دوڑتے رہو۔۔

امر جلیل

دنیا بھر کے، ہم سب، لوگوں کی شکلیں ایک جیسی نہیں ہوتیں۔ ہم سب قد و قامت میں ایک جیسے نہیں ہوتے۔ چال ڈھال میں ہم ایک جیسے نہیں لگتے۔ ہمارا رہن سہن مختلف ہوتا ہے۔ ہماری سوچ سمجھ کے پیمانے الگ ہوتے ہیں۔ یہ سب تب سے ہے، جب سے انسان کے آثار اس دنیا میں ملتے ہیں۔ ایک ہی اسکول، ایک ہی کالج، ایک ہی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے والے ایک برابر نہیں ہوتے۔ وہ ایک جتنے عالم فاضل اور ذہین نہیں ہوتے۔ یہ عالم الغیب کا دستور ہے۔ اٹل ہے۔ یہ کسی ملک کا قانون نہیں ہے، جسے سیاسی، سماجی، ثقافتی ادوار کے مطابق دس بیس برس بعد ترمیموں سے گزارا جائے۔ بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظر آپ طبعی، جِبلی اور فطری دستور کو بدل نہیں سکتے۔ ایک ہی ماں کی کوکھ سے جنم لینے والے جڑواں بچے پیدا ہوتے ہی اپنی جداگانہ شخصیت کے آثار دکھا دیتے ہیں۔ آپ دنیا بھر کے لوگوں کے لئے ایک ڈیل ڈول، ایک جیسی شخصیت، ایک جیسے عادات و اطوار، تہذیب، تمدن، ثقافت، زبان دین دھرم اور عقیدہ رائج نہیں کر سکتے۔ اس حقیقت کو قبول کرنے کے بعد آپ اپنے وجودمیں اطمینان، سکون اور پائیدار امن محسوس کریں گے۔

خوامخواہ ہم معمولی بات کو گھمبیر بحث کا موضوع بنا بیٹھے ہیں۔ میں جو بپتا آپ سے بیان کرنا چاہتا تھا اور بیان کرنا چاہتا ہوں، وہ سادہ ہے۔ میں آپ سے کہنا چاہتا تھا کہ آپ کو دل میں گڑبڑ محسوس ہوتی ہے، اور آپ امراض دل کے ایک سے زیادہ معالجوں یعنی Cardiologist سے رجوع کرتے ہیں، تو یقین جانیے وہ اپنے اپنے تجربے کے مطابق آپ کا علاج کریں گے۔ ان کی تجویز کی ہوئی دوائیں مختلف ہونگیں۔ ان کی بتائی ہوئی ورزشیں مختلف ہونگیں۔ ان کی بتائی ہوئی احتیاطی تدابیر بھی مختلف ہونگی۔ یہ میرا ذاتی تجزیہ اور تجربہ ہے۔ یہ میری آتم کتھا کا چھوٹا سا کٹ پیس ہے، جو میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں۔ اپنے طور پر میں نیکی کا کام کرنے جا رہا ہوں۔ دل نے آج کل زیادہ لوگوں کو دھوکہ دے دیا ہے۔ جب بھی آپ دل کے دھڑکنے میں کمی بیشی محسوس کریں تب جان جائیے گا کہ آپ کے دل میں گڑبڑ ہے۔

میرے دل کا معاملہ بھی آپ کے دل سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔ اتنا کچھ دیکھنے اور سہنے کے باوجود بدبخت اب بھی دھڑکتا ہے۔آپ کے ہمدردوں اور خیر خواہوں کا اندازہ آپ کے دوست اور احباب کی تعداد دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے۔ مشوروں کی بھرمار آپ کی سوجھ بوجھ مفلوج کر دیتی ہے۔ آپ فیصلہ نہیں کر پاتے کہ آپ کو کس ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے اور کس ڈاکٹر سے بچنا چاہیے۔ آج کل میں دو چار ڈاکٹروں کے رحم و کرم پر ہوں۔

