بلوچی ادب اور مزاحمت

غنی پہوال

بلوچی ادب میں مزاحمت کی نوعیت اور اہمیت جاننے کے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے اُس فلسفۂ حیات کو، جو ایک بلوچ معاشرے میں خون کی طرح گردش کرتا ہے اور جسے بلوچ ’بلوچیت‘ یا ’بلوچی‘ کہا جاتا ہے، سمجھ لیا جائے۔ دراصل بلوچؔ اس کو کہا جاتا ہے جو بلوچیت کے اصولوں پر زندگی گزارتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ جب کوئی شخص عملی طور پر بلوچی اقدار کی نفی کرتا ہے تو اُسے فوراً کہا جاتا ہے کہ تم بلوچ نہیں ہو کیونکہ تم نے بلوچیت کے اصول توڑے ہیں۔ بلوچ معاشرے میں بلوچ ایک آئیڈیل فرد کو کہا جاتا ہے کہ جس میں بلوچ فلسفۂ حیات کے مکمل اوصاف عملاً موجود ہوں۔

بلوچیت کے اصول زندگی کے ہر اہم عمل کے لئے الگ الگ مرتب کئے گئے ہوتے ہیں، جن کی پاسداری ہر اس شخص کے لئے ضروری ہے، جو خود کو بلوچ کہلوانا پسند کرتا ہے۔ اِن سماجی اقدار کا مقصد صرف نظم و ضبط یا انصاف کرنا نہیں ہوتا بلکہ بلوچیت کے منصفانہ نظام میں خلل ڈالنے والے کے خلاف مزاحمت بھی ہر بلوچ کا قومی اور انفرادی فریضہ ہے، چاہے اگلا کتنا بھی طاقتور کیوں نہ ہو۔ اگر کسی بھی وجہ سے کوئی مزاحمت نہ کرسکے تو اسے بلوچ نہیں مانا جاتا اور وہ دائمی طنز و تشنیع کا شکار ہو کر رہ جاتا ہے۔

چونکہ بلوچ سماج میں ہر فرد کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد بلوچ بن کر دکھانا ہوتا ہے، لہٰذا مزاحمت ہر فرد کے لئے لازمی عنصر بن جاتا ہے۔

بلوچ سماج اور بلوچی ادب میں مزاحمت کی دو شکلیں ہمیشہ دو رویوں کی طرح آپس میں مدغم ملیں گی۔ مزاحمت کی ایک شکل تو وہی ہے جو ہر جگہ پائی جاتی ہے یعنی کسی ظالم یا غاصب کے خلاف کھڑے ہو کر مزاحمت کرنا لیکن مزاحمت کی دوسری شکل ذرا پیچیدہ اور خالص داخلی قسم کی ہے۔ یعنی بلوچی اقدار کی آبیاری کرتے ہوئے اپنے نفس اور اپنی مفادات کے خلاف اُس وقت تک مزاحمت کو جاری رکھنا، جب تک کہ بلوچی اقدار اُس فرد کی ذاتی منفعت سے بازی نہ لے جائے۔

دوسرے لفظوں میں اپنے اور اپنے اعزّا کے مفادات اور زندگیوں کی قربانی دے کر اِن اقدار کا احیا کرنا ہوتا ہے۔ بلوچ ادب اور سماج میں مزاحمت کی یہ دونوں شکلیں انتہائی طاقتور طریقے سے عیاں ہیں۔ اور ان دونوں رویوں کے بلوچ نفسیات پر گہرے نقوش ہیں۔

❖بلوچ سماج میں شعر و ادب کا منصب:

اِس کے متعلق بلوچی کے کلاسیکل شاعر اور ہیرو بیبگر رند کا یہ شعر ضرب المثل اور اصول کی حیثیت رکھتا ہے۔

ترجمہ:
(شعر وہی شخص کہہ سکتا ہے
جو خود حقیقی جنگجو ہو)

اس کے علاوہ ایک اور بزرگ شاعر چگھا بزدار شاعر کے سماجی منصب کا احاطہ ان الفاظ میں کرتا ہے۔

