کروڑ پتی بھکاری (آئرش ادب سے منتخب افسانہ)

آسکر وائلڈ (مترجم: اسماء حسین)

دولت کے بغیر، صرف خوبصورت ہونا بےکار ہے۔ رومانس امیروں کی عیاشی ہے، بے روزگار کا پیشہ نہیں۔ غریب کو پریکٹیکل اور سادہ ہونا چاہیے۔ دلکش نظر آنے کے بجائے مستقل آمدنی ضروری ہے۔ یہ جدید دنیا کے بڑے سچ ہیں، جو ہیو ای ارسکائین کو کبھی نہیں سمجھ آئے۔ بے چارہ ہیو ای! ہمیں اعتراف کرنا چاہیے کہ اس کی زیادہ اہمیت نہیں تھی۔ اس نے اپنی پوری زندگی میں کبھی کوئی بہت اچھی، یا کوئی بری بات نہیں کہی تھی۔۔ لیکن وہ بہت حسین و جمیل تھا – اپنے چمکدار شہد رنگ جیسے بالوں، سڈول نین نقش اور سرمئی آنکھوں کے ساتھ۔ وہ مردوں میں بھی اتنا ہی مقبول تھا، جتنا خواتین میں مشہور تھا۔۔ اور پیسے کمانے کے علاوہ ہر کام میں ماہر تھا۔

ہیوای کے لیے اس کے والد ورثے میں اپنی ایک فوجی تلوار اور ’ہسٹری اوف پیننسیولر وار‘ کی پندرہ جلدیں چھوڑ گئے تھے۔ تلوار اس نے آئینے کے اوپر لٹکائی ہوئی تھی اور کتاب کی جلدیں رف کی گائیڈ اور بیلی میگزین کے درمیان شیلف میں رکھ دیں تھیں۔ اپنی گزر بسر وہ دو سو پاونڈز سالانہ میں کرتا تھا، جو ایک آنٹی اسے عنایت کر دیتی تھیں۔

اس نے تقریباً ہر پیشے میں قسمت آزمائی تھی۔ وہ چھ ماہ تک اسٹاک ایکسچینج جاتا رہا؛ لیکن سانڈوں اور ریچھوں کے درمیان بے چاری ایک تتلی کیا کرتی؟ کچھ عرصے اس نے چائے بیچی، لیکن جلد ہی، قسم قسم کی چائے کی پتیوں سے تنگ آ گیا۔ پھر خشک شیری بیچنے کی کوشش کی، لیکن کام نہیں بنا؛ شیری تھوڑی زیادہ خشک تھی۔ آخرکار وہ کچھ نہیں بن سکا۔۔ ایک خوش مزاج، بے کار نوجوان، انتہائی خوبصورت چہرے کے ساتھ اور پیشے کے بغیر۔۔

مرے پہ سو درے، وہ مبتلائے عشق بھی تھا۔ جس لڑکی، لارا مرٹن سے وہ محبت کرتا تھا، ایک کرنل کی بیٹی تھی۔کرنل اپنی برداشت اور ہاضمہ انڈیا میں کھو آیا تھا، جو اسے دوبارہ کبھی نہیں مل سکے۔ لارا بھی ہیوای سے محبت کرتی تھی، اور وہ تو اس کے جوتوں کے تسمے بھی چومنے کے لیے تیار رہتا تھا۔ ان کا جوڑا، لندن کا سب سے خوبصورت جوڑا تھا۔ دونوں کے پاس کوئی پائی پیسہ نہیں تھا۔

یوں تو کرنل کو ہیوای پسند تھا، لیکن بیٹی سے شادی کے سوال پر وہ کہا کرتا تھا، ”لڑکے میری بات سنو! جب تم دس ہزار پاونڈز جمع کر لو گے، تب شادی کے متعلق سوچیں گے۔“ جب بھی وہ یہ بات سنتا بہت افسردہ ہوتا اور اسے اشک شوئی کے لیے لارا کے پاس جانا پڑتا تھا۔

