کے لیے پھینک دیا جاتا ہے اور وہ گرین ہاؤس کا سبب بننے والی گیسیں کہیں زیادہ مقدار میں خارج کرتی ہیں۔

”اس کے برعکس اگر آپ کے پاس فطری طور پر خود رو جنگل ہے اور آپ اسے بڑھنے دیتے ہیں تو وہ کہیں زیادہ مدت کے لیے اس وقت تک کاربن اپنے اندر بند رکھے گا جب تک اس سے چھیڑخانی نہ کی جائے یا اسے کاٹ نہ دیا جائے۔ جب ہم نے اپنا مقالہ شائع کیا اس وقت یہ کافی چشم کشا تھا کہ حکومتیں ظاہراً تو اس اراضی کو جنگل میں بدلنے کا عہد کر رہی تھیں لیکن حقیقت میں وہ اسے مختصر مدت کے صنعتی تجارتی باغات اور جنگلات کے لیے استعمال کرنے کی کھلی چھوٹ دے رہی تھیں۔“

لیوس کی ٹیم کے مطابق اگر سب سے سستا اور آسان راستہ اپناتے ہوئے ساری 350 ملین ہیکٹرز زمین فطری جنگل کے طور پر اگنے کے لیے چھوڑ دی جائے تو بائیسویں صدی کی شروعات تک 42 بلین ٹن کاربن اس میں جذب ہو جائے گی۔ اتنی ہی مدت کے دوران 350 ملین ہیکٹرز پر مونو کلچر پلانٹیشن محض ایک بلین ٹن کاربن جذب کر سکے گی لیکن اپنے ذمے لی گئی زمین کا استعمال ایسے کیا جا رہا ہے جیسے دونوں کا معاملہ ایک جیسا ہو۔

یہ واضح کرنے کے لیے بہت سارے شواہد موجود ہیں کہ درخت لگانے کے بہترین منصوبے بھی توقع سے بہت کم کاربن میں کمی کر پاتے ہیں۔ آب و ہوا سے متعلق اطلاعات فراہم کرنے والی غیر منافع بخش ویب سائٹ گرسٹ Grist کے مارچ میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے دوران صحافی کیٹ یوڈر نے وضاحت کی کہ کس طرح امریکہ کا پہلا کاربن آف سیٹنگ انٹرپرائز ناکامی پر ختم ہوا

یوڈر لکھتی ہیں: ’1987 میں انرجی کمپنی AES کارپوریشن کے ایک ایگزیکٹو کو امریکی ریاست کنیٹی کٹ میں اپنے کوئلے کے پلانٹ سے خارج ہونے والی چالیس سالہ کاربن ڈائی آکسائڈ گوئٹے مالا کے پہاڑوں میں درخت لگا کر ختم کرنے کی سوجھی۔ یہ پہلا ’کاربن آف سیٹ‘ پروجیکٹ تھا اور نظریاتی سطح پر ٹھیک معلوم ہونے کے باوجود عملی طور پر مطلوبہ نتائج نہ دے سکا

”کسانوں نے خطے میں درخت لگانے شروع کر دئیے، وہ اب ماضی کے مقابلے میں کم فصلیں اگا رہے تھے اور اس سے اشیائے خورد و نوش میں کمی واقع ہونے لگی۔ پھر اس سے پہلے کہ چالیس سالہ منصوبہ پورا ہو مقامی لوگوں نے ایندھن اور لکڑی کے حصول کی خاطر درخت کاٹنے شروع کر دئیے۔ 2009ع کے ایک جائزے کے مطابق یہ منصوبہ کوئلے کے پلانٹ سے خارج ہونے والی محض دس فیصد کاربن کا تدراک کر سکا۔‘

شجرکاری کے منصوبے غیر ارادی نتائج کے حامل ہو سکتے ہیں۔ میکسیکو کے کسانوں کو حکومت کی جانب سے ان کی اراضی پر موجود جنگل کی دیکھ بھال کے لیے ادائیگی کی جاتی تھی لیکن 2018ع میں میکسیکو حکومت نے 3.4 ارب ڈالرز کا منصوبہ متعارف کروایا جس کا نام تھا Sownig Life تھا اور جس کے ذریعے کسانوں کو پھل یا عمارتی لکڑی کے درخت لگانے پر انعام دیا گیا۔ یہ ایک ایسا پراجیکٹ تھا، جس کا مقصد کاربن میں کمی کے ملکی وعدوں کو پورا کرنا اور ساتھ ساتھ غریب کسانوں کو روزگار فراہم کرنا تھا

