کراچی کی کہانی

امر جلیل

ہمارے بزرگوں، بڑوں اور بوڑھوں نے فیصلہ کرلیا تھا کہ ایک مرتبہ پاکستان ہمیں مل جائے، اس کے بعد ہم انگریز سے گن گن کر اور چن چن کر بدلہ لیں گے۔ ہندوستان کی حکومت انگریز نے ہم سے چھینی تھی، ہندوؤں سے نہیں۔ اس وقت ہندوستان پر ہماری حکومت تھی جب انگریز بیوپاری بن کر ایسٹ انڈیا کمپنی بنا کر ہمارے پاس آئے تھے۔ اس وقت تک ہندوستان پر حکومت کرتے ہوئے ہمیں تین چار سو برس ہو چکے تھے۔ ایسی باتیں پہلے کبھی میں نے پڑھی تھیں اور نہ کسی سے سنی تھیں۔ یہ میرے موکل کی اختراع ہے۔ میں اپنے موکل کی اختراع سے مکمل طور پر متفق ہوں۔ اس لیے آپ کو سنا رہا ہوں۔

یہ جو فرمائشی تاریخوں میں ہمیں پڑھایا جاتا ہے کہ ہندوؤں نے ہم پر بڑے ظلم کیے تھے، ستم ڈھائے تھے، قطعی غلط ہے۔ ہم نے پانچ سو برس ہندوستان پر حکومت کی تھی۔ ہم کبھی بھی ہندو حکومت کے ماتحت نہیں رہے تھے۔ ہمارے پس ماندہ رہ جانے کے اسباب کچھ دوسری نوعیت کے ہیں۔ بالم بن کر ہم نے پانچ سو برس ہندوستان پر حکومت کی تھی۔ ہم خود کو، فرداً فرداً، ہندوستان کا حکمراں سمجھتے تھے۔ حکمراں کو پڑھنے لکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ اسکول نہیں جاتے، کالج نہیں جاتے، یونیورسٹی نہیں جاتے۔ ایسے لوگ جب اقتدار سے محروم ہوتے ہیں تب حواس باختہ ہو جاتے ہیں۔ ہمارے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔

انگریز نے جب اقتدار ہم سے چھین لیا اور ہم بے بس ہو گئے، تب ہم سے اور کچھ تو ہو نہ سکا، ہم نے انگریزوں کے قائم کردہ تعلیمی اداروں کا بائیکاٹ کر دیا۔ اس کے برعکس ہندوؤں نے موقع محل کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ انگریز سے دشمنی اپنی جگہ، ہندو تعلیم وتربیت میں بہت آگے نکل گئے، ہم پیچھے رہ گئے۔

تاریخ سے پیچھا چھڑانا ممکن نہیں ہے۔ دنیا بھر کے ممالک کی تاریخ میں کئی ایک واقعات یا طرز عمل ایک جیسا یا ملتا جلتا ہوتا ہے۔ ہم ایک ہی ماجرے کی بات کریں گے۔ گنتی کے چند ممالک کو چھوڑ کر دنیا بھر کے ممالک ملک گیری کی شدید خواہش کا شکار ہوتے ہیں۔ ممالک موقع کی تاک میں رہتے ہیں۔ موقع ملتے ہی دوسرے ملک پر دھاوا بول دیتے ہیں۔ ملک پر چابک دستی سے قبضہ کر لیتے ہیں۔ انگریز نے بے شمار چھوٹے بڑے ممالک پر قبضہ کر لیا تھا۔ انگریز کی مملکت ایک دور میں اس قدر وسیع تھی کہ ان کے زیرِ انتظام ممالک سے سورج کبھی بھی غروب نہیں ہوتا تھا۔ اگر انگریز کے زیرِ قبضہ ایک ملک میں سورج غروب ہوتا تھا، عین اسی وقت مملکت کے دوسرے کسی ملک میں سورج طلوع ہو رہا ہوتا تھا۔