ایک صبح، جب وہ ہالینڈ پارک جا رہا تھا، جہاں مرٹن خاندان رہتا تھا، وہ اپنے ایک بہت اچھے دوست ایلن ٹریور سے ملنے کے لیے رک گیا۔ ایلن ٹریور ایک مصور تھا۔ مشغلے کے لیے تو آج کل ہر انسان ہی مصور بنا پھرتا ہے، لیکن وہ واقعی ایک فنکار تھا، اور فنکار بہت نایاب ہوتے ہیں۔ ذاتی طور پر وہ چہرے پر داغ دھبوں اور سرخ بے ہنگم داڑھی کے ساتھ ایک عجیب سا بدصورت آدمی تھا۔۔ لیکن جب وہ برش چلاتا، تو کمال تخلیق کرتا تھا۔ اس کی تصاویر کی بڑی مانگ تھی۔ جب ابتداء میں وہ ہیوای کے سحر میں گرفتار ہوا، ہمیں یہ ماننا چاہیے، کہ یہ کشش مکمل طور پر اس کی خوبصورتی کی وجہ سے تھی۔ وہ کہا کرتا تھا، ”ایک مصور کو صرف ان لوگوں سے ملنا چاہیے، جو خوبصورت اور بے وقوف ہوتے ہیں، جنہیں دیکھ کر فنی حظ اور بات کر کے ذہنی فرحت ملے۔ خوبصورت، نفیس مرد اور دلکش خواتین دنیا پر حکومت کرتے ہیں، یا کم از کم انہیں ایسا ہی کرنا چاہیے۔“ لیکن، جب وہ ہیو ای کو بہتر جاننے لگا، تب اس کی زندہ دلی اور شاہانہ تجاہل کا گرویدہ ہو گیا، اور اسے اپنے اسٹوڈیو میں آنے جانے کی اجازت دے دی۔

جب ہیوای اسٹوڈیو پہنچا، ٹریور ایک قدِ آدم، بھکاری کی تصویر کی نوک پلک سنوار رہا تھا۔ خود بھکاری اسٹوڈیو کے ایک کونے میں، چبوترے پر کھڑا تھا۔ وہ دبلا پتا، سوکھا سا بوڑھا شخص تھا، جس کا چہرہ چرمی کاغذ کی طرح شکن آلود تھا اور اس پر انتہائی درد ناک تاثرات تھے۔ اس کے کندھوں پر ایک پھٹا پرانا، موٹا سا جبہ پڑا ہوا تھا، موٹے جوتے پیوند لگے اور جگہ جگہ سے سلے ہوئے تھے۔ اس کے ایک ہاتھ میں موٹی چھڑی تھی، جس پر وہ ہلکا سا جھکا ہوا تھا، جبکہ دوسرے ہاتھ میں بھیک مانگنے کے لیے ہیٹ پکڑا ہوا تھا۔

”کیا زبردست ماڈل ہے!“ ہیوای نے اپنے دوست سے ہاتھ ملاتے ہوئے، سر گوشی میں کہا۔

”بہت اچھا ماڈل ہے نا؟“ ٹریور نے بلند آواز کہا، ”میں نے بھی یہی سوچا تھا! اس جیسے بھکاری روز روز نہیں ملتے، میرے دوست۔ یہ ایسا معلوم ہوتا ہے، جیسے ویلاسکز (ہسپانوی مصور) کی کسی تصویر میں جان پڑ گئی ہو۔ میری خوش قسمتی کہ یہ مجھے مل گیا! ویمبرانڈنٹ (ڈچ مصور) کتنا زبردست ایچنگ (کندہ کاری) کر کے اس کی تصویر بناتا!“

