فیڈل کاسٹرو کی مشہور تقریر کی تلخیص اور ترجمہ

ڈاکٹر خالد سہیل

خواتین و حضرات!

ہم انسانی ارتقا کے ایسے نازک موڑ پر کھڑے ہیں، جہاں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ انسانی تاریخ میں نہ تو کبھی انسانوں نے سائنس اور ٹیکنالوجی میں اتنی زیادہ ترقی کی تھی اور نہ ہی وہ اتنی تیزی سے تنزل کی طرف رواں دواں تھے۔۔ نہ تو ان میں اتنی دولت اور خوشحالی پیدا کرنے کی صلاحیت تھی اور نہ ہی وہ اتنی غربت اور بدحالی کا شکار تھے۔۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ امیر اور غریب ممالک کے درمیان بُعد دن بدن بڑھتا جا رہا ہے، امیر ممالک امیر تر اور غریب ممالک غریب تر ہوتے جا رہے ہیں۔

بین الاقوامی طور پر ہم ایک عجیب تضاد کا شکار ہیں۔ جہاں مواصلاتی نظام کی ترقی کی وجہ سے ساری دنیا سکڑتی جا رہی ہے۔ وہیں ترقی یافتہ ممالک اور زوال پذیر ممالک میں فاصلے بڑھتے جا رہے ہیں۔

گلوبلائزیشن کی عالمی معیشت اب ایک حقیقت بن چکی ہے۔۔ اور اب ہم سب ایک ہی کشتی میں سوار ہیں۔۔ لیکن اس کشتی کے مختلف مسافر مختلف طبقوں اور مختلف حالات میں سفر کر رہے ہیں۔ ان مسافروں کی اقلیت آرام دہ کیبنوں میں سفر کر رہی ہے، جہاں اسے انٹرنیٹ اور سیل فون کی سہولتیں میسر ہیں اور ساری دنیا سے رابطہ قائم رکھ سکتی ہے۔ اس کے پاس اعلیٰ خوراک اور صاف پانی کی بہتات ہے۔ اسے علاج کی سہولتیں بھی میسر ہیں اور وہ مختلف ثقافتوں کے فنونِ لطیفہ سے بھی محظوظ ہو سکتی ہے۔

اس کے مقابلے میں مسافروں کی اکثریت کی حالت ناگفتہ بہ ہے، کہ وہ ہمیں ان لوگوں کی یاد دلاتی ہے، جو افریقہ سے غلام بنا کر کشتیوں اور جہازوں میں لاد کر شمالی امریکہ لائے گئے تھے۔ اس اکثریت کی تعداد 85 فیصد ہے۔ ان مسافروں کے کیبن غلیظ ہیں اور انہیں بھوک، بیماری اور نا امیدی کا سامنا ہے۔

اس کشتی میں نا انصافیوں کا بوجھ اتنا زیادہ ہے کہ اس کا سمندر کی سطح پر تیرتے رہنا اور ساحل تک پہنچنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ خطرہ یہ ہے کہ وہ کسی آئس برگ سے ٹکرائے گی اور سب مسافر ڈوب جائیں گے۔ خوشحال اور مفلوک الحال بھی۔۔

آج یہاں جن لوگوں کے سربراہ جمع ہوئے ہیں، وہ پسماندہ اکثریت کے نمائندے ہیں۔ ان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس نا انصافی کے خاتمے کی کوشش کریں۔ ہم سب کا یہ فرض ہے کہ پوری سعی کریں کہ تمام مسافروں کو بنیادی حقوق اور مراعات حاصل ہوں اور وہ امن، سکون، انصاف اور برابری کی زندگی گزار سکیں۔

پچھلی دو دہائیوں سے تیسری دنیا کے عوام پہلی دنیا سے ایک ہی پیغام سن رہے ہیں، جس میں کہا جاتا ہے کہ وہ قومی ملکیت افراد اور پرائیویٹ کمپنیوں کو دے رہے ہیں اور یہی ان کی کامیابی کا ضامن ہے۔