ترجمہ:
(میں شاعر ہوں اور شاعر نہ سردار کا طرفدار ہوتا ہے اور نہ ہی عوام کا۔۔ شاعر کا کردار دونوں کے درمیان منصف کا ہوتا ہے۔ شاعر صرف سچ کا پرچار کرتا ہے اور سچ کسی کے بھی خلاف ہو سکتا ہے۔)

جِس طرح بلوچ سماج میں ایک آئیڈیل بلوچ کو ہر لمحہ دو طرفہ مزاحمت کا سامنا ہوتا ہے بالکل اسی طرح ایک ادیب کو سہہ طرفہ مزاحمت در پیش ہوتی ہے۔ یعنی ادیب کو سماجی صورت میں ایک آئیڈیل بلوچ بن کر ظالم قوتوں کے علاوہ اپنے مفادات اور احتیاجات کے خلاف بھی جنگ لڑنا ہوتا ہے اور دوسری طرف منصف بن کر حاکم اور عوام کے درمیان فیصلہ بھی صادر کرنا ہوتا ہے۔

❖باہوٹ یا میار:

بلوچ سماج میں یہ ایک انتہائی اہم قدر ہے۔ یعنی اگر کوئی کمزور اور مظلوم شخص تم سے مدد مانگے تو تم پر فرض ہوتا ہے کہ اس کی مدد کرو، اُسے پناہ دے کر دشمنوں سے محفوظ رکھو۔ اگر دشمن اسے مارنا چاہے تو اپنی جان دے کر اس کی حفاظت اہم ترین ذمّہ داری بنتی ہے۔ اس حوالے سے بلوچ ادب و تاریخ میں اتنے واقعات شعر شاعری کی صورت میں موجود ہیں کہ مفصل بیان کے لئے زخیم کتاب کی ضرورت ہوگی، مگر میں اختصار کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہاں پر کچھ اشارے رقم کرنا چاہوں گا۔

تقریبا ساڑھے چھ سو سال قبل ایک مالدار بیوہ بی بی گوہر سردار گہرام لاشاری کے علاقے میں اپنے مویشی چَراتی تھی۔ سردار نے گوہر سے کہا کہ تمہارے مویشی بہت زیادہ ہیں اور تم بہت زیادہ رقبہ بطورِ چراگاہ استعمال کرتی ہو، اس لئے تم پر ٹیکس لاگو ہوتا ہے۔ بی بی گوہر انتہائی تیز و طرّار عورت تھی، ٹیکس سے بچنے کے لئے سردار چاکر رِند کے پاس پہنچی اور اس سے جھوٹ کہہ کر پناہ طلب کی۔ چاکر نے اُسے پناہ دے کر باہوٹ بنا لیا۔ اُدھر گہرام کو معلوم ہوا کہ بی بی گوہر نے چاکر کے پاس جا کر اُس پر بُہتان تراشے ہیں اور اس کی بلوچیت پر سوال اُٹھایا ہے۔ گہرام کو بہت دکھ ہوا تو اُس نے اپنے لشکر کو حکم دیا کہ بی بی گوہر کو سبق سکھایا جائے۔ تو گہرامی لشکر نے حملہ کر کے بی بی گوہر کے مال مویشیوں کو بری طرح نقصان پہنچایا۔ جس کے نتیجے میں بلوچ تاریخ کی سب سے خونریز ترین جنگ کا آغاز ہوا جو رند اور لاشار قبائل کے درمیان تیس سالوں تک لڑی گئی۔ اسی جنگ کے دورانئے میں ایک جھڑپ کا احوال گہرام یوں بیان کرتا ہے۔

ترجمہ:
(میرے بہادر کمانداروں نے
چونسٹھ رندوں کے سر زمین بوس کئے
تیر گھوڑیوں کو پار کرتے ہوئے رینگتے رہے
میں نے نام ور ملک میران کو مار کر
رندوں کا جما ہوا دیوان توڑ دیا
اور تم بہانوں سے اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوئے۔

چاکر! مین تمہیں آسمان کی سیر کرا کے
گہرے سمندر میں پھینک دوں گا۔
اب تم اگر بدلیوں سے اوپر بھی اپنی نشست قائم کر لو
اور سروں کا زرّیں قلعہ تعمیر کرو
یا آسمان میں سیڑھیاں لگا کر چڑھ جاؤ
ھار اور میران تمہیں دکھائی نہیں دیں گے)

