ہماری کوتاہیاں، غلطیاں اور کمزوریاں ہی سندھو کی تباہی کی وجہ ہوں گی۔ اگر سندھو رک گیا تو یہ حضرت انسان کی بھی بربادی ہوگی۔یہ ہے میرے دوست کی داستان حیات۔۔ دلچسپ، چشم کشا، سنسی خیز اور شایدلرزہ خیز بھی۔۔
میں یہ کہانی قلم بند کر چکا تو مجھے سندھو کی آواز سنائی دی ہے۔ ”سنو دوست!اگر تم برا نہ سمجھو تو آخر میں چندباتیں میں بھی تمہارے پڑھنے والوں سے کہنا چاہتا ہوں۔ میں اس رِیت کو توڑنا چاہوں گا کہ جس پر لکھا جائے وہ آخر میں کچھ بھی نہ کہے۔“ میں نے جواب دیا؛ ”ساری داستان تم نے ہی سنائی ہے۔ تم اور بھی کچھ کہنا چاہو تو مجھے خوشی ہوگی اور یقیناً میرے پڑھنے والے بھی لطف اندوز ہوں گے۔بولو میں لکھتا ہوں۔“
اور سپت سندھو، میرا ہمراز، مہربان، باکمال داستان گو بولنے لگا ہے: ”میں اٹھارہ ہزار (18000) فٹ کی بلندی سے اپنے طویل سفر کا آغاز کرتا ہوں۔ اپنے منبع سے جنوب مغرب کی جانب دو سو (200) میل کا فاصلہ طے کرکے میں شمال مشرق سے ہندوستانی کشمیر میں داخل ہوتا ہوں۔ سولہ ہزار(16000) فٹ کی بلندی پر بہتا لیہہ سے کچھ فاصلے پر لداخ وادی میں دریائے ”زنکسار“ میرا پہلا معاون مجھ میں گرتا ہے۔ یہاں سے مزید ایک سو پچاس (150) میل کا فاصلہ طے کر کے مرول ٹاپ سے پاکستان میں داخل ہوتا ہوں تو شنگو ریور میرا پہلا سنگم ہے۔ اس سنگم سے ایک سو دس (110) کلو میٹر ڈاؤن اسٹریم چھومندو کے مقام پردریائے ”شیوک“ کا اور میرا ملاپ ہے۔ یہ پاکستان کی دھرتی پر میرا پہلا بڑامعاون دریا ہے۔ شیوک اپنے ساتھ بہت سارے گلشئیرز کا پانی لاتا ہے۔ ”شگر، گلگت اور استور“ دریا بھی اپنے ساتھ بہت سے چشموں، ندی نالوں اور برفیلے میدانوں سے پانی لاتے مجھ میں گرتے ہیں۔ دریائے شگر اسکردو کے پاس، مزید ایک سو ستر (170) کلو میٹر ڈاؤن سٹریم دریائے گلگت جگلوٹ کے قریب اور کچھ مزید پنتیس(35) کلو میٹر ڈاؤن سٹریم دریائے استور بنجی کے نزدیک مجھ میں اترتے ہیں۔ میں مغربی سمت میں چلتا چلاس کے قریب جنوب کی جانب مڑتا خیبر پختون خوا میں داخل ہوتا ہوں۔ نانگا پربت کے شمال اور جنوب میں واقع ایک دوسرے میں دھنسی سترہ ہزار (17000) فٹ سے لے کرچھبیس ہزار (26000) فٹ تک بلند چوٹیوں اور بارہ ہزار (12000) فٹ سے پندرہ ہزار (15000) فٹ تک گہری وادیوں جو دس(10) سے اٹھارہ (18) کلو میٹر کے فاصلے تک پھیلی ہیں، اُن کے درمیان سے بہتا اِن اونچے پہاڑوں کی سر زمین سے نکل کر تربیلا پہنچتا ہوں جہاں میرے پانی پر پانچ ہزار(5000) میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی گنجائش والادنیا کا سب سے بڑا مٹی کی بھرائی کا ڈیم ”تربیلا“ تعمیر کیا گیا ہے۔ ہزارہ کی پہاڑیوں سے بہنے والا دریا ”دریائے سیرن“ بھی تربیلا سے کچھ پہلے مجھ میں ملتا ہے۔ یہاں سے مزید اسی (80) کلو میٹر ڈاؤن سٹریم ”دریائے کابل“ اور میرا سنگم اٹک کے مقام پر ہے۔ میں کالا چٹا پہاڑی سلسلے سے ٹکراتا، کالا باغ کی نمک کی کانوں کے قریب سے بہتا پنجاب کے میدانوں میں پہنچتا ہوں جہاں پنجاب کے پانچ دریا (جہلم، راوی، چناب، بیاس، ستلج)مجھ میں پنجند اور کوٹ مٹھن کے مقامات پرملتے ہیں۔ یہی پانچ دریا پنجاب کی دھرتی کو ”پنجاب“ کا نام دیتے ہیں۔ (پنجاب کا خطہ اب پاکستان اور ہندوستان میں بٹا ہے۔)سیلاب کے دنوں (اگست/ ستمبر) میں میں انتہائی پھیل کر بہتا ہوں۔ پنجاب کے جنوبی میدانوں میں سطح سمندر سے دوسو ساٹھ(260) فٹ کی بلندی سے آہستہ آہستہ بہتا ہوں۔ صدیوں سے میری لائی مٹی میری بہنے کی رفتار کو انتہائی کم کر چکی ہے۔ سندھ کے زرخیز میدان میری ہی مرہون منت ہیں۔ پنجاب اور سندھ کے مختلف قصبوں، آبادیوں اور کھیتوں کو میرے سیلابی پانی سے بچانے کے لئے حفاظتی پشتے اور بند تعمیر کئے گئے ہیں لیکن میں جب سیلابی کیفیت میں غضب ناک ہو تا ہوں تو یہ حفاظتی پشتے بھی ناکارہ ثابت ہو تے ہیں۔ صدیوں سے میرے سیلاب علاقوں،بستیوں اورکھیت کھیانوں کو تباہ و برباد ہی نہیں کرتے بعض دفعہ صفحہ ہستی سے بھی مٹاتے رہے ہیں تو میری لائی مٹی پیچھے سو نا اگلتی زمین چھوڑ جاتی ہے۔ سیلابی موسم کے دوران مجھ سمیت تمام دریا اپنا رخ بھی بدلتے رہے ہیں۔ میرا ڈیلٹا تین ہزار (3000) مربع میل سے سکڑ کر دو سو چالیس (240) میل رہ گیا ہے۔ میں پرانی اور نئی گزرگاہوں سے بہتا بحیرہ عرب میں اترتا ہوں۔ پانچ(5) سے بیس (20) کلو میٹر میں پھیلی میری پٹی کے اندر اب سمندر اتر آیا ہے۔ میرے ڈیلٹا ئی علاقے میں ریت نمایاں ہے۔“
”مجھ سمیت پنجاب کے سبھی دریا پہاڑوں کے برفیلے میدانوں سے بہتے آتے ہیں۔ ان میں پانی کی روانی سال کے مختلف ایام میں مختلف ہوتی ہے لیکن ان کا بہاؤ سرد موسم (دسمبر/جنوری) میں سب سے کم ہوتا ہے، جب پہاڑ برف سے ڈھک کر پانی کو منجمد کر دیتے ہیں۔ موسم گرما (جولائی/ستمبر) میں ان دریاؤں کا بہاؤ انتہا پر ہوتا ہے جبکہ ستمبر میں اکثر دریا سیلابی کیفیت میں بہتے ہیں۔ گرمی کے موسم میں میدانی علاقوں میں یہ دریا کناروں تک پھیل کر بہت خوبصورت منظر پیش کرتے ہیں۔ ان دریاؤں کا پانی گہرائی تک زمین کے اندر جا کر زیر زمین پانی کی سطح بلند کر دیتا ہے۔ بخارات زیادہ بنتے ہیں اور خوب بارش برساتے ہیں۔ دسمبر سے مارچ تک مجھ میں پانی کی سطح انتہائی کم ہوتی ہے۔ اپریل کے مہینے میں مجھ سمیت تمام دریاؤں میں پھر سے توانائی لوٹنے لگتی ہے۔ مطلب یہ کہ زیادہ پانی۔ جون میں تیزی سے پانی بھر کر اگست/ستمبر میں کناروں سے بھی بہت باہر نکل کر بہتا ہوں۔ اکتوبر تک مجھ میں پانی کی کمی آنے لگتی ہے اور دسمبر میں نمایاں کمی آ تی ہے۔ یوں پانی کا ایک چکر (cycle) پورا ہوتا ہے۔ تمھیں یہ بھی بتا دوں تمام سیلابی پانی کا نصف میں (سندھو) لاتا ہوں جبکہ باقی نصف کا نصف جہلم اور چناب اور باقی نصف راوی، ستلج اور بیاس مل کر پورا کرتے ہیں۔“
