برصغیر میں اب یہ احساس جاگ رہا ہے کہ تاریخ کے ورثے کو بچایا جائے، آنے والی نسلوں کے لیے وہ تمام نشانیاں چھوڑ دی جائیں جو بعد میں مشعل بن کر ان کی راہوں میں نور پھیلائیں، مگر یہ احساس کی تہہ میں کتنے ہی درد اور کتنے ہی کرب چھپے ہوئے ہیں۔ یہ گزری صدیوں کی نہیں حالیہ برسوں کی بات کی ہے، جب اعلیٰ روایات اور تہذیب کے اسی گہوارے میں اور اسی سر زمین میں نہ معلوم کتنی دستاویزیں مٹی میں اور نہ جانے کتنے کتب خانے خاک میں ملے ہیں۔
یہاں ہم علم کے ان سفینوں کی باتیں کریں گے، جو بے خبری کے ساحلوں سے چلے اور قدر شناسی کے محفوظ کناروں پر جا لگے اور علم کے ان قافلوں کا ذکر بھی ہوگا، جو راہ میں دن دہاڑے لٹ گئے۔
ہم بات کریں گے اس موضوع پر کہ کہاں کہاں کیسی کیسی کتابیں محفوظ ہیں اور وہ کس حال میں ہیں اور کہاں کہاں علم و حکمت کے خزانے یوں گاڑے گئے کہ پھر کبھی انہیں دن کی روشنی دیکھنا نصیب نہ ہوئی۔
ہم گفتگو کریں گے برصغیر کے اہل علم حضرات سے، علم دوست حضرات سے ان سے جو ساری زندگی کتابوں کے درمیان گزارتے ہیں اور ان سے جن کے دل اور دماغ کے درمیان اب کتابوں کا بسیرا ہے۔
ہاں تو بات ہو رہی تھی دفن کیے جانے والےخزینوں کی۔۔
مشفق خواجہ ادب کے شیدائی ہیں، جس مکان میں رہتے ہیں، اس کے کمروں اور برآمدوں کی دیواریں نظر نہیں آتیں کیونکہ ان کے آگے کتابیں چنی ہیں۔ بتا رہے تھے کہ کتابوں کے ذخیرے کہاں کہاں ہیں۔ ’’بعض ذخیرے ایسے بھی ہیں جو بزرگوں کے مزاروں پر موجود ہیں۔ میرے سننے میں یہ آیا کہ جب کچھ عرصہ قبل حکومت نے مزاروں کو محکمہ اوقاف کے تحویل میں دے دیا تو وہاں جو لوگ تھے، انہوں نے مخطوطات کو زمین میں گاڑ دیا کہ حکومت ان پر قبضہ نہ کر لے۔ اب زمین میں گاڑے ہوئے مخطوطات کا حشر کیا ہوگا؟ میرا خیال ہے وہی ہونا چاہیے، جو آدمی کا ہوتا ہے۔‘‘
کتابوں کے دشمن صرف کیڑے مکوڑے ہی نہیں، کچھ اور بھی ہیں۔ جو پرانے گھرانے باپ دادا کے ورثے کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں، ان پر خوف کا عالم طاری ہے کیونکہ انہیں ستانے والوں کی کمی نہیں۔ مثلاً انسٹیٹیوٹ آف سندھالوجی جام شورو کے نگراں ڈاکٹر غلام علی الانا بتا رہے تھے کہ ٹھٹہ جیسے تاریخی علاقے کے گھرانوں سے اگر سیکڑوں نادر اور نایاب کتابیں اور خصوصاً قرآن، تفاسیر اور احادیث کے نسخے حاصل کر لیے گئے ہیں لیکن: ’’اب لوگ ایسی تاریخی کتابیں دکھاتے ہوئے گھبراتے ہیں، وہ ڈرتے ہیں کہ یہ ورثہ ان سے کوئی چھین نہ لے۔ ماضی میں بارہا یہ ہوا کہ کوئی ایسا ضلعی حاکم آیا، جسے تاریخی نوادر سے دلچسپی ہو گئی اور لوگوں کو مجبوراً یہ کتابیں دینا پڑیں۔ اس لیے یہ اپنی کتابیں دکھاتے ہوئے گھبراتے ہیں۔‘‘