امیر ممالک نے، جن میں امریکہ سرِ فہرست ہے، غریب ممالک کے لیے آئی ایم ایف قائم کر رکھا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ ادارہ غریب ممالک کے معاشی مسائل کم کرنے کی بجائے بڑھاتا جا رہا ہے۔

گلوبلائزیشن، نیولبرل ازم کی دَین ہے، جس کی وجہ سے ترقی کی بجائے غربت ساری دنیا میں پھیل رہی ہے اور غریب ممالک کی عزت نفس بڑھنے کی بجائے کم ہو رہی ہے۔ اس نام نہاد گلوبلائزیشن کی وجہ سے دنیا مزید تنزلی کی طرف بڑھ رہی ہے اور ہم سب معاشی اور سماجی مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔

یہ تیسری دنیا کے سیاستدانوں اور سیاسی رہنماؤں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی عوام کو نیولبرل ازم کے عذاب سے بچائیں اور تباہی کی طرف جاتے ہوئے راستے سے ہٹائیں۔ لاطینی امریکہ کو نیولبرل ازم کی پالیسیوں نے بہت نقصان پہنچایا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد ہم پر کوئی قرض نہ تھا لیکن اب ان پالیسیوں کی وجہ سے ہم ایک ٹریلین ڈالروں کے مقروض ہیں۔ اب لاطینی امریکہ میں غریب، بے روزگار اور بھوکے اتنے بڑھ گئے ہیں کہ تاریخ میں پہلے کبھی اتنے نہ تھے۔

نیولبرل ازم کا دعویٰ ہے کہ اس کی پالیسیوں کی وجہ سے دنیا معاشی طور پر ترقی کر رہی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ امیر شمال اور غریب جنوب کے درمیان فاصلہ بڑھتا جا رہا ہے۔ غریب ممالک مزید بے اطمینانی اور عدم تحفظ کا شکار ہو رہے ہیں اور عالمی صورت حال کسی بھی وقت بحران کا شکار ہو سکتی ہے۔ غریب ممالک سے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے کاروباری امور کی کارروائی نہ چھپائیں لیکن امیر ممالک اپنے فیصلوں کی نہ تو تفاصیل بتاتے ہیں اور نہ ہی وجوہات۔

اس وقت دنیا کے بڑے بڑے بینکوں کا سات سو ستائیس بلین ڈالر کا سرمایہ امریکہ میں موجود ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ غریب ممالک کی ایک بڑی رقم امریکہ جیسے امیر ملک کی تجوری میں پڑی ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اس دولت سے غریب ممالک کے عوام کے بہت سے سماجی اور معاشی مسائل کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔

کیوبا نے اپنی آزادی کے بعد اپنی توجہ تعلیم، صحت، ثقافت اور سائنس پر صرف کی اور ایسی ترقی کی، جس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ یہ علیحدہ بات کہ ہماری مدد کرنے سے بہت سے سرمایہ دار ممالک نے انکار کر دیا۔ ہماری کامیابی کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہم آئی ایم ایف سے قطعِ تعلق رہے۔ اس ادارے سے درپردہ غریب ممالک کی دولت سے امیر ممالک کی مدد کی جاتی ہے۔

آئی ایم ایف کی کارکردگی کا ایک سنگین مسئلہ یہ ہے کہ اس کے فیصلوں میں امریکہ ویٹو پاور استعمال کرتا ہے۔ اس ادارے کی وجہ سے بہت سے غریب ممالک کی معاشی اور معاشرتی ترقی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ تیسری دنیا کے رہنماؤں کو چاہیے کہ اس ادارے سے قطعِ تعلق کر لیں، جس سے انہیں فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہو رہا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اس ادارے کے نمائندے امریکہ کے ہاتھ میں کٹھ پتلی ہیں۔ جب اس ادارے کی دخل اندازی کی وجہ سے غریب ممالک بحران کا شکار ہوتے ہیں، جیسے انڈونیشیا اور ایکواڈور ہوئے، تو اس کی ذمہ داری کون لیتا ہے۔