”اس بات کے واضح ثبوت ہیں کہ چار ہزار پانچ سو (4500)سال سے زیادہ عرصہ قبل آباد ہونے والی سندھ تہذیب کے آغاز سے آج تک میں نے کئی بار پنجاب اور سندھ کے میدانوں میں اپنا راستہ تبدیل کیا ہے اور انتہائی زرخیز میدان ان دونوں خطوں کو تحفے میں دئیے ہیں۔ ایک اور اندازے کے مطابق میں نے اپنا رخ سندھ کی دھرتی پراپنی گزر گاہ کے سولہ(16) سے بیس(20) کلو میٹر کے قطر میں کئی بار تبدیل کر چکا ہوں۔ باقی دریاؤں نے بھی اپنی گزر گاہیں کئی مرتبہ بدلی ہیں۔ہزاروں سالوں سے ایسا ہی ہوتا آرہا ہے۔ میری گزرگاہ پر اوسطاً 5 سے 20 انچ سالانہ بارش برستی ہے۔ پہاڑی سلسلہ کے علاوہ میں برصغیر کے انتہائی خشک خطے میں بہتا ہوں۔ شمال مغربی ہوائیں انڈس ویلی میں 4 تا 8 انچ سالانہ بارش برساتی ہیں جو میدانوں میں گندم اور جو کی پیداوار کے لئے اہم ہیں۔ میرے بالائی خطے ہمالیہ، قراقرم، ہندو کش میں شدید برف باری ہوتی ہے۔ مجھ میں بہنے والے پانی کی بڑی مقدار اسی برف کے پگھلنے سے آتی ہے۔ مون سون بارشیں مجھ کو کناروں تک لبالب بھر کر پانی کناروں سے باہر اچھال دیتی ہیں۔ انڈس ویلی کا موسم سندھ اور پنجاب کی شدید گرمی سے کوہستان، ہزارہ، گلگت، سکردو اور لداخ کے شدید سرد موسم تک کا نظارہ دیتا ہے۔ ایک طرف تو اُن اونچے پہاڑوں پر درجہ حرارت نقطہ انجماد سے کئی درجے نیچے گر کر ہر شے کو منجمد کر دیتا ہے تو دوسری طرف میرا مغربی کنارہ صوبہ سندھ کا ہی نہیں بلکہ دنیا کے گرم ترین مقامات میں سے ایک ہے جہاں کا درجہ حرارت موسم گرما میں پچاس(50) ڈگری فارن ہائیٹ تک پہنچ جاتا ہے۔ یہ جیکب آباد (سندھ) ہے۔“
”موسم اور نباتات کا بھی ”میری (سندھو) کی گزر گاہ میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ صوبہ سندھ میں میرے اطراف دس(10) تا تیس(30) کلومیٹر تک زمین ریتلی ہے، جہاں گھاس نہ ہونے کے برابر ہے۔ سیلابی پانی اور نہری نظام زراعت اور آب پاشی کا بڑا ذریعہ ہیں۔ سندھ اور پنجاب کے میدانوں میں چرتے مویشی اورایندھن کے لئے استعمال کی جانے والی لکڑی گھاس کے میدانوں اور نباتات میں کمی کی بڑی وجہ ہے۔ ہمالیہ، ہندو کش اور قراقرم کے خطوں میں جنگلات کی کٹائی، پانی کے قدرتی راستوں کا خشک ہونا، میری سطح میں پانی کی کمی اور نباتات کے نقصان کا باعث ہیں۔خیال کیا جاتا ہے کہ قدیم دور میں آج کی نسبت ان خطوں سے لکڑی کی زیادہ پیداوار حاصل کی جاتی تھی۔ تم سکندر اعظم اور مغلیہ دور میں لکھی جانے والی تاریخ پڑھو، ایک بات نمایاں ہے کہ میری گزرگاہ کے ساتھ ساتھ انتہائی گھنے جنگل تھے۔ آج بھی میرے میدانوں میں پوست، خود رو پودے، خاردار جھاڑیاں، سرخ رنگ کی چوزہ بوٹی بہتات میں ملتی ہیں۔میرے کناروں کے ساتھ موٹی اونچی گھاس دور دور تک نظر آتی ہے۔ پانی دھاروں کی صورت ”تمرس“ کے درختوں اور جھاڑیوں کے جھنڈ کے بیچ سے بہتا ہے۔ البتہ گھنے جنگل اب کہیں بھی دکھائی نہیں دیں گے اور نہ ہی حضرت انسان نے مصنوعی جنگل لگانے کی کوشش کی ہے۔“
