کبھی بھاگتے، کبھی دوڑتے رہو

امر جلیل

پچھلے ہفتہ کی بات ہے۔ آپ بھولے نہیں ہونگے۔ ناقص اور بے مقصد اور بیکار باتیں کبھی کبھار یاد رکھنے سے آپ کے بھیجے کا کچھ نہیں بگڑتا۔منہ کا ذائقہ بدلنے کے لئے کبھی ترش کبھی کڑوی چیز بھی لوگ کھا لیتے ہیں۔ اچھائی کی اہمیت تب اجاگر ہوتی ہے، جب آپ کا پالا نامعقول، فضول اور کاٹھ کباڑ جیسے ردی محل اور مقام سے پڑتا ہے۔

پچھلی کتھا میری بپتا کی جھلک تھی۔ بپتا کو آپ آتم کتھا کہہ سکتے ہیں۔ آٹو بائیو گرافی بھی کہہ سکتے ہیں۔ چاہیں توآ پ بیتی بھی کہہ سکتے ہیں۔ کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ میں نے پہلی مرتبہ آپ کو اپنی آتم کتھا یعنی آپ بیتی کا پرتو یعنی جھلک دکھائی تھی۔ میں نے آپ کو اپنی نجی زندگی کی سرسری سیر کروائی تھی۔ میں نے آپ کو بتایا تھا کہ کیسے ڈاکٹروں نے میری زندگی کی جدول یعنی طریق کار بدل کر رکھ دیا تھا۔میرے روزمرہ کے معمولات کی کیسے پکڑ پچھاڑ کی تھی۔

پریشان کرنے جیسی سوچ سے پیچھا چھڑانے کے لئے ڈاکٹر روزمرہ کے چوبیس گھنٹوں میں سے بائیس گھنٹے مجھے دوائیں دے کر سلا دیتے ہیں۔ باقی دو گھنٹے ڈاکٹروں نے مجھے بھاگنے دوڑنے پر لگا رکھا ہے۔ ڈاکٹر چاہتے ہیں کہ بائیس گھنٹے روزانہ سدھ بدھ کھونے کے بعد جب میں ہوش میں آؤں تو یہ نہ سوچوں کہ بائیس گھنٹے مَیں کہاں تھا اور کیا کر رہا تھا؟ حال ماضی اور مستقبل کے بارے میں لگاتار سوچنے والوں کا فرمانا ہے کہ اگر لوگوں نے سوچنا ترک نہیں کیا تو عنقریب پاکستان کے پاگل خانوں میں تل دھرنے کی جگہ باقی نہیں بچے گی۔ ملک کے پاگل خانوں میں تل دھرنے کی جگہ باقی رکھنے کے لئے میری آپ سے مودبانہ گزارش ہے کہ آپ بھی سوچنا چھوڑ دیں اور بھاگنا دوڑنا شروع کر دیں۔

میں نہیں جانتا کہ بھاگنے اور دوڑنے میں کیا فرق ہے، مگر میں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ بھاگنے اور دوڑنے میں کوئی نہ کوئی بنیادی فرق ہے۔ میں ایک عرصہ سے دوڑ رہا ہوں۔ چونکہ میں محقق نہیں ہوں، اس لیے آج تک حتمی طور پر یہ جاننے سے محروم رہا ہوں کہ دوڑنے اور بھاگنے میں کیا فرق ہے۔۔ لیکن پڑھے لکھے لوگوں کی آرا کا میرے پاس بیش بہا ذخیرہ ہے۔ دوڑتے ہوئے طرح طرح کے لوگوں سے علیک سلیک ہو جاتی ہے۔۔ اور وہ علیک سلیک ایک عرصہ سے چلتی آ رہی ہے۔ ہم ایک دوسرے سے کچھ نہیں چھپاتے۔ اور سچ جانیے ہمارے پاس چھپانے کو کچھ ہے بھی نہیں۔ دل کھول کر ایک دوسرے کے سامنے رکھ دیتے ہیں۔ میری علیک سلیک ان لوگوں سے زیادہ قربت والی ہے، جن لوگوں نے میری طرح ہندوستان کے ٹکڑے ہوتے ہوئے اور پاکستان بنتے ہوئے دیکھا تھا۔ تب ہم پیدائشی طور پر ہندوستانی یعنی Born indian ہوتے تھے۔

