میرے دادا سات برس کے تھے، جب ان کے والد فوت ہوئے۔
طاعون تھا برصغیر میں، بہت زوروں کا۔۔ 1918 کا سن تھا اور کوئی گھر ایسا نہیں تھا جس سے میت نہ اٹھی ہو۔ انہوں نے اپنے والد یعنی میرے پردادا کے بارے میں بہت کچھ لکھا، جو مجھے ان کی ڈائری سے پتا چلا۔
دادا کی چند تصویریں میرے پاس ہیں، اکثر سامان سیدھا کرتے ہوئے نکل آتی ہیں تو دیکھ لیتا ہوں۔
نانی جان کے والد کی تصویر بھی ہمارے پاس موجود ہے۔ نانا کی جوانی کے زمانے کی تصویریں ہیں، ان کے روزنامچے ہیں۔ اس زمانے میں دستی کیمرا نیا آیا تھا تو خاندان کے بعض بزرگوں کی میت کا فوٹو بھی اچانک نکل آتا ہے، وہ خیر ایک پریشان کن معاملہ ہے، لیکن یہ کھاتے میں آپ کے سامنے کیوں کھولے بیٹھا ہوں۔
اس دن ایک فلم میں کہیں کوئی بزرگ سامنے موجود شخص سے بولے کہ لوگ آج کل کتنی زیادہ تصویریں لے رہے ہیں، سب کے پاس کیمرا ہے، اربوں کھربوں تصویریں روزانہ بنتی ہیں لیکن ان کا کوئی پرنٹ نہیں ہوتا، کوئی وجود نہیں ہوتا، یہ سب کیا ہے؟ صرف ڈیٹا؟ الیکٹرانک ڈسٹ؟ ہمارے بعد کوئی ہمیں کھوجنا چاہے تو اس کے پاس کیا ہوگا؟ ہم کون تھے، کہاں رہتے تھے؟ اسے کیا ہاتھ آئے گا۔
تو بس اتنی سی بات تھی، دل کو لگی، کہہ دی۔ سب ڈجیٹل تصویریں، جو روزانہ ہم بناتے ہیں، یہ انتہائی عجیب سی چیز ہیں، ایک دو بٹن غلط دب گئے تو میموری سے چٹی صاف۔ زیادہ محفوظ رکھنا ہے تو ڈیٹا کلاؤڈ پر بھیج دیں اور ساری عمر تاوان بھرتے رہیں۔
وہ البموں کا اب کوئی تصور ہی نئیں رہ گیا، جو سردیوں کی دھوپ میں بیٹھ کر گھنٹوں دیکھے جا سکتے تھے۔
کمپیوٹر نیا نیا آیا تو جفی نے ڈیمی مور کی تصویریں دکھائیں۔ وہ ٹو ایٹ سکس کا زمانہ تھا۔ این سی ویور کے نام سے ایک سافٹ ویئر تھا، بڑی فلاپی ڈالنے کے بعد تصویر لوڈ ہوتے ہوئے تیس پینتیس سیکنڈ لگتے تھے۔
بہت عجیب سا لگتا تھا کہ واہ، اب اسکرین پہ بندہ مرضی کی تصویریں دیکھ سکے گا ورنہ تو رسالے ہی ہوا کرتے تھے۔ پھر اسکینر عام ہوئے تو دبادب گھر کی ساری پرانی تصویریں ہم لوگوں نے کمپیوٹر میں ’سیو‘ کرنا شروع کر دیں۔
فرق دیکھیں کہ اس وقت ہمیں لگتا تھا پرانی تصویریں کمپیوٹر پہ زیادہ محفوظ رہیں گی، اب محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ کوئی اژدھا ہے، جو پرانی نئی سب یادوں کو کھا گیا ہے اور ’ھل من مزید‘ کے نعرے بھی مارتا جاتا ہے۔
پھر وہ جو ہاتھ سے لکھی چیزیں تھیں، آپ کو لگتا ہے کہ بیس تیس سال بعد یہ بچے ہاتھ سے لکھ بھی سکیں گے؟ میں اب بھی ایسے بچوں سے واقف ہوں، جو نام خدا بارہ تیرہ برس کے ہیں، لیکن کمپیوٹر پہ ٹائپ کر سکتے ہیں، ہاتھ سے لکھنا انہیں نہیں آتا۔
تو آخر آپ لوگ بھی کسی کے پردادا پرنانی ہوں گے کبھی، سوائے قبر والے کتبے کے، ان کے پاس آپ سے متعلق کیا چیز باقی پہنچ پائے گی؟ اور قبر بھی خیر پڑپوتے وغیرہ جاتے ہی کب ہیں۔
آپ نہ مانیں، لیکن میرا یقین ہے کہ ان سب باتوں سے وہ خلا بھرتا ہے، جو آج کی دنیا میں ننانوے فیصد لوگوں کے اندر ہے۔ آپ تعلق چاہتے ہیں، انسان وابستگی چاہتا ہے، جاننا چاہتا ہے ماضی کے بارے میں، اسے زندہ رہنے کے لیے ریلیونس چاہیے، وہ اب غائب ہوتی جا رہی ہے۔
تصویر ہاتھ میں تھامنا بھی، ایک نام نہاد سہی، لیکن تعلق ہوا کرتا تھا۔ کسی کی لکھی سودا سلف والی فہرست بھی جا کے پوچھیں تو کئی لوگوں نے دل سے لگائی ہوگی۔ وزیٹنگ کارڈ پرانے نکال کے دیکھ لیں، اگر کسی کے پاس ہوں، سو کہانیاں تھیں، ہزاروں لوگ تھے، وہ سب کہاں گیا؟
جتنے مرضی ڈجیٹل ہو جائیں، ایک زندگی اسکرین سے باہر ہے، جس میں اصل تعلق، یادیں، خواب، سکون، لمس اور وابستگی چاہیے۔ یہ سب ورچول نہیں ہو سکتا۔ اس کا حل سوچیں۔
حل بھی کیا سوچنا ہے، جگت لگا کر نکل جائیں کہ بابا جی آپ کی باتیں بھی ہم ادھری اسکرین پر سن/پڑھ رہے ہیں۔
حق ہے بھائی، خدا خوش رکھے!
بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)