”مجھ (سندھو) میں مچھلی کی بہتات ہے۔ خاص طور پر ”ہلسا“ (hilsa) مچھلی جو اپنی لذت کے لحاظ سے بڑی پسند کی جاتی ہے۔ مچھلی کے شکار کی اہم شکار گاہیں ٹھٹہ، کو ٹری اور سکھر ہیں۔ مچھلی پکڑنے کی اور بھی بیسیوں جگہیں ہیں لیکن یہ زیادہ مشہور ہیں۔ ڈیم اور بیراج کے علاوہ لوگوں نے بڑے بڑے مچھلی فارم بھی بنا لئے ہیں۔ ڈیلٹا کے ایک سو پچاس (150) میل کے علاقے میں بہت سی کھاڑیاں اور اتھلا سمندری پانی ہے۔ یہ سمندری پانی مچھلی پکڑے کے حوالے سے اہم ہے۔ ”پمفلٹ“ (سمندری مچھلی کی ایک قسم جو بہت شوق سے کھائی جاتی ہے اسے پمفریٹ بھی کہا جاتا ہے) اور جھینگے (prawns) کے حوالے سے اس پانی کی بڑی اہمیت ہے۔ نومبر سے مارچ شکار کا بڑاموسم ہے۔ مچھیروں کو اب حکومت سندھ نے کراچی کی بندرگاہ کے ایک بڑے جدید کولڈ سٹوریج کی سہولت مہیا کر دی ہے، جہاں شکار کی جانے والی سمندری مچھلی اور جھینگوں وغیرہ کو سٹور کرکے اندرون اور بیرون ملک بھیجا جاتا ہے۔“
”میری بلھن (سندھ کی مخصوص ڈولفن) کی کہانی تو تم سن چکے ہو۔ مجھے اس پر فخر ہے۔ اِس کا اور میرا ساتھ ازل سے ہے۔ یہ تعداد میں کم رہ گئی تھیں لیکن پھر بھی ہم نے ایک دوسرے کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ یہ تو بھلا ہو ”وولڈ وائلڈ لائف“ (wwf) کا کہ انہوں نے اس کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے اور اب ان کی تعداد بڑھ کر تقریباً ایک ہزار کے قریب پہنچ چکی ہے۔ دوست! بلھن کو میرا گدلا پانی پسند ہے۔ مجھے اپنے پانیوں پر یہ کھیلتی، قہقہے لگاتی بہت اچھی لگتی ہے اور میں اِس کی شرارتوں سے بہت محضوظ ہوتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے میرے چھوٹے چھوٹے بچے مجھ سے شرارتیں کر رہے ہیں۔ تمھیں معلوم ہے کہ اس کو اپنی مادہ سے بہت محبت ہوتی ہے۔“ عظیم داستان گو شاندار انداز میں اپنی کہانی کے اختتام کی جانب بڑھ رہا ہے۔
”میرے بالائی خطے میں آباد تبتی، لداخی، بلتی لوگ شباہت میں وسط ایشیائی نسل کی بجائے جنوب ایشیائی نسل سے ملتے ہیں۔زیادہ تر لوگ تبتی زبان کے ہی مختلف لہجے ہی بولتے ہیں جن کا ماخذ تبتی زبان ہی ہے۔ اکثریت بدھ مت کے ماننے والوں کی ہے لیکن لوگوں کی بڑی تعداد اب اسلام قبول کر چکی ہے۔ مقامی معاشیات میں گلہ بانی بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ ہمالیہ کے علاقے میں میں اور میرے معاون دریا اپنے سے جڑی آبادیوں کی رسوم اور ثقافتیں مل کر ایک ایسی دریائی ثقافت کو جنم دیتی ہیں جو باقی دنیا کی دوسری دریائی ثقافتوں سے منفرد، دلکش اور مخصوص ہے۔ سندھ وادی میں بسنے والے قدیم اور جدید لوگ ”ہند اور سندھ“ کی زبانیں بولتے ہیں۔ آریائی، بدھ مت، ہندو مت یہاں کے ابتدائی مذھب تھے اور اسلام ان وادیوں کا نسبتاً نیا مذہب ہے اور اسلام کا یہاں پھیلنا اس بات کا غماز ہے کہ صدیوں پہلے بزرگان دین نے تبلیغ اسلام کے لئے ادھر کا رخ کیا۔ یہاں کی اسلامی مذھبی ثقافت قدیم مذھبی رسوم اور اسلامی علوم کی ثقافت کا ایسا امتزاج ہے جو میری ہی وادیوں تک محدود ہے۔