اور کتنے ہی گھرانے ایسے ہیں، جہاں علم و حکمت کے موتی نسل در نسل چلے لیکن جوں ہی بزرگوں کی آنکھ بند ہوئی یہ موتی ادھر ادھر رل گئے اور ایسی ایسی کتابیں، دستاویزیں، نقشے اور فرمان جو ہماری تاریخ کی گمشدہ کڑیوں کا پتہ دیتے‘، آپ ہی گم ہو گئے۔
پروفیسر گوپی چند نارنگ اردو کے استاد ہیں اور ادب کے ہر تاریک اور روشن گوشے تک ان کی رسائی ہے، انہوں نے کتنے ہی کتب خانے بنتے دیکھے اور ان ہی کی آنکھوں نے کتنے ہی ذخیرے مٹتے دیکھے۔ انہوں نے کہا:
’’جو ذاتی ذخیرے ہیں، اب لوگ دبائے بیٹھے ہیں کہ صاحب یہ تو کروڑوں روپے کا سرمایہ ہے اور بڑی نادر چیزیں ہیں۔ اس میں کیا شک ہے کہ نادر ہیں لیکن جو آدمی اپنی تحویل میں لیے بیٹھا ہے، جب اس کی آنکھ بند ہو جاتی ہے تو اس کی اولاد اور اس کے ورثا نہیں جانتے کہ ان چیزوں کی کیا اہمیت ہے، چنانچہ ایسے بعض ذخیروں کا تالا ہی نہیں کھلتا، بکس ہی نہیں کھول کر دیکھے جاتے، یا لوگ چرا کر لے جاتے ہیں یا جو ورثا ان کی اہمیت کو نہیں جانتے وہ ان کو ردی کے بھاؤ بیچ دیتے ہیں اور اسی طرح بہت سے ایسے ذخیرے جو ملک کے دور دراز علاقوں میں نجی تحویل میں ہیں، وہ برباد ہو رہے ہیں اور ان کے ضائع ہونے کا شدید خطرہ ہے۔‘‘
جن لوگوں کو کتابوں سے عشق ہوتا ہے، جنگل اور دریا پھر ان کا راستہ نہیں روکتے۔ آندھرا پردیش کے نامور محقق ڈاکٹر ضیاءالدین احمد شکیب علم کی جستجو میں متھرا سے لے کر سیتا مئو تک کہاں کہاں نہیں گئے۔ جہاں خبر ملی کہ قدیم دستاویزوں کا ذخیرہ موجود ہے، ڈاکٹر صاحب وہاں ایک بار نہیں بار بار گئے۔ وہاں انہوں نے کیا دیکھا ’’میں نے بعض جگہ دیکھا کہ ایسی ایسی کتابیں ہیں جو بارہ سو اور تیرہ سو سال پرانی ہیں اور ایسی چھت کے نیچے ہیں جو ہر سال بارش میں ٹپکتی ہے۔۔ اور مالک یہ چاہتے ہیں کہ ان سے جدا نہ ہوں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ لاکھوں کی چیز ہے لیکن ان میں اتنی بھی استعداد نہیں کہ کسی بینک میں رکھوا دیں۔ ایسے بہت سے کتب خانے ہیں کہ جب ہم سال بھر کے بعد دوبارہ جاتے ہیں کہ ذرا دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ یا تو دیمک چاٹ گئی یا چوہوں نے کتر لیا، یا پانی لگ گیا یا کچھ جل گئے یا بچوں نے لا پروائی سے کہیں پھینک دیا۔ ایسے حادثے دن رات ہو رہے ہیں۔‘‘
اپنی اس گفتگو میں جب ہم مطبوعہ یعنی چھپی ہوئی اور مخطوطہ یعنی ہاتھ سے لکھی ہوئی کتابوں کے ذخیروں کی بات کریں گے تو پرانی کتابوں کے تاجروں کا ذکر بھی آئے گا۔ ایسے تاجروں کا بھی جنہوں نے علم کا اور تاریخ کا بیوپار کیا اور ایسے تاجروں کا بھی، جنہیں کتابوں کی تجارت کرتےکرتے ان سے جذباتی لگاؤ ہو گیا اور جنہوں نے بیل گاڑیوں اور چھکڑوں میں بھری ہوئی کتابیں کوڑیوں کے مول فروخت ہوتے دیکھیں، مثلاً حیدرآباد دکن کے علیم الدین، جنہوں نے کہا:
’’امیر پائیگاہ ظہیر یار جنگ کی مثال لیجیے۔ ان کا انتقال ہوا تو ان کی بیوہ نے ایک لاری بھر کر کتابوں کا ذخیرہ بیچ دیا اور یہاں سے ایران چلی گئی اور یہ لاری بھر ذخیرہ کوڑیوں کے دام، صرف اڑھائی ہزار میں دے گئیں۔ کم سے کم دو لاکھ تین لاکھ کی چیزیں تھیں۔ مجھے اتنا دکھ ہوا، اتنا دکھ ہوا کہ کھانا نہیں کھایا گیا۔ بالفاظِ دیگر۔۔‘‘
کتاب کا معاملہ بھی خوب ہے۔ کتاب اپنے قاری سے بیک وقت دو عشق طلب کرتی ہے، ایک تو خود کتاب کا عشق اور دوسرے علم کا عشق۔ یہ بات ہم بھی کہتے ہیں اور یہی بات اردو کے بزرگ شاعر اور خدمت گزار سکندر علی وجد نے بھی کہی، جنہوں نے برس ہا برس بابائے اردو مولوی عبدالحق کی رفاقت میں کام کیا اور گاؤں گاؤں قریہ قریہ جا کر پرانی کتابیں جمع کیں، کہنے لگے:
’’کتاب کے عشق کے بغیر کتاب محفوظ نہیں رہ سکتی۔ اب اس میں شک نہیں کہ ہماری کتابیں ملک سے باہر چلی جا رہی ہیں مگر مجھے کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ وہ بہتر ہے۔ اس لیے کہ وہاں انہیں بڑی احتیاط اور اہتمام سے محفوظ کیا جاتا ہے۔ فیومی گیشن ہوتا ہے، ایئر کنڈیشنڈ کمروں میں رکھا جاتا ہے۔ اب ہمارے پاس کتابوں میں نیم کے پتے رکھ دیتے ہیں، اس لیے اور کیڑے پیدا ہو جاتے ہیں۔ تو کتابوں کا معاملہ یہ ہے کہ ان کے ساتھ عشق چاہیے۔ ساتھ ہی ساتھ علم کا بھی عشق چاہیے مگر اب علم بھی نہیں ہے اور عشق بھی نہیں ہے۔ ہمارے گھروں میں ریڈیو ہے، ٹی وی ہے، سب کچھ ہے، لیکن کتاب نہیں ہے۔‘‘
اسلام آباد کی کانفرنس، پاکستان میں لائبریری آرڈیننس نافذ کرنے کی تجویز، دہلی میں دستاویزوں کے تحفظ کی تعلیم و تربیت اور کلکتہ میں ہر وہ کتاب جمع کرنے کی تگ و دو کہ جو کسی بھی چھاپے خانے سے نکلے، یہ سب ایک نئی امنگ کی پہلی پہلی علامتیں ہیں۔ حکومتیں، ادارے اور افراد اب بے عملی کی اندھیری کوٹھری سے آگہی اور دانش کے روشن دالان میں نکل آئے ہیں مگر یہ محض آغاز ہے ابھی بہت سا کام ہونا ہے، مریض کی تپتی ہوئی پیشانی پر ٹھنڈے پھاہے رکھنےکی ضرورت ابھی ختم نہیں ہوئی۔
اس گفتگو کو ہر گوپی چند نارنگ کی اس بات پر ختم کرتے ہیں:
’’بالعموم کتاب خانوں کی جو حالت ہے، چند ایک کو چھوڑ کر، وہ زیادہ اچھی نہیں کیونکہ ان سے استفادہ کرنے والے اب پہلے جیسے نہیں رہے۔ کہنے کو تو ہر شخص محقق ہو سکتا ہے اور ہونا بھی چاہتا ہے مگر اس کے لئے جس لگن کی ضرورت ہے، وہ لوگوں میں دن بہ دن کم ہوتی جا رہی ہے۔ اس طرف آپ جتنی بھی توجہ دلائیں، میں سمجھتا ہوں کہ یہ نہ صرف ایک طرح کی خدمت ہوگی بلکہ انتباہ بھی ہوگا اور قومی ذخیرے، خواہ کسی ملک کے ہوں، کسی قوم کےہوں، کسی معاشرے کے ہوں، کسی زبان کے ہوں وہ پوری بنی نوع انسان کی میراث ہیں اور ان کے تحفظ کے لئے جتنی بھی کوشش آپ کر سکیں اور اس سلسلے میں جتنی بھی بیداری آپ پیدا کر سکیں، میں سمجھتا ہوں کہ یہ بہت ہی مستحق اقدام ہو گا۔‘‘
(معروف لکھاری رضاعلی عابدی کی کتاب ’تیس سال بعد‘ سے ماخوذ)