”بے چارہ بوڑھا!“ ہیوای نے کہا، ”یہ کتنا خستہ حال اور مصیبت زدہ نظر آتا ہے! لیکن مجھے لگتا ہے، تم جیسے مصوروں کے لیے، اس کا چہرہ اس کی دولت ہے؟“

”یقیناً۔“ ٹریور نے جواب دیا، ”کوئی نہیں چاہتا کہ بھکاری مسرور نظر آئے، کیا تم چاہتے ہو؟“

”ماڈل بننے کے لیے ایک ماڈل کو کتنا معاوضہ ادا کیا جاتا ہے؟“ اس نے کاوچ پر بیٹھتے ہوئے پوچھا

”ایک شلنگ (پاونڈ سے چھوٹا سکہ) گھنٹے کا۔“

”اور تمہاری تصویر کس قیمت فروخت ہو جاتی ہے، ایلن؟“

”اوہ، اس کے مجھے دو ہزار مل جائیں گے!“

”پاونڈز؟“

”گنیز (تقریباً سوا پاونڈ کا سونے کا سکہ) مصور، شاعر، اور ڈاکٹروں کو ہمیشہ گنیز میں معاوضہ ادا کیا جاتا ہے؟“

”اچھا! میرا خیال ہے ماڈل کو تصویر کی قیمت میں سے حصہ ملنا چاہیے“ ہیوای نے ہنستے ہوئے کہا، ”وہ بھی تم جتنی ہی محنت کرتے ہیں۔“

”بکواس، بالکل بکواس! کیوں بھئی، تنہا تصویر کشی کرنا کتنا مصیبت کا کام ہے۔۔ اور ایزل کے سامنے سارا دن کھڑے رہنے کی مشقت دیکھو! تمہارے لیے صرف باتیں بنانا آسان ہے، ہیوای۔ لیکن میں تمہیں یقین سے کہتا ہوں کہ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب فن بھی، محنت مزدوری کے درجے تک پہنچ جاتا ہے۔۔ مگر اب تم باتیں نہ کرو؛ میں بہت مصروف ہوں۔ سگریٹ پیو اور خاموش رہو۔“

تھوری دیر بعد نوکر اندر آیا اور اطلاع دی کہ فریم بنانے والا ٹریور سے بات کرنا چاہتا ہے۔

”ہیوای، بھاگ مت جانا“ ٹریور نے باہر جاتے ہوئے آواز لگائی، ”میں ابھی آیا۔“

بوڑھے بھکاری نے ٹریور کی عدم موجودگی کا فائدہ اٹھایا اور اپنے پیچھے رکھی ہوئی ایک لکڑی کی بینچ پر سستانے کے لیے بیٹھ گیا۔ وہ اتنا لاچار اور بدحال دکھائی دے رہا تھا کہ ہیوای کو اس پر ترس آگیا۔ اس نے جیبوں میں ہاتھ ڈال کر ان میں موجود پیسوں کا اندازہ لگایا۔ ان میں صرف ایک ساورن (ایک پاونڈ کا سونے کا سکہ) اور چند کانسی کے سکے تھے ۔۔ ’بے چارہ بوڑھا آدمی‘ ، اس نے دل ہی دل میں سوچا، ’اس بوڑھے کو ان پیسوں کی زیادہ ضرورت ہے، لیکن یہ دینے کا مطلب ہے کہ مجھے مہینے کے باقی پندرہ دن بغیر بگھی کے سفر کرنا پڑے گا۔۔‘ اور پھر اٹھ کر اسٹوڈیو کے کونے میں بیٹھے بھکاری کے پاس گیا اور اس کے ہاتھ پر سکے رکھ دیئے۔
بوڑھا آدمی چونک گیا، اور ہلکی سی مسکراہٹ اس کے مرجھائے ہوئے لبوں پر پھیل گئی۔