میرانؔ چاکر کا بھانجا اور رِند لشکر کا سب سے بہادر سپہ سالار تھا اور ہار اس کے گھوڑے کا نام تھا۔ چاکر کے لئے ہار اور میران کا جانی نقصان اتنا بڑا تھا کہ وہ ساری زندگی اس دُکھ کر فراموش نہیں کر سکے۔

میر حمّل کو بلوچ سمندر کے سپہ سالار کے لقب سے یاد کرتے ہیں اور انہیں خارجی مزاحمت کے حوالے سے اہم ترین ہیرو مانا جاتا ہے۔ میر حمّل کی حاکمیت تقریباً بارہ سو کلومیٹر بلوچ سمندری پٹی پر پھیلی ہوئی تھی۔ یہ 1561 کا وہ زمانہ ہے، جب پرتگیزیوں نے سمندری علاقوں میں لوٹ مار اور قتل و غارت گری کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ حمّل نے پرتگیزیوں کو چیلنج کیا کہ وہ اس کے زمینی اور سمندری حدود میں لوٹ مار کر کے لوگوں کو تنک نہ کریں، مگر پرتگیزیوں نے لوٹ مار بند نہیں کی تو میر حمّل اور پرتگیزیوں کے درمیان کافی جنگیں ہوئیں، جن میں پرتگیزیوں کو شکست ہوئی۔ اس طرح میر حمّل نے نہ صرف اپنے لوگوں کو محفوظ کیا بلکہ عرب اور انڈین کشتیوں کو بھی اپنے علاقے میں محفوظ کیا۔

جب پرتگیزی سمجھ گئے کہ فوجی طاقت سے ہم حمّل کو زیر نہیں کر سکتے تو انہوں نے انتظار کیا کہ کب حمّل تنہا اور نہتّا ہماری فوج کے ہاتھ لگے۔ ایک دن حمّل اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ قریبی سمندر میں سیر کو نکلے، پرتگیزی جو تاک میں تھے، فوراً حمّل کی کشتی کو گھیرے میں لے کر حمّل کو ہتھیار ڈالنے کا حکم دیتے ہیں، حمّل افسر سے کہتا ہے اب جب تم لوگوں نے مجھے گھیرے میں لے لیا ہے اور میرے ساتھ سپاہی بھی نہیں ہیں تو تم اپنی کشتی سے میری کشتی میں آؤ، مجھ سے بات کرو، تم کیا چاہتے ہو۔ افسر جیسے ہی کچھ سپاہیوں کے ساتھ حمّل کی کشتی میں کودتا ہے تو حّمل افسر سے کہتا ہے تم نے کیسے سمجھ لیا کہ بلوچ سردار میر حمّل جان کے خوف سے ہتھیار پھینک دے گا؟ میری روایات میں طاقت وری یا کمزوری کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی کیونکہ بلوچ کے لئے سب سے اعلیٰ و ارفع عمل مزاحمت ہے۔ یہ کہہ کر میر حمّل شیر کی طرح حملہ آور ہو کر پہلے وار میں افسر کا کام تمام کرتا ہے، مگر ایک دو سپاہی مارنے کے بعد حمّل کی تلوار ٹوٹ کر سمندر میں گر جاتی ہے، باقی سپاہی جال پھینک کر حمّل کو گرفتار کر کے اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ حملّ کی اس طرح سے گرفتاری اور اس کی لاش بھی واپس نہ ملنے کے غم نے بلوچ معاشرت پر بہت گہرا اثر ڈالا اور یہی سبب ہے آج بھی بلوچ خواتین شادی بیاہ کے گیتوں میں حمّل کی نظم گا کر اُس کو یاد کر کے اس کی بہادری اور بلوچی کردار کو سراہتی ہیں۔