ارادے نیک تھے لیکن چار لاکھ بیس ہزار کسانوں کو ماہانہ 162 پاؤنڈ کی ادائیگی کرنے والے اس منصوبے کی وجہ سے کئی وصول کنندگان نے قیمتی جنگل صاف کر دیا تاکہ اس زمین پر پودے اگا سکیں

یونیورسٹی آف سائنس اینڈ آرٹس آف چیاپس میں ماحولیات اور تحفظ کے پروفیسر مینڈوزا لوپیز نے بلوم برگ کے صحافی میکس ڈے ہالڈیوینگ کو بتایا کہ ”بہت سی مثالیں ایسی ہیں، جہاں لوگوں نے سوچا کہ ٹھیک ہے میرے پاس کئی ہیکٹر جنگل ہے لیکن کیونکہ پروگرام متعارف ہونے والا ہے اس لیے میں جنگل کا صفایا کر دوں، درخت گھر کے لیے استعمال کروں یا بطور لکڑی بیچوں یا جو بھی کروں جب پروگرام آ جائے گا تو میں دوبارہ بیج بو دوں گا“

میکسیکو حکومت کے ساتھ نتائج کی نگرانی کے لیے تعاون پیش کرنے والی واشنگٹن میں قائم غیر منافع بخش ورلڈ ریسورسز انسٹیٹیوٹ WRI کے مطابق سٹیلائیٹ سے لی گئی تصاویر سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس اسکیم کے نتیجے میں محض 2019ع کے دوران تقریباً 73 ہزار ہیکٹر جنگلات کا نقصان ہوا۔ ہالڈیوینگ لکھتے ہیں، ”یہ تقریباً نیویارک سٹی جتنا رقبہ بنتا ہے۔“ WRI کے حساب کے مطابق ”یہ اراضی کے استعمال میں تبدیلی اور خطے میں غیر قانونی کٹائی کی وجہ سے ضائع ہونے والی جنگلات کی سالانہ اوسط رقم کا بھی تقریباً نصف حصہ بنتا ہے۔“

گذشتہ برس فلوریڈا اسٹیٹ یونیورسٹی کے پروفیسر ایرک کولمین کی سربراہی میں ماحولیاتی ماہرین کے ایک گروہ نے نیچر میں ایک رپورٹ شائع کی تھی، جس میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ ”شمالی ہندوستان میں کئی دہائیوں پر محیط شجرکاری کے منصوبے وقت کا مہنگا زیاں ثابت ہوئے کیونکہ وہ خالی جگہ کو جنگلات سے پُر کر سکے نہ مقامی لوگوں کے لیے معاون ثابت ہوئے“

گروپ کے اخذ کردہ نتائج کے مطابق ”یہ شجرکاریاں گنجان آباد [زرعی] اراضی میں ہوتی ہے، جہاں مختلف نوع کی موجودہ زمین مزید شجرکاری کے لیے میسر محدود جگہوں کا استعمال کرتی ہے۔ نتیجتاً زیادہ تر شجرکاری ان علاقوں میں ہوتی ہے، جہاں پہلے ہی کافی درخت ہوتے ہیں، جس سے دوبارہ اگنے کے امکانات محدود ہو جاتے ہیں۔ صاف زمینوں پر شجرکاری بھی مناسب متبادل نہیں کیونکہ سماجی و اقتصادی اور ماحولیاتی مجبوریوں کے سبب زرعی اراضی دوبارہ جنگلات میں تبدیل نہیں کی جا سکتی“

اپنی بات سمٹتے ہوئے انہوں نے کہا، ”معیشتوں کے کاربن ڈائی آکسائڈ کم کرنے کے طویل مدتی اہداف کے دوران شجرکاری کو اکثر موسمیاتی تبدیلیاں کم کرنے کے لیے فوری قدم کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جبکہ تحقیقات یہ توقعات کم کرنے کے عملی ثبوت فراہم کرتی ہیں۔ پالیسی سازوں اور اس کے حامیوں کو یہ خیال دل سے نکال دینا چاہیے کہ شجرکاری منصوبوں کے ذریعے وہ کاربن ڈائی آکسائڈ کم کرنے کے اپنے اہداف موثر طریقے سے حاصل کر لیں گے“

حکومتوں کی جانب سے شجرکاری منصوبوں کے بڑھتے ہوئے رجحان سے خطرہ یہ ہے کہ وہ اصل کرنے کا کام نظر انداز کر دیں گی: کاربن کے اخراج میں شدید کمی، قابل تجدید اشیاء کے استعمال میں اضافہ،فوسل فیولز کے استعمال کا تیزی سے خاتمہ اور سرد موسموں کے دوران گھروں کو اچھے سے ڈھانپنے پر دوبارہ توجہ کرنا۔