”آپ کا بہت شکریہ، جناب“ بوڑھے نے کہا۔

”شکریہ۔“

تب ہی ٹریور آ گیا، اور ہیوای اپنی حرکت پر شرماتے ہوئے، رخصت لے کر وہاں سے چلا گیا۔ اس نے سارا ل دن لارا کے ساتھ گزارا، اپنی شاہ خرچی پر پیار بھری ڈانٹ بھی کھائی اور واپسی پر اسے پیدل گھر جانا پڑا۔

اسی رات تقریباً گیارہ بجے، وہ ٹہلتا ہوا پیلٹ کلب چلا گیا۔ وہاں اسے تمباکو نوشی کے کمرے میں اکیلا بیٹھا ٹریور، ہاک اور سیلٹزر پیتا ہوا مل گیا۔

”ایلن، کیا تم نے تصویر مکمل کر لی؟“ اس نے سگریٹ جلاتے ہوئے پوچھا۔

”بالکل، مکمل ہونے کے بعد فریم بھی ہو گئی، لڑکے! اور اتفاق سے تمہاری بھی قسمت جاگ گئی۔ وہ بوڑھا ماڈل، جس سے تم اسٹوڈیو میں ملے تھے، تم پر بہت فدا ہے۔ مجھے تمہارے متعلق اسے سب کچھ بتانا پڑا – تم کون ہو، کہاں رہتے ہو، تمہاری آمدنی کیا ہے، تمہارا مستقبل کیسا ہے۔۔۔“

”ایلن۔۔!“ ہیوای چیخا، ”اب میں گھر جاؤں گا تو شاید وہ مجھے وہاں انتظار کرتے ہوئے ملے، لیکن تمہیں صرف مذاق سوجھ رہا ہے۔ بےچارہ بد نصیب بوڑھا! کاش میں اس کی مدد کر سکتا۔ مجھے تو یہ بات انتہائی خوفناک لگتی ہے کہ کوئی اتنا زیادہ مصیبت زدہ ہو۔ میرے گھر ڈھیروں، پرانے کپڑے پڑے ہیں – تمہارا کیا خیال ہے، وہ ان میں سے کچھ لے گا؟ اس کے پرانے کپڑے تار تار ہو رہے ہیں۔“

”لیکن مجھے تو وہ ان کپڑوں میں زبردست نظر آتا ہے۔ میں کبھی اس کی فراک کوٹ میں تصویر نہیں بناتا۔۔ اور جنہیں تم چیتھڑے کہے رہے ہو، میں اسے رومانس کہتا ہوں۔ جو چیز تمہارے لیے غربت ہے، میرے لیے وہ تصاویر میں محفوظ کرنے لائق چیز ہے۔ مگر پھر بھی میں اسے تمہاری پیشکش سے آگاہ کر دوں گا۔“ ٹریور نے کہا۔

”ایلن، تم مصور لوگ، بہت کٹھور ہوتے ہو۔“ ہیوای نے سنجیدگی سے کہا.

”ایک آرٹسٹ کا دل اس کا سر ہوتا ہے۔“ ٹریور نے جواب دیا، ”اور ہمارا کام دنیا کو بالکل ایسے ہی پیش کرنا ہے، جیسے ہم اسے دیکھتے ہیں، اچھے یا برے کی تمیز کر کے اس کی اصلاح کرنا نہیں۔۔ ایک انسان کو وہی کام کرنا چاہیے جس میں اسے کو مہارت حاصل ہو۔ خیر، یہ بتاؤ لارا کیسی ہے؟ بوڑھا ماڈل اس کا بھی بہت پوچھ رہا تھا۔“

”تمہارے کہنے کا مطلب یہ تو نہیں کہ تم نے اسے لارا کے متعلق بھی سب کچھ بتا دیا ہے؟“ ہیوای نے کہا۔

”بالکل بتایا ہے۔ وہ، سنگ دل کرنل، پیاری لارا اور دس ہزار پاونڈ کے بارے میں سب جانتا ہے۔“