ترجمہ:
(حمّل نے نیلگوں سمندر کی گہرائی میں دیکھا اور سمندری پرندہ (ملّیر) کو مخاطب کر کے کہا جا کر میرا احوال بہادر پیر داد اور غلامو تک پہنچادو اور کہہ دو کہ میرے فربہ گھوڑے کی مستیوں کو قابو کر لو اور اُس کے سنج اور زین کو اُتار دو، کیونکہ حمّل نے اپنے والد کے زمانے میں فخر کیا تھا اور اُسی افتخار کی وجہ سے اُسے فرنگیوں (پرتگیزیوں) نے پکڑ لیا ہے۔)

جس طرح مذکورہ بالا سطور میں کہا جا چکا ہے کہ بلوچ کی زندگی کا محور ’بلوچیت‘ کا آزمائشی دائرہ ہے، اسی لئے یہاں ہر فرد کی دوسرے سے کرداری مسابقت جاری رہتی ہے اور اس سماجی نیک نامی کے لئے بلوچ ہر قسم کی قربانی دے سکتا ہے۔ ماں انسانی زندگی میں وہ کردار ہے کہ اسے اپنے بچے دنیا کی ہر چیز حتیٰ کہ اپنی زندگی سے بھی زیادہ پیارے ہوتے ہیں، مگر ’بلوچیت‘ کی مضبوط روایات نے اس یونیورسل جذبے کو بھی نہ صرف اپنے سحر سے آزاد ہونے نہیں دیا بلکہ بلوچ معاشرے میں ماؤں نے بلوچ روایات کی پاسداری میں تاریخی اور لازوال نقوش چھوڑے ہیں۔انہی میں سے ایک میر دودؔا کی ماں ہے۔

چوں کہ یہ واقعہ بی بی گوہر اور چاکر و گوہرام کے واقعے کے بعد رونما ہوا، اسی لئے اس پر اُس واقعے کے گہرے نفسیاتی اثرات بخوبی نظر آتے ہیں اور اتفاقاً واقعہ کی نوعیت میں بھی عجیب مماثلت ہے۔ بی بی سمی بی بی گوہر کی طرح مالدار بیوہ تھی اور وہ میر دودا کی باہوٹ بن کر میر دودا کے زیرِ اثر علاقوں میں اپنا مال مویشی چَراتی تھی۔ ایک طاقتور سردار بیبگر پژُ ایک دن زبردستی بی بی سمی کے مال مویشیوں کو ہانک کر سندھ میں بھیجنے کے لئے لے جاتا ہے، یہ خبر جب دودا ؔ کی ماں کو ملتی ہے، اُس کے پیروں تلے سے زمین کھنچ جاتی ہے، بھاگتی ہوئی میر دودا کی خوابگاہ کے دروازے پر کھڑی ہو کر طعنہ (طعنہ کو بلوچی میں شِگان کہتے ہیں اور بلوچ کے لئے شگان بندوق کی گولی سے زیادہ تکلیف دہ ہے، کیوں کہ اس سے دوسرے شخص کی بلوچیت پر حرف آ رہا ہوتا ہے) مارتے ہوئے یہ تاریخی جملہ کہتی ہے ، جو اب ضرب المثل بن چکی ہے:

’’دودا! جو جوانمرد اپنی بلوچیت پر فخر کرتے ہیں اور بلوچیت کی بھاری زمہ داریاں سر پر اُٹھاتے ہیں، وہ دوپہر کو گھروں میں بے فکر ہو کر نئی بیاہتا بیویوں کے ساتھ آرام نہیں کرتے ۔‘‘

ٓ ترجمہ:
(جو پناہ دینے والے ہوتے ہیں
وہ دوپہروں کو قیلولہ نہیں کرتے
نہ عروسی سیج پر آرام کرتے ہیں
دودا غُصّے سے اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے
دودا کی ماں نے اپنی ہم عمر عورتوں کو مخاطب کیا
آ جاؤ سہیلیو، مل کر میرے بیٹے کو لوریاں سناتے ہیں
کیونکہ میرا بیٹا ایک کام تو ضرور کر کے آئے گا
یا تو گایوں کو پورا پورا واپس لائے گا
یا اپنی جان کا نذرانہ دے گا)

