آٹھ فروری کو اگر الیکشن بخیر و خوبی ہو جاتے ہیں تو اس کے بعد یہ بحث چھڑے گی کہ نتائج کتنے متوقع یا غیر متوقع ہیں، نئے لاڈلے کو اس لاڈ پیار کے دراصل کتنے فوائد اور کیا نقصانات حاصل ہوں گے۔ کس کس جماعت سے سوتیلی اولاد کا سا سلوک ہوا اور ہوگا۔ انتخابی نتائج کی اخلاقی حیثیت کیا ہے۔ کون کس کے ساتھ مل کے ممکنہ حکومت سازی کر سکتا ہے اور نئی حکومت پر آسیب کا سایہ کتنا کم یا زیادہ رہے گا۔
البتہ اس وقت تو یہ دیکھا جانا چاہیے کہ کون سی جماعت بھلے کتنی بھی بڑی یا چھوٹی ہو، آیا اس نے کوئی منشور پیش کیا ؟ کیا اس منشور میں بھی چاند تارے توڑ کر ووٹر کی جھولی میں ڈالنے کے لیے جو سپنے دکھائے گئے ہیں، وہ محض باتوں کے خربوزے ہیں یا ان وعدوں پر عمل درآمد کے پیچھے کوئی قابلِ عمل پالیسی کا عکس بھی لرز رہا ہے۔
اور کیا منشور کے نام پر محض یہ لکھا ہے کہ ہم اتنے لاکھ لوگوں کو روزگار ، اتنے کروڑ بے گھروں کو چھت اور اتنے لاکھ اسکول سے باہر رہ جانے والے بچوں کو تعلیم دیں گے، اتنے کروڑ لوگوں کو مفت طبی سہولیات دیں گے ، تنخواہوں میں اتنا اضافہ کریں گے اور مہنگائی میں اتنے فیصد کمی لائیں گے۔۔
معیشت کے فلاں فلاں سیکٹر کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے یہ کریں گے، وہ کریں گے ۔ یا پھر منشور میں یہ بھی سمجھایا گیا ہے کہ ان وعدوں کی تعبیر کے لیے پیسہ کہاں سے آئے گا؟ یہ کس قدر قابلِ عمل ہیں، ان کی تکمیل کی ٹائم لائن کیا ہوگی وغیرہ وغیرہ۔
اگر وعدے کسی قابلِ عمل خاکے کے بغیر ہیں تو سمجھ لیجے یہ منشور نہیں، مداری کے ہاتھ میں ڈگڈگی ہے، جس کا مقصد بس ووٹر کا منورنجن ہے۔
اب تک کی انتخابی تقاریر میں تیر سے شیر کا شکار کرنے اور شیر ایک واری فیر کے سوا آپ کو شاید ہی کچھ پریکٹیکل بات ملے۔ دوسرا ’’ووٹ پکڑ‘‘ موضوع یہ ملے گا کہ میں نے اس ملک کے لیے کیا کیا اور اس کے عوض مجھے کس کس طرح الزامات میں انتقام اور سزا کا نشانہ بنایا گیا وغیرہ وغیرہ۔
جو جماعتیں اب تک اقتدار میں نہیں آئیں، وہ اپنے منشور میں اگر دعویٰ کریں کہ جیتنے کی صورت میں وہ ملک کی قسمت پلٹ دیں گی تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ انہیں ہر صورت میں ووٹ چاہئیں۔۔ مگر جو جو پارٹیاں گزشتہ نصف صدی میں چار چار بار صوبائی یا مرکزی سطح پر اقتدار میں رہ چکی ہیں، وہ اگر یہ کہیں کہ اس بار اگر ووٹر نے ان پر اعتماد کا اظہار کیا تو وہ دودھ اور شہد ٹکے سیر کروا دیں گی تو یہ سوچ کر عجیب سا نہیں لگنا چاہیے کہ پچھلے تین چار بار بھی آپ نے یہی سوگند کھائی تھی، تب کس بوتے پر سبز باغ دکھلائے تھے اور اگر وہ باغ کسی نہ کسی سبب اجڑ گیا تو اس بار آپ کے ہاتھ کون سی ایسی گیدڑ سنگھی آ گئی ہے، جو گزشتہ باریوں میں میسر نہ تھی۔
میری یادداشت میں منشور کی بنیاد پر لگائے جانے والے پرکشش نعروں کی بنا پر جو ووٹ پڑا، وہ محض انیس سو ستر کے الیکشن میں پڑا۔ تب شاید سیاسی جماعتوں کو بھی مکمل اندازہ نہ تھا کہ وعدوں کی تعبیر کی راہ میں عملی مشکلات کیا ہیں اور ووٹر کو بھی پہلی بار موقع مل رہا تھا، لہٰذا اس کے پاس ہر طرح کے وعدوں کی عملیت اور افسانویت پرکھنے کی کوئی کسوٹی نہ تھی۔ وہ تو بس اپنا بنیادی حق استعمال کرنے کی عاجلانہ سرشاری میں تھا۔
