تاریخ میں بادشاہوں، آمروں اور مذہبی حکومتوں کا یہ رویّہ رہا ہے کہ اپنے مخالفین کو سخت اورعبرت ناک سزائیں دیں تا کہ کسی کو اُن کے خلاف بغاوت کرنے یا سازش کرنے کی جرأت نہ ہو۔ اِستبدادی حکومتوں کا یہ دستور رہا ہے کہ اپنی رعایا میں خوف اور دہشت پیدا کیے رکھیں تا کہ وہ اُن کے وفادار رہیں۔
وقت کے ساتھ ساتھ اَذیتوں کے نئے نئے طریقے دریافت کیے گئے۔ کیتھولِک چرچ اِنکیوزیشن کے ذریعے مذہب کے مُنحرفین کو سخت اَذیتیں دیتا تھا تاکہ وہ اقبالِ جرم کر لیں۔ بطور سزا اُن کو زندہ جلا بھی دیا جاتا تھا۔ بادشاہوں میں سزاؤں کے دو طریقے تھے۔ ایک میں یہ سزائیں پبلک میں دیں جاتیں تھیں، مجرم کے ہاتھ پیر کاٹے جاتے تھے اور پھر اُسے پھانسی دی جاتی تھی۔ اُس کی لاش کئی کئی دن سولی پر لٹکتی رہتی تھی یا اسے جلا دیا جاتا تھا۔ دوسری صورت یہ ہوتی تھی کہ اُنہیں قید خانوں میں بند کر دیا جاتا تھا اور باہر کی دنیا سے اُن کے رابطے ختم کر دیے جاتے تھے۔ اکثر بادشاہوں کے قلعوں میں تہہ خانے (dungeon) ہوتے تھے، جن میں اُن کو قید کر دیا جاتا تھا اور پھر اُن کی کوئی دیکھ بھال نہیں ہوتی تھی۔ بہت کم ایسا ہوتا تھا کہ کسی کو معافی کے بعد رہائی مِل جاتی تھی ورنہ اکثر وہیں بھوک پیاس سے مر جاتے تھے۔
صد سالہ جنگ جو انگلینڈ اور فرانس کے درمیان ہوئی اور جو سن 1337 سے سن 1453 تک جاری رہی، اس دوران فرانس نے اپنے دفاع کے لیے کئی قلعے تعمیر کرائے اُن میں سے ایک بسٹیل Bastille کا قلعہ بھی تھا۔ بیسٹل نامی یہ قلعہ پیرس میں تعمیر کرایا گیا تھا۔ بعد میں اس قلعے کو بطور تہہ خانہ استعمال کیا گیا، جہاں حکومت مخالفوں کو بند کر دیا جاتا تھا۔ اس قلعے میں جو قیدیوں کی حالت ہوتی تھی، اُس کے بارے میں کئی دستاویزات ملی ہیں۔ یہ دستاویزات اُن قیدیوں سے متعلق ہیں جو یہاں سے رِہا ہوئے تھے۔
اِن تحریروں کے مطابق قلعے میں تہہ خانے تھے، جہاں قیدیوں کو رکھا جاتا تھا۔ یہ قیدی مرنے والوں کے ڈھانچوں کے درمیان رہتے تھے۔ وہاں چوہوں کی بھی ایک بڑی تعداد ہوتی تھی۔ کھانے میں روٹی اور ساتھ کچھ پانی دیا جاتا تھا۔ کچھ قیدی ایسے تھے، جو ایک حد تک اَذیتوں کو برداشت کرتے تھے اور پھر خودکُشی کر لیتے تھے۔ اس کے علاوہ کچھ کمرے بھی تھے، جہاں قیدیوں کو بند کر کے لوہے کے دروازوں کو مُقفل کر دیا جاتا تھا۔ ایک سزا یہ بھی تھی کہ مجرم کے چہرے پر لوہے کا ماسک چڑھا دیا جاتا تھا۔ صرف کھانے کے لیے مُنہ کو کھلا چھوڑا جاتا تھا۔ قلعے کے گورنر اور اُس کے حفاظتی دستے قیدیوں پر تشدّد کرتے تھے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ ایک تو ان میں فرار ہونے کا خیال پیدا نہ ہو دوسرے ان کی شخصیت کو اس قدر کُچل دیا جائے کہ وہ بے بس اور مایوس ہو جائیں۔