دودا اپنے ستر ساتھیوں سمیت بیبگر پژُ کے بڑے لشکر کے سامنے ٹہر نہیں سکتا اور ساتھیوں سمیت مارا جاتا ہے۔مردوں میں صرف دودا کا گیارہ سالہ چھوٹا بھائی بالاچ بچ جاتا ہے۔ اب یہاں بدی کو شکست دینے اور بلوچ روایات کو سرخرو کرنے کی ناممکن زمہ داری گیارہ سالہ بالاچ کے کندھوں پہ آن پڑتی ہے۔ بالاچ وعدہ کرتا ہے کہ میں اگر بدی کو شکست نہیں دے سکا اور اپنے بے گناہ لوگوں کا بدلہ نہیں لے سکا، میں یہاں پھر کبھی نظر نہیں آؤں گا۔

بالاچ اپنے جدی نوکر نقیبو کے ساتھ نکل کر سندھ سیہون شریف میں حضرت لال شہباز کے درگاہ میں منت مان کر سوالی بن جاتا ہے کہ جب تک آپ مجھے بدی کو شکست دینے کی بشارت نہیں دیتے میں ہر رات اندھے کنوئیں میں الٹا لٹکتا رہوں گا۔ تیرہ سال کے بعد بشارت ملتی ہے کہ اب تم جاؤ بدی کو شکست دے دو۔

بالاچ واپس آ کر پہلی دفعہ گوریلا جنگ کی بنیاد رکھ کر رات کی تاریکی میں اچانک حملہ کر کے ایک دو افراد کو مار کر فرار ہو جاتا ہے ۔

لاکھ جتن کے باوجود بالاچ کبھی بیبگر کے لوگوں کے ہاتھ نہیں آتا اور کچھ وقت کے بعد بالاچ بیبگر کے پینسٹھ لوگوں کو چن چن کر مارنے میں کامیاب ہو جاتا ہے، جس سے بیبگر کے لشکر اور قبیلے کے لوگوں کے دلوں میں بالاچ کا ایک ایسا خوف ٹہر جاتا ہے کہ جس سے راتوں کی نیند حرام ہوجاتی ہے۔

ترجمہ:

(میں بیبگر کے علاقے میں ایک سرد رات کو داخل ہوا، میرے اور بہادر نکیبو کے حملوں سے بِن بیاہی لڑکیاں اور بیاہتا خوبصورت عورتیں بڑ بڑا کر جاگ اُٹھیں اور ایک دوسرے سے کہنے لگیں سو جاؤ کہ یہ بالاچ کے حملوں کی گڑ گڑاہٹیں ہیں اور یہ پرندے جو رات کو نیچی پرواز کرتے ہیں، یہ بالاچ کے کمان کے ہی تِیر ہیں)

جس طرح بالاچ اور اس کا کردار بلوچ نفسیات کا ایک اٹوٹ حصہ بن چکا ہے، اسی طرح بالاچ کی شاعری بلوچی مزاحمتی ادب کا سب سے بڑا اور اہم ترین حوالہ بن چُکی ہے۔ بالاچ نے اپنی شاعری میں صرف اپنی روداد بیان نہیں کی ہیں بلکہ بلوچیت کے فلسفہِ مزاحمت کی فکری توضیح بھی کی ہے، اس کے ساتھ ساتھ زبان اور ادب کو اس حوالے سے ایسی نئی ہمہ جہت اور خوبصورت علامات اور استہارے دیئے ہیں جو آج بھی اتنے ہی پُر اثر ہیں، جیسے تین سو سال پہلے تھے۔نہ صرف بالاچ کے اشعار آج بھی بڑے بوڑھوں کو زبانی یاد ہیں بلکہ بالاچ کی شاعری کا بیشتر حصّہ ضرب المثل بن کر بلوچی زبان کا حصہ بن چکا ہے۔ یہی سبب ہے کہ آج تک کوئی بلوچ شاعر بالاچ سے اثر مند ہوئے بغیر اپنی مزاحمتی فکر کو معنی نہیں دے سکا۔