ہمیں ایک ایسے بین الاقوامی ادارے کی ضرورت ہے، جس میں کسی ملک کو ویٹو کر طاقت استعمال کرنے کا اختیار حاصل نہ ہو اور وہ صرف سرمایہ دار ممالک کے حقوق کا ہی تحفظ نہ کرے، بلکہ غریب ممالک کے حقوق کا بھی خیال رکھے۔

آئی ایم ایف کی وجہ سے غریب ممالک کا قرض کم ہونے کی بجائے بڑھتا جا رہا ہے۔ جب امریکہ سود کی شرح بڑھاتا ہے تو غریب ممالک غریب تر ہو جاتے ہیں اور انہیں سود ادا کرنے کے لیے مزید قرض لینا پڑتا ہے۔ اس طرح ان کی حالت بہتر ہونے کی بجائے مزید بدتر ہوجاتی ہے۔

اب ہمیں اندازہ ہو گیا ہے کہ غریب ممالک کا قرض معاشی مسئلے سے زیادہ سیاسی مسئلہ بن چکا ہے۔ جس کا ہمیں مل کر ایک سیاسی حل تلاش کرنا ہوگا۔ وہ قرض ایک بم بن چکا ہے، جو ایک دن پھٹ کر غریب ممالک کی معیشت اور ترقی کو تباہ و برباد کر سکتا ہے۔

یہ سیاسی مسئلہ کیسے حل ہو سکتا ہے، اگر امیر ممالک ہر سال جنگ، اسلحہ اور فوج پر آٹھ سو ملین ڈالر اور منشیات پر چار سو ملین ڈالر خرچ کرنے کی بجائے اس رقم سے غریب ممالک کی مدد کا فیصلہ کریں تو بہت سے مسائل کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے، اور وہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتے ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ تیسری دنیا کا قرض حد سے بڑھ چکا ہے اور پانی سر سے گزر چکا ہے، امیر ممالک نے نیولبرل ازم کا سہارا لے کر عالمی تجارت سے غریب ممالک کو محکوم کر رکھا ہے، جس سے ظلم، ستم اور نا انصافی بڑھتی جا رہی ہے۔

امیر ممالک غریب ممالک سے کاروبار کی پابندیاں ختم کرنا چاہتے ہیں لیکن ان پابندیوں کو ختم کرنے سے امیر ممالک کو زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔

امیر ممالک غریب ممالک کی چیزیں نہیں خریدتے لیکن اپنی چیزیں بڑے منافع سے بیچتے ہیں۔ اسی طرح او ای سی ڈی کے ممالک سے خرید و فروخت کے وقت اپنے ممبران ممالک سے چار گنا زیادہ محصول وصول کرتے ہیں۔ یہ ایک منافقانہ رویہ ہے، جس کی وجہ سے غریب ممالک کو اپنی چینی، کوکو، اور کوفی بیچنے میں دقت ہوتی ہے۔

سئیٹل کی میٹنگ میں امریکہ نے ایک دفعہ پھر غریب ممالک پر مزید پابندیاں عائد کرنے کی کوشش کی، لیکن غریب ممالک نے نیولبرل ازم کے خلاف احتجاج کیا۔ اس احتجاج سے واضح ہو گیا کہ امریکہ کے سرمایہ دارانہ نظام میں شدت پسندی بڑھ رہی ہے۔ اس موجودہ بحران میں تیل کی خریدوفروخت بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ساری دنیا کا اسی فیصد تیل تیسری دنیا میں پیدا ہوتا ہے۔ لیکن اس تیل کا اسی فیصد پہلی دنیا میں استعمال ہوتا ہے۔ تیل کی قیمت کم رکھی جاتی ہے تاکہ امیر ممالک کو فائدہ ہو

تیسری دنیا کے ممالک کو متحد ہو کر ایسا نظام قائم کرنا چاہیے کہ غریب ممالک بقدر استطاعت دس سے بیس ڈالر فی بیرل لیکن امیر ممالک تیس ڈالر فی بیرل خریدیں۔ تیسری دنیا کے ممالک کو ایک دوسرے سے تعاون کرنا چاہیے۔

