سات، آٹھ سال پہلے کراچی میں جرمنی میں رہنے والا ایک فلسطینی نژاد نوجوان ملنے آیا۔ وہ کسی انٹرنیشنل این جی او کے لیے کراچی پر رپورٹ تیار کر رہا تھا۔ میں عام طور پر اس طرح کی ملاقاتوں سے یہ کہہ کر جان چھڑاتا ہوں کہ میں زندگی کے کسی بھی شعبے کا ماہر نہیں ہوں۔ آپ بتائیں آپ نے کس موضوع پر بات کرنی ہے تو میں اس موضوع کے ماہرین کے نام دے دیتا ہوں۔۔ لیکن جب مجھے بتایا گیا کہ نوجوان فلسطینی ہے، تو میں بڑے اشتیاق سے تیار ہو گیا۔
میں پہلے صحافی اور پھر مصنف اور استاد کے طور پر فلسطین میں ایک سے زیادہ مرتبہ وقت گزار چکا ہوں، تو میرا تجسّس تھوڑا سا ذاتی ہوتا ہے۔
روزمرّہ کی شہ سرخیوں سے ہٹ کر بھی سوال پوچھ لیتا ہوں، کہ کیا فلاں کیفے میں اب بھی شاعر اکھٹے ہوتے ہیں؟
مسجد اقصیٰ میں جمعہ پڑھنے کے لیے آج کل اسرائیلی پولیس کس کو روکتی ہے اور کس کو جانے دیتی ہے۔۔ اور کیا یروشلم ہوٹل کے بار میں اب بھی ہر وقت کوئی نہ کوئی اسرائیلی جاسوس بیٹھا ہوتا ہے، جس کے بارے میں سب کو پتا ہے کہ وہ جاسوس ہے۔۔
نوجوان نے بتایا کہ اس کا بچپن یروشلم میں گزرا ہے۔ والدین اور باقی خاندان ابھی بھی وہیں پر ہیں۔ میں نے اس پر اپنے یروشلم کے قیام اور چند دنوں میں کشید کیے ہوئے علم کی دھاک بٹھانے کے لیے پوچھا کہ اس کا تعلق یروشلم کے کون سے محلے سے ہے۔
اندرونِ یروشلم انتہائی قدیم ہے اور وہاں بھی اندرونِ لاہور کے دروازوں کی طرح دمشق گیٹ اور جانہ گیٹ جیسے قدیم دروازے ابھی بھی موجود ہیں۔
میں نے نوجوان کا جواب شاید کم سنا اور اپنا علم زیادہ جھاڑا اور اسے بتایا کہ یروشلم مجھے بہت ہوشربا شہر لگتا ہے۔ انسانی تاریخ کے اہم ترین واقعات صرف چند گلیوں کے گرد گھومتے ہیں۔
یہ ہیکل سلیمانی، یہاں سے حضرت عیسیٰ کندھوں پر صلیب اٹھائے گزرے تھے، یہاں سے ہمارے نبی معراج پر تشریف لانے گئے تھے۔
آپ گلی کے ایک کونے پر کھڑے ہو جائیں تو ’مسجدِ عمر‘ سے اذان کی آواز سن سکتے ہیں، جہاں حضرت عیسیٰ کا ظہور ہوا تھا، وہاں کے کلیسے سے آنے والے حمدیہ نغمات بھی اور یہودیوں کی دیوارِ گریہ سے آتا شور بھی۔
نوجوان نے میری بات صبر سے سنی اور کہا کہ یہ سب آپ کا مسئلہ ہوگا، مجھے تو یروشلم بالکل پسند نہیں ہے، بلکہ سچ پوچھیں تو مجھے ’پاگل خانہ‘ لگتا ہے۔ میں نے پریشان ہو کر پوچھا وہ کیسے؟
اس نے کہا کہ آپ سوچیں کہ دنیا کے سب سے بڑے مذہبی جنونی ایک دو میل کے ریڈیس اور تنگ گلیوں والے علاقے میں بند کر دیے گئے ہیں اور ہزاروں سالوں سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ہم پاگل نہیں ہیں۔
جب سے سات اکتوبر شروع ہوا ہے تو میں اس نوجوان اور یروشلم کی گلیوں میں گزرے اس کے بچپن کے بارے میں سوچتا ہوں۔ یروشلم کی گلیوں میں وہ یہودی بھی رہتے ہیں، جو انتہائی مذہبی ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا، لمبے کالے کوٹوں والے، باریش اور انتہائی خوبصورت لٹوں والے۔
وہ کبھی کبھی اسرائیل کے غدار بھی سمجھے جاتے ہیں کیونکہ وہ یروشلم پر اپنے حق کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن صیہونیت اور اسرائیلی ریاست کے نظریے کے منکر ہیں۔
وہ جب اپنی عبادت گاہوں کی طرف جاتے ہیں تو گروہوں کی شکل میں اور انتہائی تیز قدموں سے چلتے ہیں۔
مجھے سمجھایا گیا کہ یہ اس لیے اتنے تیز چل رہے ہیں کہ کبھی کبھی ساتھ والی تنگ گلی سے فلسطینی بچے تیزی سے بھاگتے ہوئے آتے ہیں اور ان کو اڑنگی لگا کر گرا دیتے ہیں۔
چونکہ یروشلم کے فلسطینی محلوں میں ان بچوں کے لیے، جو اسرائیلی جیلوں میں نہیں ہیں، کھیلنے کی کوئی جگہ نہیں ہے تو وہ جا کر اڑنگی لگاتے ہیں اور دوسری تنگ گلی میں غائب ہو جاتے ہیں۔
’یروشلم کے پاگل خانے‘ سے کوئی تیس کلومیٹر دور حضرت ابراہیم کا مزار ہے۔ فلسطین میں فاصلے اسرائیلی ناکے طے کرتے ہیں۔
دو کلومیٹر کا فاصلہ دس منٹ میں بھی طے ہو سکتا ہے اور دو دن میں بھی اور اگر اسرائیلی فوجی جوان کی بندوق طے کرے تو یہ فاصلہ کبھی طے نہیں ہوگا۔ مسلمان، یہودی، مسیحی خود کو انسان سمجھتے ہوں یا نہ، حضرت ابراہیم کو اپنا دادا پیغمبر سمجھتے ہیں۔
ہزاروں سالوں سے اگر تین اہلِ کتاب کی کوئی مشترکہ زیارت تھی، جہاں پر 24 گھنٹے سال کے 365 دن میلے کا ماحول ہوتا ہے، وہاں پر چند ہزار گورے سیٹلرز بٹھا کر، ہیبرون کی مرکزی آبادی کو نکال کر مسجدِ ابراہیمی کو بھی تالا لگا دیا گیا۔
اس کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ہماری امت کے امیر ملکوں نے اسرائیل فلسطین کا معاہدہ کروایا۔ معاہدے کا نام، ابراہیم معاہدہ۔
غزہ میں سرد بارش ہوتی ہے۔ اس بارش میں ایک کم عمر لڑکا ایک بچے کی کفن میں لپٹی لاش لے کر چل رہا ہے۔
مہذب دنیا یہ بحث کر رہی ہے کہ کوفیہ پہننے سے یا جنگ بندی یا آزادی کے نعرے لگانے سے کس کے کتنے جذبات مجروح ہو رہے ہیں۔ یروشلم کے جوان کو کہا تھا کہ تمہارا محلہ ہی نہیں پوری دنیا ’پاگل خانہ‘ ہے۔
بشکریہ: بی بی سی اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)