جس طرح ایک فرد مکمل طور پر اچھا یا مکمل طور پر برا نہیں ہوتا، عین اسی طرح قومیں مکمل طور پر اچھی، یا مکمل طور پر بری نہیں ہوتیں۔ انگریز جہاں بھی گئے، انہوں نے اس ملک کی کایا پلٹ دی۔ ہندوستان ہم سے چھین لینے کے بعد انگریز نے ہندوستان کو صحیح معنی میں نکھارا، سنوارا، اس کے چھپے ہوئے دیدہ زیب پہلوؤں کو تلاش کیا ان کو نکھارا اور دنیا پر آشکار کرنے کے بعد دنیا کو حیران کر دیا۔ جو ترقی یافتہ کام ہمارے بھائی بندوں مملوک، خلجی، تغلق، سید، غزنوی اور مغل پانچ سو برسوں میں کر کے دکھا نہ سکے، انگریز نے دو سو برسوں کی حکومت کے دوران کر کے دکھا دیے۔ اتنے بڑے ملک کے دور دراز علاقوں میں دفن آثار قدیمہ کھوج نکالے۔ موہن جو دڑو ہم نے نہیں، بلکہ انگریز نے ڈھونڈ کر، زمین سے نکال کر، یہاں کے حیرت انگیز تہذیب و تمدن کی کھوج لگا کر اقوام عالم کو متجسس کر دیا تھا۔

سچ بات تو یوں ہے کہ انگریز کی دریافت ہم سنبھال نہ سکے۔ آج ہم فخر سے موہن جو دڑو کسی کو دکھا نہیں سکتے۔ یونیسکو کی جانب سے موہن جو دڑو کی دیکھ بھال کرنے کے لیے ملنے والے لاکھوں کروڑوں ڈالر نہ جانے کہاں غائب ہو جاتے ہیں۔ موہن جو دڑو مکمل طور پر نیستی اور نابودگی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔

انگریز نے باغ باغیچے، محل محلات اور قلعے نہیں بنوائے۔ انگریز نے ہندوستان کو انتظامی نظام دیا۔ روڈ راستے بنے، مالیاتی نظام کو جدید سمت ملی۔ ملک بھر میں ریلوے کی پٹریاں بچھ گئیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ انگریز نے ہندوستان کو تعلیم و تدریس کے لیے وہ نظام دیا جو ان کے ہاں برطانیہ میں رائج تھا۔ اسی تعلیمی نظام نے ہمیں محمد علی جناح، کرم چند گاندھی، موتی لعل نہرو، جواہر لعل نہرو، ابوالکلام آزاد ، چندر شیکھر اور بھگت سنگھ جیسے لوگ دیئے۔ سبھاش چندربوس بھی انگریز کے تعلیمی نظام سے مستفید ہوئے تھے اور انگریز کے گلے پڑ گئے تھے۔ کہتے ہوئے اچھا نہیں لگتا، مگر تاریخی حقیقت ہے پانچ سو برس اقتدار میں رہنے کے باوجود ہم انگریز جیسا کچھ بھی ہندوستان کو نہ دے سکے۔ سچ بات تویہ ہے کہ ایسے کام ہمارے بس کی بات نہیں تھی۔

انگریز نے سندھ پر ایک سو سال حکومت کی تھی۔ سندھ میں خاص طور پر کراچی ان کو بہت اچھا لگا تھا۔ اٹھارہ سو تینتالیس سے لے کر انیس سو سینتالیس تک انہوں نے دل وجان سے کراچی کو ہوبہو لندن اور بامبے یعنی ممبئی جیسا بنانے کی کوشش کی تھی۔ ایک سو سال کے عرصے میں وہ بہت حد تک اپنی کوششوں میں کامیاب ہو گئے تھے۔ اگست انیس سو سینتالیس میں انگریز جب ہندوستان کا بٹوارا کر کے چلے گئے، تب اپنے پیچھے کراچی کی صورت میں چھوٹا سا لندن، چھوٹا سا ممبئی چھوڑ گئے۔ شہر میں ٹرام کی پٹریاں بچھی ہوئی تھیں۔ روڈ راستے ایسے کہ لگاتار مہینوں تک بوندا باندی اور بارش ہونے کے بعد سڑکوں پر پانی ٹھہرتا نہیں تھا۔ ڈبل ڈیکر بسیں، اینگلو اورینٹل طرز کی عمارتیں، راستوں پر درختوں کی قطاریں، فٹ پاتھوں پر خوبصورت بینچوں کی قطاریں سینما ہال، پارک پلے گرائونڈ۔ یعنی کھیل کے میدان۔ بٹوارے کے بعد کراچی ہمارے ہتھے چڑھ گیا ۔ اس کے بعد جو ہمارے جی میں آیا، ہم نے کراچی کے ساتھ کیا۔

بشکریہ روزنامہ جنگ
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close