ساری دنیا کو تعلیم، سائنس اور ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے۔ جب سائنس اور ٹیکنالوجی کا کنٹرول افراد اور پرائیویٹ کمپنیوں کے ہاتھوں میں چلا جاتا ہے تو عوام کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ پرائیویٹ کمپنیاں اکثر اوقات عوام کی بجائے مخصوص گروہوں کے مفادات کو فوقیت دیتی ہیں۔ اس کی ایک مثال ویکسینز جو ایک دفعہ استعمال ہوتی ہیں اور ساری عمر فائدہ پہنچاتی ہیں ) کی بجائے ایسی ادویہ بنانا ہے جو بار بار استعمال ہوتی ہیں۔ ان سے کمپنیوں کو زیادہ منافع ہوتا ہے۔ ایسی ادویہ اکثر اوقات غریب ممالک کے عوام خرید بھی نہیں سکتے۔

یہ نیو لبرل ازم اور گلوبئزیشن کا ہی نتیجہ ہے کہ آج کی دنیا میں آٹھ سو بیس ملین لوگ بھوک اور بری صحت سے متاثر ہیں جن میں سات سو نوے ملین تیسری دنیا میں رہتے ہیں۔ اور ان میں سے پانچ سو سات ملین لوگ اپنی چالیسویں سالگرہ سے پہلے مر جائیں گے۔

تیسری دنیا کے عوام کے جو رہنما یہاں موجود ہیں انہیں اندازہ ہے کہ ان کے ممالک میں پانچ میں سے دو بچے خوراک کی کمی کی وجہ سے کمزور اور لاغر ہیں ان ممالک میں ہر روز تیس ہزار ایسے بچے مر رہے ہیں، جن کی جان بچائی جا سکتی ہے۔ ان ممالک میں:
دو ملین لڑکیاں طوائف بننے پر مجبور ہیں۔
ایک سو تیس ملین بچے پرائمری سکول کی تعلیم سے محروم ہیں
اور تین سو پچاس ملین لڑکے اور لڑکیاں، جن کی عمر پندرہ سال سے کم ہے، مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔

مختصر یہ کہ دنیا کے بیس فیصد لوگ خوشحال اور صحتمند ہیں اور اَسی فیصد لوگ خستہ حال اور زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم ہیں، ان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان مسائل کا حقیقت پسندانہ حل سوچیں اور متحد ہوجائیں۔

آج سے پچاس سال پہلے ہم سے امیر ممالک نے وعدہ کیا تھا کہ وہ امیروں اور غریبوں کے درمیان سماجی اور معاشی فاصلوں کو کم کریں گے، جس سے خوراک زیادہ ہوگی اور نا انصافی کم لیکن اب خوراک کم اور نا انصافی زیادہ ہو چکی ہے۔

جب ہم افریقہ کے غریب بچوں اور پریشان ماؤں کو دیکھتے ہیں تو ہمیں نازی جرمنی کے کیمپ اور ان کیمپوں میں ہونے والے مظالم یاد آتے ہیں جن میں معصوم مردوں، عورتوں اور بچوں کی لاشیں ملتی تھیں۔ ان مظالم کی تحقیق کے لیے نیورمبرگ قائم کی گئی تھی۔ اب ہمیں بھی ایک ایسی عدالت کی ضرورت ہے جو آج کے غیر منصفانہ معاشی نظام کو کٹہرے میں لا کھڑا کرے کیونکہ اس نظام کی وجہ سے ہر روز معصوم اور مظلوم عوام مر رہے ہیں۔ اس ظلم کی انتہا یہ ہے کہ تین سالوں میں اتنے مرد، عورتیں اور بچے بھوک اور بیماری سے مرے ہیں جتنے دوسری جنگ عظیم کے چھ سالوں میں مرے تھے۔

اب ان مسائل کا حل تلاش کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ کیوبا میں ایک ضرب المثل مشہور ہے
”یا اپنے ممالک کا خیال رکھو یا موت کے لیے تیار ہو جاؤ“
میں غریب ممالک کے رہنماؤں کو یہی آخری پیغام دینا چاہتا ہوں۔

بشکریہ ہم سب و مصنف
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close