گرین پیس برطانیہ کے سینئر مشیر برائے موسمیات چارلی کرونک کہتے ہیں، ”اگر کسی چیز کے مفید ہونے پر اتنا زور دیا جا رہا ہو کہ اس کی سچائی مشکوک لگے، یہاں یہ کہ شجرکاری موسمیاتی مسائل حل کر ڈالے گی، تو سمجھئے کہ وہ واقعی مشکوک ہے۔ درخت لگانا ایک اچھی چیز ہے۔ یہ حیاتیاتی تنوع میں اضافہ کرتا ہے، یہ زمین کی سطح محفوظ رکھنے میں معاون ثابت ہوتا ہے، یہ سیلاب سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔ آپ کو بائیولوجی کی کلاس کے دنوں سے یاد ہوگا کہ درخت کاربن سائیکل کا حصہ ہیں، وہ کاربن ڈائی آکسائڈ کو جذب کرتے اور آکسیجن پیدا کرتے ہیں۔

”بدقسمتی سے ہمارے پاس دو مختلف حل طلب مسائل ہیں۔ ایک یہ کہ ہمیں فوسل فیولز کے استعمال میں کمی لانا ہے تاکہ کاربن کا اخراج کم ہو سکے اور دوسرا یہ کہ جنگلات کی کٹائی سے جو زمین خالی ہوئی اس پر دوبارہ جنگل اگانے ہیں، چاہے وہ تباہی زراعت یا جانوروں کے چارے یا پام آئل کی وجہ سے ہی کیوں نہ ہو

”یہ دعوٰی بالکل غلط ہے کہ شجرکاری، کاربن ڈائی آکسائڈ کا خاتمہ کر دے گی۔ ایسا نہیں ہوگا اور اگر آپ غلط طریقے سے غیرمقامی پودے لگاتے اور ناموافق مقام پر مونو کلچر شجرکاری کرتے ہیں تو آپ موسمیاتی مسائل حل کرنے یا اس کا امکان پیدا کرنے کے بجائے حیاتیاتی تنوع کو بری طرح متاثر کرنے کا باعث بن جاتے ہیں۔ سادہ حقیقت یہ ہے کہ ہمیں ہر حال میں کاربن فوسل فیولز کو خیرآباد کہہ کر قابل تجدید اشیاء کے استعمال اور الیکٹرانک گاڑیوں کی جانب منتقل ہونا پڑے گا، لیکن یہ محض درخت لگائے جانے کی نسبت ایک مشکل کام ہے۔“

لیکن اگر صحیح وجوہات کی بنا پر صحیح مقامات پہ صحیح درخت لگانے والے شجرکاری منصوبے پورے کیے جائیں تو؟ ہر سال خارج ہونے والی 50 بلین ٹن گرین ہاؤس گیسوں کے کتنے حصہ کا تدارک درخت لگانے سے ہو سکتا ہے؟

کرونک کہتے ہیں ”اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے لیکن سب سے مستند تخمینہ سائنس بیس ٹارگٹ انیشیٹیو (SBTI) نے لگایا ہے۔ SBTI یہ جائزہ لینے کے بعد بین الاقوامی منظوری فراہم کرتا ہے کہ کارپوریٹس اور حکومتوں کے موسمیاتی تبدیلی کے منصوبے اچھے ہیں یا برے، اور اس کا کہنا ہے کہ شجرکاری ہر سال خارج ہونے والی گرین ہاؤس گیسوں کا پانچ سے دس فیصد حصہ جذب کر سکتا ہے۔“

برطانیہ کی حکومت نے 2050ع تک ڈیڑھ ارب درخت لگانے کا وعدہ کیا ہے۔ زمین کے مالکان کو ترغیب دلانے کے لیے کچھ رقم پہلے ہی بطور گرانٹ جاری کی جا چکی ہے، پودے لگانے کے لیے آٹھ ہزار پانچ سو پاؤنڈ فی ہیکٹرز جس کے بعد فی ہیکٹرز کے حساب سے سالانہ دو سو پاؤنڈ ملیں گے لیکن دوسرے منصوبے کے لیے ابھی تک رقم مقرر کی جانی اور لاگو کرنا باقی ہے

گذشتہ برس ڈیپارٹمنٹ فار بزنس، انرجی اینڈ انڈسٹریل اسٹریٹیجی کی اسپانسرشپ سے یو کے ریسرچ اینڈ انوویشن نے ایک کروڑ پاؤنڈ کی لاگت سے فیچر آف یوکے ’ٹری سکیپس‘ پروگرام کے نام سے چھ تحقیقاتی منصوبوں کا آغاز کیا ہے، جن کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ برطانیہ میں شجرکاری درست طریقے سے کی جائے، جس کے پیش نظر محض کاربن ڈائی آکسائڈ کم کرنا نہیں بلکہ حیاتیاتی تنوع کا فروغ اور سیلاب کے خطروں سے نمٹنا بھی ہو