”تم نے میرے تمام نجی معاملات اس بوڑھے بھکاری کو بتا دیئے؟“ ہیوای نے سیخ پا ہو کر کہا، وہ غصے سے سرخ اور ناراض دکھائی دیتا تھا۔

ٹریور مسکرایا اور کہنے لگا، ”میری جان، وہ بوڑھا جسے تم بھکاری کہتے ہو، یورپ کے امیر ترین آدمیوں میں سے ایک ہے۔ چاہے تو کل ہی اپنا بینک اکاونٹ اوورڈرا کیے بغیر پورا لندن خرید سکتا ہے، ہر دارلحکومت میں اس کا ایک مکان ہے، سونے کی پلیٹ میںکھاتا ہے۔۔ اور اگر چاہے تو اپنے اثر ورسوخ سے روس کو جنگ میں داخل ہونے سے روک سکتا ہے۔“

”آخر تمہارا مطلب کیا ہے؟“ ہیوای نے حیرانی سے پوچھا۔

ٹریور گویا ہوا، ”میں یہ کہہ رہا ہوں کہ جس بوڑھے کو کل تم نے اسٹوڈیو میں دیکھا تھا، وہ لارڈ ہاسبرگ ہے۔ وہ میرا اچھا دوست ہے، میری ساری تصاویر اور اس قسم کی دوسری چیزیں خریدتا رہتا ہے۔۔ اور ایک ماہ قبل اس نے بھکاری کے روپ میں اپنی تصویر بنوانے کے لیے، میری خدمات حاصل کی تھیں۔ ایک کروڑ پتی کی خواہش پوری ہو گئی، میری کمائی ہو گئی۔۔ اور میں تو یہ کہوں گا کہ کر وہ ان پرانے کپڑوں میں بہت زبردست لگ رہا تھا، بلکہ شاید مجھے اپنے چیتھڑے کہنا چاہیے؛ وہ پرانا سوٹ مجھے اسپین میں ملا تھا۔

”لارڈ ہاسبرگ!“ ہیوای نے کہا، ”میرے خدا! اور میں نے اسے ایک ساورن پکڑا دیا!“ وہ مایوسی کی تصویر بنا آرام کرسی میں مزید دھنس گیا۔

”کروڑ پتی کو ایک ساورن بھیک دے دی!“ ٹریور نے ہنستے ہوئے کہا اور زور زور سے قہقے لگانے لگا۔ ”لڑکے! بھول جاؤ، وہ پیسہ تمہیں اب دوبارہ نہیں ملنے والا۔۔ اب وہ کسی اور کی ملکیت ہے۔“

”تم مجھے پہلے بتا دیتے، ایلن۔“ ہیوای نے منہ پھلا کر کہا، ”میں ایسے بیوقوف تو نہیں بنتا۔۔“

”پہلی بات تو یہ ہے ہیوای” ایلن نے کہا، ”میرے ذہن میں یہ بات کبھی نہیں آئی کہ تم اس طرح لا پرواہی سے خیرات بانٹتے پھرتے ہو۔ ایک خوبصورت ماڈل کو تمہارا بوسہ دینا میں سمجھ سکتا ہوں، لیکن تم نے ایک بدصورت ماڈل کو ساورن دے دیا – اوہ خدایا، نہیں! دوسری بات یہ کہ میں آج گھر پر کسی سے نہیں ملا؛ اور جب تم اندر آئے تو مجھے نہیں معلوم تھا کہ لارڈ ہاسبرگ اپنے نام کا ذکر کرنا پسند کریں گے یا نہیں۔ تم نے تو دیکھا ہی تھا کہ وہ کیسے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔“

”وہ مجھے کتنا بے وقوف سمجھتے ہوں گے!“ ہیو ای نے کہا۔

”قطعاً نہیں۔۔ تمہارے جانے کے بعد وہ بڑے اچھے موڈ میں تھے۔ اپنے آپ ہی مسکراتے رہے اور اپنے جھریوں زدہ ہاتھوں کو آپس میں ملتے رہے۔“