روشن خیالی کے دور میں سیاسی مخالفین کے علاوہ دانشوروں کو بھی یہاں قید میں رکھا جاتا تھا۔ والٹیئر Voltaire کو دو مرتبہ بسٹیل کے قلعے میں قید رکھا گیا۔ دوسری بار اُسے اِس وعدے پر رِہا کیا گیا کہ وہ پیرس چھوڑ دے گا اور جِلا وطنی کی زندگی گزارے گا۔ لہٰذا والٹیئر (1778) رہائی کے بعد انگلستان چلا گیا۔ ڈینسس دیدرو (1784) کو بھی ایک ناول لکھنے کے جرم میں بیسٹی میں قید رکھا گیا تھا۔
بسٹیل کے قلعے کی اس وقت شہرت ہوئی، جب 1789 میں فرانس میں انقلاب شروع ہوا۔ عوام میں بادشاہ اور اُمرا کے خلاف سخت غم و غصے کے جذبات پیدا ہوئے۔ نیشنل اسمبلی میں انقلابی راہنماؤں کی تقاریر نے لوگوں کو عملی اقدامات اُٹھانے پر مجبور کیا۔ عوام کے جذبات کا اظہار اُس وقت ہوا، جب 14 جولائی سن 1789 کو ایک مشتعل ہجوم نے بسٹیل کے قلعے پر حملہ کر دیا۔ اُس کے گورنر اور حفاظتی دستوں کو گرفتار کر کے قلعے کے تہہ خانوں اور کمروں میں مقید افراد کو رہا کرا دیا، یہ وہ قیدی تھے، جنہوں نے 30 اور 40 سال قید میں گزارے تھے۔ اس دوران انہوں نے سورج کی روشنی تک نہیں دیکھی تھی۔ مجمعے نے قلعے کے گورنر کا سر کاٹ کر اُسے نیزے کی نوک پر لٹکایا تو اس ماحول نے شہر کی فضا ہی بدل دی۔
دوسرے دن تقریباً پانچ ہزار لوگوں نے اس قلعے کو مسمار کرنا شروع کیا۔ اُن کے نزدیک یہ قلعہ ظلم ناانصافی اور استبداد کی علامت تھا۔ جس کو وہ مسمار کر کے انتقام لینا چاہتے تھے۔ قلعے کو مسمار کرنے کے بعد اس کی عمارت کے ٹکڑے فرانس کے دوسرے شہروں میں بھیجے گئے۔ جہاں لوگوں نے اُنہیں بطور یادگار استعمال کرتے ہوئے نئے اِنقلابی اقدامات کی حمایت کی۔ اس دوران جبکہ انقلاب آگے کی جانب بڑھا فرانس کے بادشاہ اور ملکہ کے سروں کو کاٹ دیا گیا۔ تو بسٹیل کا قلعہ اس انقلاب کی علامت بن گیا۔ اس نے پورے فرانس میں انقلابی جذبات کو اُبھارا۔ اُس کے بعد سے دَستور ہوگیا کہ ہر سال 14 جولائی کو بسٹیل کے قلعے کی فتح کو منایا جائے گا۔ اس موقع پر عوام جمع ہوتے ہیں، کھانے پینے کے علاوہ گانوں اور رقص کا اہتمام ہوتا ہے۔
بسٹیل کے قلعے کی فتح کی وجہ سے نہ صرف فرانس بلکہ دوسرے یورپی ملکوں کے عوام میں بھی انقلابی سوچ اور شعُور پیدا ہوا۔ اس لیے فرانس میں ہونے والے واقعات سے یورپی حکمراں خوف زدہ ہو گئے لیکن فرانسیسی عوام میں وہ زبردست انقلابی جذبہ تھا، جس کی وجہ سے اُنہوں نے یورپی حملہ آوروں سے اپنے وطن کا دفاع کیا۔
بسٹیل کے قلعے کی فتح اور فرانسیسی انقلاب نے یہ ثابت کر دیا کہ عوام ایک حد تک ہی حکمراں طبقے کی ناانصافیوں کو برداشت کرتے ہیں جبکہ حکمراں طبقے محض سزاؤں اور قید و بَند سے اُنہیں اپنا وفادار نہیں بنایا جا سکتا۔ جب عوامی طاقت اُبھرتی ہے تو اُن کے سامنے بُلند و بالا قلعے اور محلات بھی مسمار ہو کر گِر جاتے ہیں۔
(مزید تفصیل کے لیے Hans Jürgen Luse brink اور Rolf Reinhardt کی کتاب
"The Bastille” (A History of a Symbol of Despotism and Freedom)
بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)