کراچی کے کچھ قصے، کچھ کہانیاں

امر جلیل

تاریخ میں کئی ممالک سے وابستہ حکایتیں، شکایتیں، حماقتیں، تقریباً ایک جیسی لگتی ہیں۔ حالانکہ تہذیبی، تمدنی اور ثقافتی طور پر ایسے ممالک ایک دوسرے سے الگ ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے ہم مفتوح ملک کا حلیہ بگاڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ مفتوح کے معنی تو جانتے ہیں نا آپ؟ یہ بات اس لیے پوچھی ہے میں نے آپ سے کہ اس سے پہلے میں لفظ مفتوح سے نابلد تھا۔ تیر تکے سے کام چلانے کی عادت پڑی ہوئی ہے۔کبھی کبھار کوئی دانشور مل جائے تو اس سے استفادہ کر لیتا ہوں۔ میں نے ایک درویش سے سنا ہے کہ مفتوح کا مطلب ہے فتح کرنا۔۔ ہم جب کوئی ملک فتح کرلیتے ہیں تب سب سے پہلے انجانے میں اس مفتوح ملک کی تاریخ کا ستیا ناس کر دیتے ہیں۔ مفتوح ملک میں ہم بڑے بڑے سماجی، ثقافتی اور تہذیبی کام کر کے دنیا کو دکھا رہے ہوتے ہیں، مگر دانستہ نا دانستہ ہم مفتوح ملک کی تاریخ کا ستیاناس کر رہے ہوتے ہیں۔۔

کہنے والے کہتے ہیں کہ مفتوح ملک کی تاریخ کو مسخ کرنے کے لیے فاتح مفتوح ملک کی تاریخ پھر سے، اپنی نظرداری میں نہیں لکھواتے۔ فاتح بغیر کسی روک ٹوک کے مفتوح ملک کی شناخت، مفتوح ملک کی پہچان اس سےچھین لیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم ان کے باغ باغیچے، روڈ راستے، عمارتیں اور یادگار غائب کر دیتے ہیں۔ سب کچھ اپنی جگہ قائم اور دائم ہوتا ہے، البتہ کچھ یادگار عمارتیں ڈھا کر یعنی گرا کر ہم ان کی جگہ کچھ نیا بنا لیتے ہیں۔ جیسے کراچی میں ہم نے پیلس ہوٹل نام کی نہایت دیدہ زیب عمارت، ماربل سے بنی ہوئی، گرادی، مسمار کر دی۔ اس جگہ پر بھدی سی ہوٹل کی عمارت بنی۔ اس عمارت کو مختلف ناموں سے آج تک ہوٹل کے طور پر چلایا جا رہا ہے۔ جس نے بھی پیلس ہوٹل دیکھا تھا، اس کی جگہ بجری لوہے اور کنکریٹ کے بلاکوں سے بنی ہوئی ڈراؤنی بلڈنگ دیکھ کر اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آتا۔ پیلس ہوٹل کی عمارت اتنی ہی خوبصورت تھی جتنی کہ موہٹا پیلس، ہندو جیم خانہ، ڈی جے سائنس کالج اور میونسپل کارپوریشن کی عمارتیں خوبصورت اور عالیشان ہیں۔

ہمیں عادت ہے مفتوح ملک کی وضع دار، جاذب اور پُرکشش عمارتوں کو مسمار کرنے کی۔۔ انیس سو سینتالیس میں جتنے بھی آثار قدیمہ کے مقام ملے تھے، انہیں سنبھالنے اور ان کی حفاظت کرنے کی بجائے ان کے ساتھ ناروا سلوک کیا۔ کئی ایک لاجواب آثار قدیمہ کے مقامات ہم نے اپنی لاپروائی سے صفحہ ہستی سے مٹا دیے۔ آپ موہن جو دڑو دیکھنے جائیں۔ یونیسکو کی حفاظت میں آئے ہوئے موہن جو دڑو کی دیکھ بھال کرنے کے لیے پاکستان سرکار کو کروڑوں ڈالر ملتے ہیں۔، موہن جو دڑو کی حالت غیر ہوتی جا رہی ہے۔ دیدہ دلیری سے نوجوان موہن جو دڑو میں موٹر سائیکلیں بھگاتے رہتے ہیں۔ نشہ خور گوشہ نشینی میں پڑے ہوئے ہوتے ہیں، جرائم پیشہ پناہ لیتے ہیں۔ کسمپرسی میں پڑے ہوئے موہن جو دڑو میں سیاح شاذونادر ہی دکھائی دیتے ہیں۔ ایک سال میں موہن جو دڑو کو دیکھنے کے لیے آنے والے سیاحوں کی تعداد اگر دنیا کو پتہ چل جائے تو ہمارا سر خودبخود شرم سے جھک جائے گا۔ یاد ہے نا آپ کو کہ موہن جو دڑو کا شمار دنیا کے قدیم ترین آثار قدیمہ میں ہوتا ہے؟ دنیا بھر میں یونیسکو کی حفاظت میں آئے ہوئے دیگر ممالک میں واقع آثار قدیمہ کی حفاظت اور وہاں آنے والے لاکھوں سیاحوں کی ویڈیو ڈاکیومنٹریز دیکھ کر ہمیں چھپنے کی جگہ نہیں ملتی۔

