ایپسٹین اسکینڈل: پیسے اور طاقت کی کشش کا تاریک پہلو

جان سوپل

کم عمر لڑکیوں کے ساتھ رنگ رلیاں۔ امیر امریکی فنانسر۔ اسٹیون ہاکنگ۔ متعلقہ نوجوان لڑکیوں کو رقوم کی پیشکش تاکہ وہ انکار کر دیں کہ عیاشی والی کسی پارٹی کا اہتمام کیا گیا۔

میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ کون سا پہلو زیادہ حیران کن ہے۔ شہوت پرستی یا ایسا ناممکن دکھائی دینا۔ اس بات پر سر چکرا جاتا ہے۔

لیکن پھر ہم اس میں سے کچھ کے عادی ہو گئے۔ جیفری ایپسٹین کا گھٹیا پن۔ انتہائی کم عمر لڑکیوں کی خریداری میں جزلین میکسویل کا کردار، تاکہ وہ عمر رسیدہ مردوں کو مساج اور جنسی خدمات فراہم کر سکیں۔

ایک نجی جزیرہ جو (جیمز) بانڈ (کی فلموں) کے ولن کے لیے موزوں ہو۔ نجی جیٹ طیارے آپ کے لیے دستیاب ہیں۔ پسینے، سیکس، باسی سگار کے دھوئیں اور طاقت کی ناگوار اور تیز بدبو۔ آپ ان تمام باتوں کے ناخوشگوار امتزاج کا بڑی حد تک تصور کر سکتے ہیں۔

جب یہ فلم ریلیز ہوگی اور یقیناً ہوگی تو وہ صرف بالغوں کے لیے ہوگی۔ ایئن ڈیوری کے گانے کے عنوان کی طرح اس میں انتہائی درجے کا ’سیکس اینڈ ڈرگز اینڈ راک اینڈ رول‘ ہوگا۔

کئی باتوں پر غور کیا جا سکتا ہے، لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ فلم امریکہ میں طاقت اور پیسے کی مقناطیسی کشش کے بارے میں کیا کہتی ہے، جس کے خلاف مزاحمت ممکن نہیں۔

ہوشیار، سمجھ دار، مشہور اور ممتاز مرد جن کے پاس کھونے کے لیے سب کچھ ہے، انہوں نے اپنے آپ کو پروانوں کی طرح ایپسٹین کے شعلے کی جانب کھنچتا ہوا یا وہ اپنی مرضی سے اس کی جانب بڑھنے کے لیے تیار تھے۔

لیکن ہو سکتا ہے کہ انہوں نے سوچا ہو کہ ایپسٹین کو نقصان نہیں پہنچایا جا سکتا تھا اور نہ تبدیل کیا جا سکتا تھا اور یہ کہ ایپسٹین کے گرد موجود حفاظتی دیوار انہیں بھی تحفظ فراہم کرے گی۔

مقدمے کی سماعت کے دوران نیو یارک کی جیل میں سازشی نظریات کو جنم دینے والی ایپسٹین کی خود کشی سے پہلے انہیں فیشن ایبل، مشہور شخصیات، سیاست دانوں، بااثر لوگوں، ارب پتی افراد اور بڑے بڑے دانش وروں کے ساتھ تعلقات کی بدولت جانا جاتا تھا۔

ایپسٹین کو ابتدائی طور پر 2005 میں فلوریڈا میں اس وقت گرفتار کیا گیا، جب ان پر 14 سالہ لڑکی کو جنسی تعلقات کے لیے پیسے دینے کا الزام لگایا گیا۔

کئی دوسری کم عمر لڑکیوں نے بھی اسی طرح کے جنسی استحصال کی بات کی لیکن عجیب بات یہ ہے کہ استغاثہ نے بالآخر ڈیل کر لی۔

ایپسٹین نے صرف ایک جرم کا اعتراف کرنا تھا اور انہیں بہت نرم سزا ہونی تھی۔ بعد ازاں پراسیکیوٹر نے ڈونلڈ ٹرمپ کی کابینہ میں وزیر محنت بننا تھا۔ بلاشبہ ٹرمپ ایپسٹین کے ایک اور ساتھی تھے۔

ایک بار انہیں جنسی جرم پر سزا ہوئی۔ درحقیقت بعض لوگوں نے انہیں اپنے سے دور رکھا خاص طور پر بل کلنٹن اور ٹرمپ نے لیکن جو خاص بات ہے وہ یہ ہے کہ بہت سے لوگوں نے ایسا نہیں کیا۔

شہزادہ اینڈریو نے میری پوڈ کاسٹ کی ساتھی ایمیلی میٹلس کو ہنگامہ خیز انٹرویوز میں بتایا کہ وفاداری کے احساس نے انہیں ایپسٹین کے حلقے میں رکھا حالاں کہ انہیں بہت عرصہ پہلے ایپسٹین سے الگ ہو جانا چاہیے تھا۔