ترجمہ:
(جنہیں خون کا بدلہ لینا ہوتا ہے
اُن کی خوابگاہیں چٹانوں پر ہوتی ہیں
وہ بیویوں اور بچّوں سے بیزار ہوتے ہیں
سر سبز اور زرخیز زمینوں کو تج دیتے ہیں
وہ ہمیشہ تیّار اور کمر بستہ رہتے ہیں)

بالآخر بالاچ بیبگر کے قبیلے کو تہہ و بالا کرنے کہ بعد سردار بیبگر کو بھی مار کر نہ صرف بدی کا خاتمہ کرتے ہیں، بلکہ خود کو بلوچیت کی روایات کا تاریخی امین ثابت کرنے میں بھی کامیاب ہوتے ہیں اور ثابت کرتے ہیں کہ ظالم کتنا بھی طاقتور کیوں نہ ہو مگر اس کے خلاف مزاحمت کرنا بلوچ کا ایمان ہے اور یہ ایمان اگر مضبوط اور محکم ہو تو کمزور بھی طاقت ور کو شکست فاش دے سکتا ہے۔

ماں اور بچے کا پیار ایک عظیم جذبہ ہے، اسی طرح بلوچ مائیں بھی اپنے بچوں کو بڑے لاڈ پیار سے پالتی ہیں مگر فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ بلوچ معاشرے میں بچے سے ماں کے پیار کا سبب صرف ذاتی اغراض نہیں ہیں بلکہ ان میں اجتماعی اور قومی اقدار کی پاسداری بھی شامل ہے، یعنی ہر ماں کی کوشیش ہوتی ہے اور وہ اسی نہج پر بچے کی پرورش بھی کرتی ہے کہ میرا بچہ بحیثیتِ بلوچ کچھ بن کر دکھائے اور میرا نام روشن کرے۔ یہی سبب ہے کہ لوری جہاں دنیا بھر میں بچوں کو پریوں کی کہانی سنا کر سُلانے کے لئے گائی جاتی ہے، وہیں بلوچ مائیں بچوں کو شعوری آگہی اور روایات سے منسلک ہونے کے لئے اپنی لوریوں میں بلوچیت کا درس دیتی ہیں اور یہ عمل بچے کے جوان ہونے تک مختلف طریقوں سے جاری رہتا ہے۔ اسی لئے جب بلوچیت کی بات آتی ہے تو بلوچ مائیں کمزور ہونے کی بجائے اور زیادہ مضبوط بن جاتی ہیں، اس حوالے سے میر کمبر کی ماں بلوچ ماؤں میں سب سے بڑی آئیڈیل ہیں۔

واقعہ یوں ہے کہ خاران کا حاکم اپنے لشکر کے ساتھ میر کمبر کے علاقے پر حملہ آور ہو کر بلا سبب لوگوں کو قتل کر کے، مال و اسباب لوٹ کر کافی مرد و عورتوں کو غلام بنا کر لے جاتا ہے۔ جب خبر کمبر کی ماں تک پہنچتی ہے تو بڑی تمکنت سے میر کمبر کو کہ جس کی شادی ہفتہ بھر پہلے ہوئی ہوتی ہے، بُلا کر کہتی ہے، بیٹا آج میری تربیت کا امتحان ہے، میں نے تمہاری پرورش میں کوئی کوتاہی نہیں کی ہے، میں نے بڑی امیدوں سے اندھیری راتوں میں تمہیں بلوچیت کی لوریاں سنائی ہیں، خیال رہے کہ اگر تم بلوچیت کی اصولوں پر عمل پیرا ہونے میں سرخرو نہیں ہوتے تو میں سمجھوں گی کہ میں نے ’کَرَگ‘ پانی دے کر اگایا ہے۔ (کَرَگ ایک ایسا پودا ہے جس کا نہ پتّا کام آتا ہے نہ پھل، نہ لکڑی جلانے کا کام آتا ہے اور نہ ہی وہ سایہ دیتا ہے) میں جانتی ہوں کہ حاکم کی فوج بہت بڑی ہے مگر یہ بھی یاد رہے بلوچیت میں مزاحمت ہی بلوچ کی شان اور عزت ہے، اگر آج تم مزاحمت نہیں کر سکے تو زندگی بھر بلوچ کہلانے کے قابل نہیں رہو گے۔ جاؤ جوانمردی سے دشمن کو اپنی تلوار کا وہ جوہر دکھاؤ کہ انہیں بھی تمہاری بہادری پر رشک آجائے۔۔ جاؤ میرے بہادر بیٹے! مردانگی سے مقابلہ کر کے شہید ہوکر امر بن جاؤ یا قیدیوں کو دشمن سے چھڑا کر لے آؤ ۔