پنجاب میں آثار قدیمہ کی بڑی دیکھ بھال اور حفاظت کی جاتی ہے۔ حفاظت کے نام پر حکومت پنجاب بجٹ کی بھاری رقم آثار قدیمہ کی حفاظت پر خرچ تو کرتی ہے، مگر آثار قدیمہ کے لیے مروجہ اصولوں کی دھجیاں اڑادی جاتی ہیں۔ وہاں آثار قدیمہ کی رینوویشن یعنی تجدید، مرمت کی جاتی ہے۔ ہوبہو ویسی کی ویسی ٹائلیں اینٹیں وغیرہ بنوا کر اصلی ٹائیلوں اور اینٹوں کے ساتھ لگا دی جاتی ہیں۔ آثار قدیمہ کے ماہر اس حرکت کی اجازت نہیں دیتے۔ اگر اٹلی میں صدیوں پرانا پساکا ٹیڑھا مینار پاکستان میں ہوتا تو ہم کب کا ٹیڑھے مینار کو گرا کر اس کی جگہ نیا مینار بنا چکے ہوتے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ پیسا کا ٹیڑھے مینار کو گرا کر ہم اس کی جگہ کثیرالمنزلہ فائیو اسٹار ہوٹل بنا چکے ہوتے۔ تاریخ کا حلیہ بگاڑنے میں ہم اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ ہمارے دیرینہ دشمن بھی اس کام میں بڑے ماہر ہیں، مگر ہم سے بہت کم ماہر ہیں۔

کراچی میں قدیم ’آرام باغ‘ کے نام سے گاڑی کھاتے ہیں، فریئر روڈ پر آرام باغ کے نام سے پبلک پارک ہوا کرتا تھا۔ ہم نے لفظ ’رام‘ کے آگے یعنی رام کے سرے پر الف مد آ کا اضافہ کیا اور ’رام باغ‘ کو ’آرام باغ‘ بنا دیا ۔ہمارا دیرینہ دشمن بھلا ہم سے پیچھے کیسے رہ سکتا تھا۔ لکھنؤ میں مغلوں نے ایک خوبصورت پارک کہیں یا باغیچہ یا باغیچہ بنوایا تھا۔ اس باغیچہ کا نام تھا ’آرام باغ‘۔ ہم نے رام باغ کو الف مد آ لگاکر آرام باغ بنادیا۔ دیکھا دیکھی کچھ عرصہ بعد ہمارے دیرینہ دشمن نے آرام باغ کے نام سے الف مد آ حذف کر دیا، یعنی نکال دیا۔ آرام باغ بن گیا رام باغ۔ ہم نے بنادیا تھا رام باغ کو آرام باغ۔یہ کام ہم نے کراچی میں کر کے دکھا دیا تھا۔ ہمارے دیرینہ دشمن نے لکھنؤ میں آرام باغ کو رام باغ بنا دیا۔ اس ہاتھ دے، اس ہاتھ لے۔ تاریخ سے کھلواڑ کرنے کے قصے یونہی چلتے رہیں گے۔ اس مقدس فریضہ میں ہم سے بھیانک بھول چوک بھی ہوجاتی ہے۔ ان کا بھی ذکر کتھائوں میں آتا رہے گا۔

بشکریہ روزنامہ جنگ
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close