اینڈریو نے اپنے بارے میں سوچا ہو گا کہ شاید وہ خود ’بہت معزز‘ تھے۔ واقعی؟ ایسا ہی ہے؟ وہ کیا تھا جو ابتدا میں ان تمام لوگوں کو کروڑ پتی فنانسر اور ان کے قابل اعتراض طرز زندگی کی طرف لے گیا؟

کیا انہیں خوف تھا کہ اگر انہوں نے ایپسٹین کو ان کے حال پر چھوڑ دیا تو ان کا پیچھا کریں گے اور اس سے بھی زیادہ برا کام کرتے ہوئے ان کا پول کھول دیں گے۔

کیا انہیں اس بات پر فخر تھا کہ انہیں اس بہت ہی خاص کلب کے رکن طور چنا گیا ہے؟ کیا یہ ان کے لیے کشش کا سبب تھا کہ اس طرح انہیں اپنی طرح مشہور اور کامیاب دوسروں لوگوں کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کا موقع ملے گا؟

ایمیلی کو انٹرویو میں اینڈریو نے ایپسٹین کی کشش کی اس طرح وضاحت کی: ’ان (ایپسٹین) میں غیر معمولی لوگوں کو غیر معمولی لوگوں کے قریب لانے کی غیر معمولی صلاحیت تھی اور یہ بات مجھے یاد ہے … ڈنر پارٹیز میں جانا جہاں آپ کا دانش وروں، سیاست دانوں اور اقوام متحدہ کے لوگوں کے ساتھ ملنا ہوتا۔‘

مجھے، ٹونی بلیئر جب وزیر اعظم تھے کے انٹرویو سے پہلے، پہلی بار ڈیووس (میں ہونے والے ورلڈ اکنامک فورم کے اجلاس میں) شرکت اور ڈیووس پرتعیش ترین ہوٹل کے چھوٹے سے کانفرنس روم میں ہونے والی تقریب جسے ریڈ پارٹی کہا جاتا ہے، میں شریک ہونے کی دعوت یاد ہے۔

اس تقریب میں راک سٹارز، سپرماڈلز اور عالمی رہنما، چیف ایگزیکٹیو افسر اور ہاں واقعی پرنس اینڈریو نے شرکت کی۔

صرف میں ہی تھا جو تقریب میں موجود دوسرے لوگوں کو نہیں جانتا تھا۔ یہ موقع قدرے خوش کن اور الجھن میں مبتلا کر دینے والا تھا۔

ڈیووس اس طرح کے لوگوں کے لیے ایک دوسرے ساتھ ملنے جلنے کا بڑا مقام ہے اور شہزادہ اینڈریو کو اس بات علم ہے۔ اور اگر آپ کو ایسے شاندار ماحول میں سانس لینے کا موقع ملے جہاں اہم اور بااثر لوگ موجود ہوں تو بڑے لوگوں کے لیے دنیا کے مسائل پر بات چیت کے مواقعے کی کوئی کمی نہیں ہوتی۔

لیکن یہی کام کسی نجی جزیرے پر کرنا کتنا خوشگوار ہو گا جہاں نوجوان خواتین آپ کی ضرورت پوری کرنے کے لیے موجود ہوں۔

حیرت ہوتی ہے کہ کیا دنیا کے ان بڑے لوگوں نے جزیرے کی طرف جاتے ہوئے گلف سٹریم ایروسپیس کے بزنس جیٹ طیاروں کی نرم اور چمڑے سے بنی نشستوں میں آرام کرتے ہوئے کبھی اپنے اعمال کے نتائج یا فوائد کے بارے میں سوچا ہوگا۔

یہ کسی طرح ناقابل فہم لگتا ہے کہ انہوں نے ایسا کیا ہوگا کیوں کہ یقینی طور پر آپ صرف ایک نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں۔

لیکن جب آپ ان سماجی حلقوں میں داخل ہوتے ہیں تو شاید ایسا ہی ہوتا ہے یعنی آپ اپنی تشہیر اور اپنے ناقابل تسخیر ہونے پر یقین کرنا شروع کر دیتے ہیں۔

اگر یہی بات تو میں شرط لگاتا ہوں کہ میٹروپولیٹن ڈیٹنشن سینٹر میں ایپسٹین کے اپنی جان لینے کے بعد چار سال سے زیادہ عرصے سے اب تک یہ بڑے لوگ ٹھیک سے سو نہیں پاتے۔ انہیں خوف ہے کہ اب بھی کچھ انکشاف ہونا باقی ہے۔

بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close