کمبر کی ماں اپنے جذبات یوں نظم کرتی ہے:

ترجمہ
(قیدی جب رہا ہو کر آئیں گے
میرے گھر کے آنگن میں بیٹھ کر
تیری بہادر مَوت کی تعریف کریں گے
میں بوڑھی پھر سے جوان ہو جاؤں گی
موسیقی کی محفل سجاؤں گی
نوحے کی جگہ نغمے گاؤں گی
اور گاتی ہوئی تجھے قبر تک لے جاؤں گی
نئے سرے سے سِنگھار کروں گی
ہاتھوں میں مہندی رچاؤں گی
اُنگلیوں میں انگوٹھیاں پہنوں گی
اپنے بالوں کی چوٹی بناؤں گی
اور تیرا متبادل پھر جَنوں گی)

میر کمبر دشمن سے اپنی تلوار کے وہ جوہر دکھاتا ہے جو آج تک بطورِ مثال قائم ہے۔ دشمن کو غیر متوقع نقصان سے دوچار کرنے کے بعد بالآخر میر کمبر اپنے ساتھیوں کے ساتھ شہید ہو کر بلوچیت کے فلسفہ میں ہمیشہ کے لئے زندہ و جاوید ہو جاتا ہے۔

اس کے بعد مزاحمت کے حوالے سے اہم جنگیں بلوچوں کی انگریزوں سے ہوئی ہیں۔ مری و بگٹی قبیلے کی چھوٹی بڑی چھبیس لڑائیاں 1818 سے لے کر 1839 کے درمیان لڑی گئیں ، مگر ان میں پانچ بڑی جنگیں نفسُک، سرتاپ، کاہان، گمبد اور ھڑب تاریخی لحاظ سے بہت اہم ہیں۔ ان تمام جنگوں کے حوالے سے کافی اشعار لکھے گئے ہیں مگر دو شاعر گدوؔ اور رحم ؔ علی مری کی شاعری بلوچی ادب میں نمایاں مقام رکھتی ہے۔ ان دونوں شاعروں کے بہت سے اشعار اب ضرب المثل کی شکل میں مشہور ہیں، جیسے کہ رحم علی مری کا یہ شعر، جسے بلوچی مزاحمتی فلسفہ میں ایک مستند قول کی حیثیت حاصل ہو چکی ہے:

ترجمہ۔۔
(امن اور خیر کی قوتیں ویران ہوتی جا رہی ہیں۔۔ اب جنگوں میں ہی فائدہ نظر آتا ہے)

ان پانچ جنگوں میں سے شروع کی تین جنگوں میں انگریز کو شکستِ فاش کی صورت میں ہزیمت اُٹھانی پڑی مگر بعد کی دو جنگوں میں بلوچوں کو شکست ہوئی۔ ان جنگوں کے بلوچ ادب اور نفسیات اور تخلیقی صلاحیتوں پر کیا اثرات مرتب ہوئے، اس کے لئے الگ سے تحقیقی کام کی ضرورت ہے۔ سرتاپ کی لڑائی میں انگریز کو سب سے زیادہ جانی نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ جب شکستِ فاش کے بعد انگریز اپنی لاشوں کو اٹھانے آئے تو انہوں نے دیکھا کہ کچھ سپاہیوں کی کلائیوں میں سبز رنگ کی ڈوریاں بندھی ہیں، انگریز افسر نے کسی سے پوچھا یہ سبز ڈوریاں سپاہیوں کے ہاتھوں کس نے اور کیوں باندھی ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ بلوچوں میں روایت ہے کہ بہادر دشمنوں کو ان کی بہادری کی اعتراف میں اُن کی کلائیوں پہ سبز ڈوریاں باندھی جاتی ہیں تو انگریز افسر FANSIS D WELL نے بلوچوں کی جنگی اخلاقیات اور تہذیب پر ایک نظم لکھی، جو آج تک برٹش میوزیم میں محفوظ ہے۔

