لاہور میں کمسن گھریلو ملازم ’فریج سے کھانا چرانے پر‘ مارا گیا

ویب ڈیسک

عیدالاضحٰی کے ایک دن بعد پیر کی شام جب پاکستان کے شہر لاہور کے پوش علاقے ڈیفینس میں دو کمسن بچوں کو ایک نجی ہسپتال منتقل کیا گیا، تو معلوم ہوا کہ ان میں سے گیارہ سالہ محمد کامران جان کی بازی ہار چکا ہے۔ ڈاکٹروں کے معائنے پر بچے کے جسم پر ‘شدید نوعیت کے تشدد کے نشانات’ پائے گئے

دوسرے بچے، جس کی عمر لگ بھگ چھ برس ہے، کے بازو اور ٹانگوں پر بھی تشدد کے نشانات تھے۔ ہسپتال کی انتظامیہ نے فوری طور پر پولیس کو اطلاع دی جو کچھ ہی دیر بعد ہسپتال پہنچ گئی

تھانہ ڈیفینس ایریا اے پولیس نے بچوں کو ہسپتال منتقل کرنے والے دو مرد اور ایک خاتون سے پوچھ گچھ کی تو تینوں افراد کا بیان ایک دوسرے سے متضاد تھا جس پر انھیں مزید تفتیش کے لیے تھانے منتقل کیا گیا

پولیس کی ابتدائی تفتیش کے دوران حراست میں لیے گئے افراد نے بتایا کہ وہ ڈیفینس ہاؤسنگ اتھارٹی لاہور کے فیز تھری میں رہائش پذیر تھے اور دونوں کمسن بچے، جو بھائی تھے، ان کے پاس ملازمت کرتے تھے۔ ان دونوں کم سن بچوں کا تعلق کراچی سے تھا

پولیس کے مطابق اپنے ابتدائی بیان میں حراست میں لیے گئے شخص نے بتایا کہ ان بچوں پر ان کے بیٹے نے تشدد کیا تھا

گھر والوں نے پولیس کو بتایا کہ بچوں نے فریج میں سے چوری چھپے کچھ نکال کر کھانے کی کوشش کی تھی، جس پر ان کے بیٹے نے انہیں پکڑ لیا اور تشدد کا نشانہ بنایا

تشدد کے دوران جب گیارہ سالہ محمد کامران کی حالت غیر ہوئی تو گھر والوں نے دونوں بچوں کو قریبی نجی ہسپتال منتقل کیا۔ تاہم پولیس کے مطابق ہسپتال پہنچنے تک بچہ مر چکا تھا

پولیس کے مطابق ابوالحسن نامی ملزم پہلے بھی دونوں بچوں پر تشدد کرتا رہا ہے۔ تاہم پیر کے روز ملزم نے محمد کامران کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا جس کی تاب نہ لاتے ہوئے اس کی موت ہو گئی

مرنے والے کمسن بچے کے بچ جانے والے بھائی نے پولیس کو بتایا کہ تمام گھر کے افراد مختلف اوقات میں انہیں مارتے پیٹتے اور انہیں تشدد کا نشانہ بناتے تھے

تھانہ ڈیفینس ایریا اے کی پولیس نے کمسن بچے کے قتل کے الزام میں پانچ افراد پر مقدمہ درج کر لیا، جس میں ایک مرد، ان کے دو بیٹے اور بیٹوں کی بیویاں شامل ہیں

ڈی ایس پی محمد راشد منیر نے بتایا کہ مرنے والے کمسن بچے کے جسم پر بہیمانہ تشدد کے نشانات واضح تھے

وہ کہتے ہیں ’بچے کی جو حالت تھی وہ بیان کرنا مشکل ہے۔ اس کے پورے جسم پر شدید ضربیں لگائی گئی تھیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ موت کی حقیقی وجہ کا تعین پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کے بعد ہوگا

پولیس کے مطابق اس واقعے کے مرکزی ملزمان، ابوالحسن نامی شخص اور ان کی اہلیہ جن پر بچوں پر تشدد کا الزام ہے، بدھ کی شام تک مفرور تھے۔ ‘لیکن پولیس انہیں گرفتار کرنے کے قریب ہے۔’

پولیس کا کہنا تھا کہ بچوں کے والدین کراچی میں مقیم تھے، جنہیں اطلاع کر دی گئی تھی

یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ان بچوں کو نوکری پر رکھنے والے افراد نے رابطے کے لیے بچوں کے والدین کو جو فون نمبر دے رکھا تھا وہ اکثر بند ہوتا تھا اور بچے اپنے گھر والوں سے بات نہیں کر سکتے تھے

لاہور میں کمسن گھریلو بچوں پر تشدد کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے قبل کئی ایسے واقعات سامنے آ چکے ہیں جن میں تشدد سے ایسے کمسن بچوں کی موت واقع ہوئی جو گھروں پر ملازمت کرتے تھے

پنجاب میں بچوں سے نوکری کروانے کی ممانعت کا قانون گزشتہ کئی برس سے لاگو ہے۔ صوبے میں بچوں کو حفاظت فراہم کرنے کے لیے چائلڈ پروٹیکشن بیورو نامی ایک ادارہ بھی موجود ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ پھر بھی محمد کامران اور محمد رضوان جیسے بچے گھروں میں ملازمت کیوں کر رہے تھے؟

زیادہ تر واقعات میں حکام کو اسی وقت پتہ چلتا ہے جب کسی کم عمر بچے کے ساتھ تشدد کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے

گیارہ سالہ محمد کامران نے کس نوعیت کے تشدد کا سامنا کیا، جس سے ان کی موت واقع ہو گئی، اس کا تعین پورسٹ مارٹم اور فرانزک کی رپورٹ کے بعد ہی ہو پائے گا۔ تاہم اس سے قبل ہونے والے کئی واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ تر بچوں کو انتہائی درجے کے تشدد سے گزرنا پڑا

سنہ 2019ع میں لاہور کے علاقے اقبال ٹاؤن میں ایک سولہ سالہ گھریلو ملازمہ عظمٰی بی بی کو ‘چوری چھپے کھانا چکھنے‘ پر ان کی مالکن نے کفگیر سر پر مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ پولیس کی تفتیش میں پتہ چلا تھا کہ اس سے قبل بھی بچی کو مسلسل تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا تھا اور انہیں بھوکا بھی رکھا جاتا

اس سے قبل بھی کئی ایسے واقعات سامنے آئے تھے، جن میں کمسن بچوں کو استری سے جلایا گیا، سر منڈوائے گئے اور سیڑھیوں سے دھکیل دیا گیا۔ محمد کامران اور ان کے بھائی اس نوعیت کے تشدد کی حالیہ مثال ہیں

اس حوالے سے پنجاب چائلڈ پروٹیکشن بیورو کی سابق چیئرپرسن صبا صادق، جو خود ایک وکیل بھی ہیں اور صوبائی اسمبلی کی ممبر بھی ہیں، کہتی ہیں کہ ان کے مشاہدے میں جو واقعات آئے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ’ایسا کرنے والے لوگ ذہنی مریض ہوتے ہیں‘

’کوئی ہوش و حواس رکھنے والا شخص ایسا نہیں کر سکتا۔ بچوں پر تشدد کرنے والے افراد کی اپنی زندگیوں میں کوئی نہ کوئی نفسیاتی مسائل ہوتے ہیں‘

ماہرِ نفسیات ڈاکٹر فرح ملک نے چند سال قبل ایسے ہی ایک واقعے کے بعد انٹرویو میں بتایا تھا کہ ’بعض اوقات پورا خاندان نفسیاتی مسائل کا شکار ہوتا ہے اور انھیں خود بھی اس کا علم نہیں ہو پاتا۔ اکثر اوقات ایسے لوگ بائی پولر ڈس آرڈر کا شکار ہوتے ہیں۔‘

ڈاکٹر فرح ملک کا کہنا تھا ’انسانی نفسیات ہے کہ غصہ کمزور پر ہی نکالا جاتا ہے۔ گھریلو ملازمین ایسی کسی بھی صورتحال میں پہلا اور آسان ہدف ثابت ہوتے ہیں۔‘ تاہم ان کے خیال میں اس حوالے سے لوگوں میں آگاہی کی کمی ہے اور ملک میں قوانین موجود نہیں جو ایسے واقعات کر روک تھام کر سکیں۔

کیا کامران کو مرنے سے بچایا جا سکتا تھا؟

بظاہر پنجاب میں حکام کے پاس کوئی ایسا طریقہ یا نظام موجود نہیں ہے جس سے یہ پتہ لگایا جا سکے کہ کس گھر میں کم عمر بچوں کو ملازمت پر رکھا گیا ہے

چائلڈ پروٹیکشن بیورو کی سابق چیئرپرسن اور حالیہ بورڈ آف گورنرز کی ممبر صبا صادق کے مطابق زیادہ تر بچوں کے مرنے یا اس پر تشدد ہونے کا واقعہ سامنے آنے کے بعد ہی معلوم ہوتا ہے کہ کم سن بچے کو ملازمت پر رکھا گیا تھا

’اس میں ہمارے معاشرے کی بھی کچھ ذمہ داری ہے کہ اگر ہمسائے یا کوئی دوسرے افراد کسی گھر پر کسی کم عمر بچے کو ملازمت کرتے ہوئے دیکھیں تو حکام کو اس کی اطلاع کریں تا کہ ایسے بچوں کی زندگیاں بچائی جا سکیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں اس قسم کے جرائم کو روکنے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ ایسے واقعات میں ملوث افراد کو کڑی سے کڑی سزا دلوائی جائے تا کہ آئندہ کوئی ایسا کام نہ کرے

صبا صادق کے مطابق چائلڈ پروٹیکشن بیورو پنجاب اس میں اپنا کردار ادا کرتا رہا ہے

چائلڈ پروٹیکشن بیورو کی حالیہ پیٹرن ان چیف سارہ احمد نے بتایا کہ انھوں نے بیورو کو بچوں کے والدین سے رابطہ کرنے اور ہر قسم کی مدد فراہم کرنے کی پیشکش کرنے کی ہدایات جاری کر دی ہیں

تاہم زیادہ تر واقعات میں دیکھا گیا ہے کہ ایسے بچوں کے والدین کم آمدن طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور ایسے کیسز میں ملزمان سے صلح کر لی جاتی ہے

صبا صادق کے مطابق ان کی جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کے گزشتہ دورِ حکومت میں کم سن بچوں کو گھریلو ملازم رکھنے کی ممانعت کے حوالے سے قانون سازی کی جا رہی تھی تاہم وہ مکمل نہیں ہو پائی

ان کا کہنا تھا کہ ’پنجاب میں اگر دوبارہ ان کی جماعت کی حکومت آئی تو اس حوالے سے فوری طور پر قوانین بنانے کر کام شروع کر دیا جائے گا۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close