مگر ستر کے بعد جو بھی انتخابات ہوئے، ان میں تازہ یا گزشتہ منشوری وعدوں کی پرکھ پر نہیں بلکہ ’’ساڈا بابا اتے رہنا چاہیدا اے“ کی بنیاد پر ووٹ پڑے۔ ذات، برادری، مقامی اثر و رسوخ، پیسہ، بادشاہ گروں سے امیدوار کی ممکنہ قربت اور فوری مقامی فائدوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ووٹ مانگنے اور ڈالنے کا چلن راسخ ہوتا چلا گیا۔
شاید اس ریاست کے اصل مالکان کا ہدف بھی یہی تھا کہ ایک بنیادی جمہوری مشق (انتخابات) کا معیار بلند ہونے کے بجائے نان ٹکی اور بریانی کے وعدے کی سطح تک آ جائے، تاکہ گڈریا آسانی سے بھیڑوں کو مینیج کر سکے۔الحمداللہ اس پروجیکٹ میں بہت حد تک کامیابی حاصل ہو چکی ہے۔
خود سیاسی جماعتوں کو منشور سازی اور اس کی قابلِ عمل تشریح سے کس قدر دلچسپی ہے؟ اس کا جائزہ دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات میں جاری ہونے والے منشوروں کو پڑھ کے لیا جا سکتا ہے اور اس آئینے میں اگلے انتخابات سے ابھرنے والی وعدہ گیر تصویر کے خد و خال دیکھے جا سکتے ہیں۔
پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (پائیڈ) نے دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات میں پارٹی منشوروں کا تقابلی جائزہ لے کے اندازہ لگانے کی کوشش کی کہ کون کون سا وعدہ حقیقی، ٹھوس اور قابلِ عمل ہے۔
لوکل گورنمنٹ، پارلیمنٹ، پولیس، ٹیکسیشن، قرضہ، ترقیاتی منصوبے، زراعت، توانائی، رئیل اسٹیٹ، تجارت اور ڈیجیٹل پالیسی سمیت سترہ کلیدی شعبوں میں ممکنہ اصلاحات کے تعلق سے تین جماعتوں (پی ٹی آئی، مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی) کے انتخابی پروگرام کے جائزے سے یہ بات سامنے آئی کہ جو جو بھی وعدے کیے گئے، ان میں سے محض بیس فیصد کے بارے میں شبہ کیا جا سکتا تھا کہ انھیں جزوی یا کلی طور پر عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے۔ عوامی اہمیت کے زیادہ تر شعبوں پر سرے سے بات ہی نہیں ہوئی یا ہوئی بھی تو نہایت سطحی نوعیت کی۔
قومی سطح پر جو بھی تین یا چار جماعتیں اس وقت آدھی پونی انتخابی مہم چلا رہی ہیں، اس میں ذاتیات کے باب میں تو بہت کچھ مل جائے گا مگر اس بابت شاید ہی کسی جلسے میں کھل کے بات ہوئی ہو کہ پرائمری اور سیکنڈری تعلیم کے حصول کی عمر میں اسکول سے باہر رہ جانے والے دو کروڑ بچوں کا کیا کرنا ہے؟ غذائی عدم تحفظ اور آسمان گیر قیمتوں کے سبب ناکافی غدائیت سے جوج رہی سینتیس فیصد آبادی کا پیٹ بھرنے کا قابلِ عمل و عزت دار راستہ کیا ہے؟ جان و مال و آبرو کے تحفظ کے لیے پہلے سے موجود بہترین قوانین کو کس طریقے سے لاگو کیا جائے گا؟ اسپتالی مریضوں کے اژدھام کو کون سی پریکٹیکل پالیسی اپنا کے کم کیا جائے گا؟ روزگار کی مارکیٹ میں ہر برس شامل ہونے والے پچاس لاکھ سے اوپر نوجوانوں کو کیسے کھپایا جائے گا وغیرہ وغیرہ۔
سانڈے کا تیل جدی پشتی بیچنے والے اس بار بھی اپنے فن کا مظاہرہ کر رہے ہیں، لیکن کیا انہماک سے تماشا دیکھنے والے بھی تیل فروش سے یہ پوچھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں کہ تیرے پاس اس کے علاوہ بھی کچھ اور ہے ہمیں بتانے اور دکھانے کے لیے؟
بشکریہ ایکسپریس نیوز
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)