ایک ڈاکٹر ہیں نیورولوجسٹ، وہ میرے دماغ یعنی بھیجے کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ ان کے حتمی فیصلہ کے مطابق میرے تمام تر ذہنی فتور کا سبب میری سوچ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تم سوچا مت کرو۔ جتنا سوچو گے، اتنے پریشان رہو گے۔ اور آخر میں پاگل ہو جاؤ گے۔ میں نے ڈاکٹر سے کہا: ’سوچ آتی ہے، سوچ بلانے سے نہیں آتی۔‘ ڈاکٹر نے دوا تجویز کرتے ہوئے کہا: ’ایک گولی صبح اور ایک گولی رات میں کھا لیا کرو۔ سوچنے سے تمہاری جان چھوٹ جائے گی۔ اس کے بعد تم ضیاءالحق ،تارا مسیح اور ذوالفقار علی بھٹو کے بارے میں سوچنا چھوڑ دو گے۔‘ ڈاکٹر کی تجویز کی ہوئی دوا میں پابندی سے لیتا ہوں۔ صبح ایک گولی کھانے کے بعد میں گیارہ گھنٹے سو جاتا ہوں۔ رات کے وقت ایک گولی کھانے کے بعد میں پھر سے گیارہ گھنٹے سو جاتا ہوں۔ جاگنے کے بعد مجھے قطعی یاد نہیں رہتا کہ میں روزانہ زندگی کے بائیس گھنٹے کہاں ہوتا ہوں؟ اس طرح نیورولوجسٹ روزانہ چوبیس گھنٹوں میں سے مجھے بائیس گھنٹے گہری نیند سلا دیتا ہے۔ یہ ایسی نامراد نیند ہوتی ہے، جس میں آپ خواب نہیں دیکھ سکتے۔ بائیس گھنٹے سونے کے بعد جب میں جاگتا ہوں، تب دو گھنٹے سوچتا رہتا ہوں کہ میں بائیس گھنٹے کہاں تھا؟ اس بات کا ذکر جب میں نے نیورولوجسٹ ڈاکٹر سے کیا تو اس نے فوراً کہا: ’دو گھنٹے دوڑتے رہو، بھاگتے رہو۔ بھول جاؤ کہ بائیس گھنٹے تم کہاں رہتے ہو۔‘

ان دنوں آپ جب بھی مجھ سے ملیں گے، آپ مجھے دو کیفیتوں میں پائیں گے۔ آپ مجھے گہری نیند میں غلطاں پائیں گے، یا پھر آپ مجھے بھاگتے دوڑتے ہوئے دیکھیں گے۔ بھاگتے ہوئے، دوڑتے ہوئے میں تنہا نہیں ہوتا۔ میرے ساتھ دوڑتے ہوئے آپ کو کئی مرد اور خواتین دیکھنے کو ملیں گے۔ عمر بھر کے تجربے نے سکھایا ہے کہ بھلا چنگا شخص بھاگنے اور دوڑنے کی زحمت اٹھانے سے گریز کرتا ہے۔ جب تک آپ کے دل اور دماغ میں گڑبڑ نہیں ہوتی، آپ بھاگنے دوڑنے جیسی حماقتوں سے دور رہتے ہیں۔

ایک مرتبہ ایک ادھیڑ عمر کے شخص سے میں نے پوچھا تھا: ’آپ کے دل میں گڑبڑ ہے یا بھیجے میں خرابی ہے؟‘ ادھیڑ عمر کے شخص نے کہا: ’میں بہت موٹا تھا اور تیزی سے مر رہا تھا۔ ڈاکٹر نے کہا تھا دوڑا کرو۔ جب تک دڑوتے رہو گے، زندہ رہو گے۔ دوڑنا چھوڑ دو گے تو مر جاؤ گے۔ میں نہ جانے کتنی صدیوں سے دوڑ رہا ہوں۔‘

ایک مرتبہ میں نے بے انتہا بوڑھے شخص کو ڈگمگاتے ہوئے دوڑنے کی سعی کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا تھا: ’آپ کیوں دوڑ رہے ہو؟ آپ کے دل کا معاملہ ہے یا آپ کا دماغ گڑبڑ کر رہا ہے؟‘ بوڑھے شخص نے کچھ فاصلے سے دوڑنے والے مشٹنڈے شخص کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ’انیس سو سینتالیس سے یہ عقلِ کل میرا پیچھا کر رہا ہے۔ انیس سو سینتالس سے میں اس شخص سے دور بھاگتا رہا ہوں۔ اس شخص کا خیال ہے کہ پاکستان کے تمام مسائل کا سبب میں عام آدمی ہوں۔‘

بشکریہ: روزنامہ جنگ
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close