”پہلے مجھے سمجھ نہیں آیا کہ وہ تمہارے متعلق سب کچھ جاننے میں اتنی دلچسپی کیوں لے رہے ہیں؛ لیکن اب میں سمجھ رہا ہوں۔۔ وہ تمہارے دئیے ہوئے ساورن کی تم پر ہی سرمایہ کاری کریں گے اور ہر چھ ماہ بعد تم کو سود ادا کر دیں گے، یوں ان کے پاس رات کے کھانے کے بعد، سنانے کے لئے ایک اچھی کہانی ہوگی۔“

”میں بھی کتنا گھامڑ انسان ہوں۔“ ہیوای بڑ بڑایا۔ ”اس وقت جو کام میں بہترین کر سکتا ہوں وہ یہ ہے کہ جا کر سو جاؤں؛ اور پلیز ایلن، تم کسی کو کچھ نہیں بتانا۔ مجھ میں کسی کو منہ دکھانے کی ہمت نہیں ہے۔“

”بکواس نہ کرو! ہیوای، یہ عمل تو تمہاری انسان دوستی اور سخاوت کا بہترین ثبوت ہے۔ مت جاؤ۔ ایک اور سگریٹ پیو۔۔ اور تم لارا کے بارے میں جتنی باتیں کرنا چاہو، کر سکتے ہو۔“

مگر ہیوای نہیں رکا، وہ بہت آزردہ سا ایلن ٹریور کو ہنستے ہوئے اکیلے چھوڑ کر گھر چل دیا۔

اگلی صبح، جب وہ ناشتہ کر رہا تھا، نوکر ایک کارڈ اس کے پاس لایا، جس پر لکھا ہوا تھا، ”موسیور گستاو ناڈین، جناب لارڈ ہاسبرگ کی جانب سے۔“

’مجھے لگتا ہے کہ وہ معافی مانگنے آیا ہے‘ ہیوای نے سوچا؛ اور نوکر سے ملاقاتی کو اندر بھیج دینے کا کہا۔

سونے کے چشمے اور سرمئی بالوں والا ایک بوڑھا شخص کمرے میں آیا، اور اس نے قدرے فرانسیسی لہجے میں کہا، ”کیا مجھے موسیو ایرسکاین سے مخاطب ہونے کا اعزاز حاصل ہو رہا ہے؟“

ہیوای نے اثبات میں سر جھکا دیا۔

میں لارڈ ہاسبرگ کی طرف سے آیا ہوں،“ اس نے بات جاری رکھی، ”لارڈ۔۔۔۔“

”میں آپ سے درخواست کرتا ہوں، پلیز آپ ان کو میری معذرت پہنچا دیں۔“ ہیوای نے لڑکھڑاتی زبان سے کہا۔

بوڑھا آدمی گویا ہوا، ”لارڈ نے مجھے یہ خط آپ کے پاس پہنچانے کا حکم دیا ہے۔“ اور اس نے ایک مہر بند لفافہ ہیوای کی طرف بڑھا دیا۔

لفافے کے باہر لکھا تھا، ”ہیو ای ایرسکاین اور لارا مرٹن کی شادی کا تحفہ، ایک بوڑھے بھکاری کی طرف سے“ اور اس لفافے کے اندر دس ہزار پاونڈ کا چیک تھا۔

جب ان دونوں کی شادی ہوئی تو ایلن ٹریور بیسٹ مین تھا اور لارڈ نے شادی کی تقریب میں تقریر کی۔

”کروڑ پتی ماڈلز خال خال پائے جاتے ہیں۔“ ایلن نے کہا، ”لیکن با خدا، ماڈل کروڑ پتی بہت نایاب ہوتے ہیں!“

Original Title: The Model Millionaire
Written by:
Oscar Wilde

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close