اس پروگرام کی نگرانی دو ’ٹری سکیپس سفیر‘ کر رہے ہیں، جن میں سے ایک یونیورسٹی آف گلوسٹر سے وابستہ ڈاکٹر جولی ارکوہارٹ اور دوسرے امپیریل کالج لندن کے پروفیسر کلائیو پاٹر ہیں

پاٹر کہتے ہیں کہ 1960, 70 اور 80 کی دہائیوں میں ہونے والی غلطیوں سے بچنے کی کوشیش کریں گے، جب ٹیکس میں حکومتی رعایت کے نتیجے میں زمین کے وسیع رقبے پر ایک ہی قسم کے درختوں کی قطاریں لگا دی گئی تھیں، ایک ایسا عمل جو جمالیاتی اعتبار سے خوبصورت تھا نہ حیاتیاتی تنوع کے لیے ہی مناسب تھا

وہ کہتے ہیں: ”یورپ میں جنگلات کی سب سے کم تعداد ہمارے پاس ہے اور ہمیں اس سے نمٹنا ہوگا۔ یہ ایک بہت بڑا منصوبہ ہے اور ہمیں یقینی بنانا ہو گا کہ نہ صرف کاربن میں کمی کے لیے بلکہ دیہی علاقوں میں حیاتیاتی تنوع کو بھی بہتر بنانے کے لیے ہم اسے صحیح طریقے سے انجام دیں۔ بصری طور پر منصوبہ بندی سے لگائے گئے درخت ملک کا ظاہری حلیہ بدل کر رکھ دیں گے، گھنے درختوں میں بہت کم خالی جگہ ہوگی۔ یہ بہت خوبصورت ہوگا۔

پاٹر کہتے ہیں ”یہ صرف کسانوں اور زمینداروں پر نہیں چھوڑ دیں گے کہ وہ کیسے مرضی لگائیں، جس کے نتیجے میں پیٹ لینڈ یا بوگ یا گھاس کے میدان کو نقصان پہنچے۔ پودوں اور جنگلی حیات کے لیے بہتر رہائش گاہیں فراہم کرنے کی خاطر وائلڈ لینڈ کے جڑے ہوئے کوریڈور بنانے کی کوشش کی جائے گی“

وہ کہتے ہیں ”آپ زمین کی تزئین کے لیے درخت کیسے لگاتے ہیں اس کی جزیات پر بہت توجہ دی جائے گی اور یقینی طور پر اس کی معلومات بہت کم ہیں۔ ہمیں بہت کچھ جاننے کی ضرورت ہے کہ زمین کے پس منظر کے مطابق جنگلات کہاں ہونے چاہییں، کون سا رقبہ آپ مختص کریں گے، کیا وہ ملحقہ ہوں گے اور ان جنگلات کے کنارے باقی دیہی علاقوں سے کیسے جا ملیں گے۔ ہم جنگلات یا درختوں کے ڈیزائن کے بارے میں زیادہ بات نہیں کرتے جو کہ کرنی چاہیے۔

”حکومت شجرکاری کے اہداف حاصل کرنے کی بہت خواہش مند ہے لیکن یہ سب کارکردگی کے بارے میں ہے جبکہ وہ زیادہ پیچیدہ اور مشکل کام ہے کیونکہ وہ انسانی رویے کے بارے میں ہے۔ آپ کو کسانوں، نجی زمینداروں، نیشنل ٹرسٹ اور ووڈ لینڈ ٹرسٹ جیسے خیراتی اداروں اور تجارتی شعبے کو صحیح کام کے لیے قائل کرنے اور تمام اقدامات کو مربوط کرنے کی ضرورت ہے۔ تو یہ سب بہت محنت طلب ہے۔ خواہش اور عزم اچھی بات ہے، میں اس کی حمایت کرتا ہوں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ بالآخر اہم چیز یہ ہے کہ آپ اگلے پانچ سے دس برسوں میں اسے کیسے پورا کرتے ہیں“

ہم صرف امید کر سکتے ہیں کہ ماہرین تعلیم، کسان، زمین دار، نجی شعبہ اور سب سے بڑھ کر حکومت اسے درست خطوط پر استوار کر لے کیوں کہ انہیں دوسرا موقع نہیں ملے گا۔

بشکریہ دا انڈپینڈنٹ، عرب میڈیا

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close