وطن کا بٹوارا ہونے کے بعد ہم تتربتر ہو گئے تھے۔ متعدد سیاسی پارٹیاں ہوتی تھیں۔ کچھ پارٹیاں ہندوستان کے بٹوارے کے حق میں تھیں۔ کچھ پارٹیوں نے سخت مخالفت کی تھی۔ تب طرح طرح کے نعروں میں ایک نعرہ عرف عام کی زبان پر تھا، وہ نعرہ تھا: خون پسینہ ایک کریں گے، لے کے رہیں پاکستان۔۔ کہیں سے بھی کسی نے کپتان عمران خان کا نعرہ نہیں سنا تھا۔ ’پاکستان کا مطلب کیا؟ لااللہ الاللہ۔‘ یہ نعرہ ایک پارٹی نے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف چلائی گئی مہم کے دوران بلند کیا تھا۔ اس نعرے پر اجارہ داری کبھی بھی عمران خان کی نہیں تھی۔

بہرحال، یہ معلوم کرنے کے لئے کہ بھاگنے اور دوڑنے میں کیا فرق ہے، میں نے ایک بہت ہی معمر شخص سے پوچھا، ”حضرت ، بھاگنے اور دوڑنے میں کیا فرق ہے؟“

وہ شخص عمر میں مجھ سے بہت بڑا لگتا تھا۔ وہ شخص سنچری کراس کر چکا تھا، یعنی ایک سو برس کی عمر سے تجاوز کر گیا تھا، میں نے جب اس سے پوچھا کہ بھاگنے اور دوڑنے میں کیا فرق ہے، تب بزرگ نے مجھے غور سے دیکھنے اور پہچاننے کی کوشش کرتے ہوئے کہا، ”اگر تم بیرونِ ملک لوگوں کو ملازمت دلوانے کا جھانسہ دیتے رہے ہو، تو پھر تم قانون نافذ کرنے والے اداروں سے بھاگ رہے ہو۔ اگر تم وزن کم کرنے اور اپنے سے تیس پینتیس برس چھوٹی لڑکی سے چوتھی شادی رچانے کے چکر میں ہو، تو پھر تم دوڑ رہے ہو۔“

کچھ اسی نوعیت کے جواب مجھے دوسرے علیک سلیک اور دعا سلام کرنے والوں سے ملے۔ پتہ چلا کہ جب ہم کسی مصیبت سے پیچھا چھڑانا چاہتے ہیں، تب ہم بھاگتے ہیں، اس مصیبت سے دور بھاگتے ہیں۔

میں بھی آپ سب کی طرح کبھی چھوٹا سا گگلو ہوا کرتا تھا۔ اسکول، پھر کالج اور پھر یونیورسٹی میں پڑھتا تھا۔ نوجوانوں کو کمیونسٹ بنانے کی تحریک زوروں پر تھی۔ آپ یوں سمجھ لیں کہ اس دور میں پتلون کے غرارے کی طرح چوڑے پائنچے اور کمیونسٹ کہلوانا فیشن سمجھا جاتا تھا۔ قائد اعظم کو جو کہنا تھا وہ کہہ کر چلے گئے، مگر حکامِ وقت آئے دن پاکستان کے لئے سمت کا تعین کرنے کی کوششوں میں لگے رہتے تھے۔ وہ فیصلہ نہیں کر پا رہے تھے کہ پاکستان میں ٹھوس جمہوری نظام ہونا چاہئے یا اسلامی جمہوری نظام چلنا چاہیے۔ اسلامی سوشلزم کی بھی بحث چل نکلی تھی۔

ایسے میں حکامِ وقت کے کل پرزوں نے عوام پر نظریں گاڑ رکھی تھیں۔ ان میں کچھ کل پرزے بڑے سیانے یعنی Intelligent تھے۔ وہ ایسے لوگوں کے پیچھے پڑ جاتے تھے جو کمیونسٹ کہلوانے میں آتے تھے۔ طلبا میں کمیونسٹ کا لیبل لگے ہوئے نوجوانوں کی فہرستیں تیار ہونے لگیں۔ ایک فہرست میں کمبخت میں بھی تھا۔ سیانے سایے کی طرح ہمارا پیچھا کرتے تھے۔ گرل فرینڈ سے خفیہ مقام پر طے شدہ ملاقات سے پہلے سرکاری سیانے پہنچ جاتے تھے۔ باتھ روم میں بھی آپ پر نظر رکھی جاتی تھی۔ تب گھبرا کر ہم نے بھاگ کر سیانوں سے پیچھا چھڑانے کی ٹھان لی۔ سیانوں کی آمد سے پہلے ہم بھاگ کھڑے ہوتے تھے۔ اس بھاگنے کو ہم دوڑنا نہیں کہتے تھے، دوڑنے کے اسباب کچھ اور ہوتے ہیں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close