”کشمیر کے مغربی پہاڑی علاقوں میں ”دارد“ (dard) زبان بولنے والے (کافر، کوہستانی، شین اور کشمیری) آباد ہیں۔ یہاں بولی جانے والی زبانوں کا ماخذ indo european زبانیں ہیں۔دریائے ہنزہ کے ساتھ آباد لوگ ”بروششکی“ زبان بولتے ہیں۔ یہ زبان نہ تو کسی اور زبان سے ملتی ہے اور نہ ہی کوئی دوسری زبان اس کا ماخذ ہے۔ غلہ بانی کے علاوہ جہاں ممکن ہو لوگ کھیتی اگاتے ہیں۔ پٹھان پشتو بولتے ہیں اور ان کی زیادہ تعداد خیبر پختون خوا میں آباد ہے اور ان کی رشتہ داریاں افغانستان میں بھی ہیں۔ یوسف زئی پٹھانوں کا بڑا قبیلہ ہے اس کے علاوہ آفریدی، خٹک، مہمند، وزیر اور دوسرے قبائل ہیں۔ پٹھانوں کے علاقوں میں آج بھی ان کا روایتی جرگہ اور سیاسی نظام قائم ہے۔ خیبر پختون خوا کے بعد پنجاب کے میدان شروع ہو تے ہیں جہاں پنجابی زبان کے مختلف لہجے بولے جاتے ہیں لیکن یہاں قبائل کی تقسیم زبان کی بجائے برادریوں کی بنیاد پر ہے اور پھر ان برادریوں کی آگے بہت سی ذیلی برادریاں ہیں۔ پنجابی بولنے والے جاٹ، راجپوت، گجر، آرائیں، کشمیری پنجاب کے میدانوں کی اہم ذاتیں ہیں۔ سندھ کی وادی میں آباد کسان اور قبیلے سندھی کے علاوہ اپنے قبائل کی زبانیں بھی بولتے ہیں۔ دوسری زبانوں کی طرح سندھی زبان کے بھی لہجے مختلف ہیں۔سندھی ثقافت پر سندھیوں کو ہمیشہ ہی فخر رہا ہے۔ ہاں یاد آیا تمھیں اور تمھارے دوستوں کو سندھی ثقافت کے دو اہم ترین اجزاء ”اجر ک اور سندھی ٹوپی“ کے بارے بتانا تو بھول ہی گیا ہوں۔ سندھی ثقافت میں ان دونوں کی بہت اہمیت ہے اور ان کے تذکرے کے بغیر یہ کہانی ادھوری رہے گی۔ لو یہ بھی سنادیتا ہوں۔ ویسے یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اندرون سندھ کی ثقافت سندھ کے شہری علاقوں سے مختلف ہے جہاں زیادہ تر اردو زبان بولنے والے مہاجر آباد ہیں جو تقسیم ہند کے وقت ہندوستان کے مختلف شہروں سے آ کر یہاں آباد ہوئے تھے۔ برا نہ ماننا ان کو بھی ایک منصوبے کے تحت آباد کیا گیا تھا تاکہ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم کے لئے انتخابی حلقہ تشکیل دیا جا سکے۔ یہ منصوبہ تو مکمل نہ ہو سکا لیکن آنے والے وقت کے لئے بہت سی مشکلات کا باعث بنا۔ کراچی منی پاکستان ہے کہ یہاں پاکستان کی مختلف قومیں پٹھان، بلوچ، پنجابی اور مکرانی بڑی تعداد میں آباد ہیں۔“ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ’بُک ہوم‘ نے شائع کی ہے، جسے ادارے اور مصنف کے شکریے کے ساتھ سنگت میگ میں قسط وار شائع کیا جا رہا ہے. سنگت میگ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