شمالی علاقہ جات میں زیر زمین سے آوازیں اور لینڈ سلائیڈنگ

ویب ڈیسک

ارضیاتی طور پر پاکستان کے شمالی علاقہ جات دنیا میں سب سے زیادہ متحرک اور غیر مستحکم علاقے ہیں، اسی وجہ سے یہاں لینڈ سلائیڈنگ ہوتی رہتی ہیں، جن کے باعث رہائشی براہ راست یا بالواسطہ طور پر متاثر ہوتے ہیں

حال ہی میں ہنزہ کے سب ڈویژن گوجال کے گاؤں گلمت اور شیش کٹ کے رہائشیوں کے جو بیانات سامنے آئے، ان کے مطابق انہیں چند ہفتوں سے زیر زمین سے آوازیں سنائی دے رہی ہیں اور کئی بار آوازوں کے ساتھ ہلکے جھٹکے بھی محسوس ہوتے ہیں

مقامی افراد کو ان آوازوں اور جھٹکوں کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے، لیکن وہ نہایت خوف کی حالت میں زندگی بسر کر رہے ہیں

2010ع میں بھی جب عطا آباد جھیل وجود میں آئی تھی تو اس گاؤں کے رہائشیوں نے بتایا تھا کہ انہیں زیر زمین سے آوازیں آتی ہیں اور جھٹکے محسوس ہوتے ہیں

ایک تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ 1998ع سے 2017ع تک دنیا بھر کے پہاڑی علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ اور اس سے جڑے خطرات سے اڑتالیس لاکھ افراد متاثر ہوچکے ہیں اور اٹھارہ ہزار اموات ہوئی ہیں

پاکستان کے شمالی علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ ایک عام بات ہے۔ شمالی علاقہ جات میں ہنزہ نگر منفرد ارضیاتی فیچرز کے لیے مشہور ہے۔ ہنزہ نگر میں وادیاں اور کٹھن پہاڑیاں ہیں جو سطح سمندر سے سترہ سو میٹر سے لے کر تقریباً ساڑھے سات ہزار میٹر بلند ہیں

شمالی علاقہ جات میں زلزلے بھی عام ہیں اور ماضی میں شدید زلزلے آ چکے ہیں۔ امریکی ادارے کے مطابق اس علاقے میں 1980ع سے پانچ شدت سے کم کے تین سو اور سات شدت سے کم کے سات زلزلے آ چکے ہیں

شمالی علاقہ جات میں حال ہی میں کی گئی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ لینڈ سلائیڈنگ کی بڑی وجہ پہاڑوں پر زراعت ہے۔ زمینوں کو پانی دیے جانے کے باعث زیر زمین پانی کی سطح بلند ہو جاتی ہے، جس سے لینڈ سلائیڈنگ زیادہ ہوتی ہیں

شمالی علاقوں میں گلیشیئرز کا پانی زمینوں کی جانب موڑ دیا جاتا ہے۔ بلند پہاڑوں پر موجود گلیشیئرز سے یہ پانی کئی کئی کلومیٹر تک جاتا ہے

یہ پانی متوقع لینڈ سلائیڈ ایریا میں زمین کے اندر جا سکتا ہے اور اسی وجہ سے یہاں لینڈ سلائیڈز کا خطرہ بہت زیادہ ہے۔ اسی جگہ پر کئی آبشاریں اس بات کا عندیہ دیتی ہیں کہ پانی کی مقدار زیادہ ہے

ایک حالیہ تحقیق میں پاکستان کی چند لینڈ سلائیڈز کا جائزہ لیا گیا ہے

مشہور اور دلکش راکاپوشی سے پندرہ کلومیٹر کے فاصلے پر میون گاؤں کے شمال میں میون لینڈ سلائیڈ ہے۔ یہ لینڈ سلائیڈ ڈیڑھ ہزار مربع میٹر پر محیط ہے اور مسلسل سلائیڈ کے باعث اس میں دراڑیں ظاہر ہیں

مقامی آبادی کے مطابق پہلی بار لینڈ سلائیڈ 1976 میں، پھر 2011 میں اور پھر 2012 میں ہوئی تھی

دریائے ہنزہ پر گلمت گاؤں میں گلمت لینڈ سلائیڈ ہے، جو تحقیق کے مطابق دریائے ہنزہ اور قراقرم ہائی وے کی جانب بڑھ رہی ہے اور اگر یہ لینڈ سلائیڈ اچانک اور بہت بڑی ہوتی ہے تو خطرہ ہے کہ یہ دریائے ہنزہ کا پانی روک کر ایک ڈیم بنا دے گی اور قراقرم ہائی وے کو بھی اس سے خطرہ لاحق ہو سکتا ہے

کھائی گاؤں کی لینڈ سلائیڈ ایک چھوٹی لینڈ سلائیڈ ہے، جو پانچ سو میٹر لمبی ہے۔ یہ ڈیڑھ لاکھ مربع میٹر پر پھیلی ہوئی ہے اور اس کی اونچائی اکیس سو سے چوبیس سو میٹر ہے

یہ لینڈ سلائیڈ کھائی کے جنوب میں حماری گاؤں کے قریب ہے۔ اس لینڈ سلائیڈ میں تبدیلی دیکھی گئی ہے، جو پہلے نہیں دیکھی گئی

یہ لینڈ سلائیڈز ایک بڑا خطرہ ہیں اور خاص طور پر حماری لینڈ سلائیڈ جو اس سے پہلے نہیں دیکھی گئی تھی۔ حکومت کو اس پر مزید تحقیق کرنی چاہیے اور بروقت اقدامات اٹھا کر جانی و مالی نقصان سے بچا جا سکتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close