انگریزوں ہی کے حوالے سے مکران میں بلوچ خان گوکپروش کے مقام پر انگریزوں کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے ساتھیوں سمیت شہید ہو جاتے ہیں جو خارجی مزاحمت کے حوالے سے اہم ترین واقعات میں سے ایک ہے، جس کے بلوچی ادب اور بلوچ معاشرے پر گہرے اثرات موجود ہیں۔

13 نومبر 1839کو انگریز افسر میجر جرنل تھامس ولشائر کی قیادت میں ایک بڑی فوج خان قلات نواب محراب خان کے قلعے قلات شہر کی طرف پیش قدمی کرتی ہوئی قلات شہر اور خاص قلعے کو محاصرہ میں لیتی ہے اور نواب محراب خان سے کہا جاتا ہے کہ آپ کی فوج شکست کھا چکی ہے، لہٰذا آپ ہتھیار ڈال کر خود کو ہمارے حوالے کریں۔ کہتے ہیں نواب محراب خان بڑے پُر اعتماد لہجے میں جواب دیتے ہیں کہ ہاں یہ سچ ہے کہ میری فوج شکست کھا چکی ہے مگر تم یہ یاد رکھنا، میں نے اب تک شکست نہیں کھائی ہے اور نہ شکست کا تصور کر سکتا ہوں، کیونکہ میری جیت میری قومی مزاحمت کے فلسفے میں ہے، مرنے یا زندہ رہنے میں نہیں۔اس کے بعد فوجیں قلعے میں داخل ہو جاتی ہیں اور نواب صاحب اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ جن میں ہندو وزیرِ دیوان بچل مل اپنے بیٹوں کے ساتھ انگریز کی فوجوں سے دوبدو لڑتے ہوئے شہید ہوجاتے ہیں۔

شاعر کہتا ہے :
ترجمہ۔۔
(بادلوں جیسی بمبار توپیں دیر تک غُرّاتی رہیں
قصر اور منقّش محلّات زمیں بوس ہوتے رہے
چَوکیاں گِرتی رہیں
اور جنگ عروج پر پہنچ گئی

تیغ زن عبدالکریم، تاج محمد، میر ولی محمد، شیر محمد اور میر کمالان گِر گئے
اور ہندو کے فرزندوں نے اپنی جانیں ہتھیلیوں پر رکھ لیں)

تو خلاصہ یہ کہ ’مزاحمت‘ بلوچی ادب میں الگ سے کوئی چیز نہیں ہے بلکہ بلوچ زندگی اور مکمل فلسفہِ حیات کی بنیاد ہی ’مزاحمت‘ کے اصولوں پر رکھی گئی ہے، لہٰذا بلوچ کی زندگی کا کوئی بھی عمل مزاحمت سے جدا نہیں اور نہ ہی بلوچی ادب مزاحمت کے بغیر معنی دے سکتا ہے۔ آخر میں میں کلاسیکی شاعر ملا رگام ؔ واشی کی یہ نظم بھی لکھنا چاؤں گا، جسے بلوچی فلسفہِ مزاحمت میں ایک مکمل ادبی موقف تصور کیا جاتا ہے، جس میں زندگی کی بد رنگیوں کو چیلنج کر کے کہا گیا ہے کہ بلوچ کا تمہارے ساتھ صلح یا مذاکرات کسی بھی طور ممکن نہیں ہے۔

ترجمہ:
(جب کبوتر اور باز ایک جگہ بسیرا کر لیں

اور پاگل بھیڑیا بکریوں کا رکھوالا ہو جائے

اگر بلّی روغن کی پاسبان بن جائے

اگر آگ اور اُون ہم زبان ہو جائیں

اگر آہُو شیر کے ساتھ ہم قدم ہو جائے

انار، باجرے کے دانے جتنا چھوٹا ہو جائے

سمندر اتنا خُشک ہو جائے کہ گذرگاہ بن جائے

اور مچھلیاں میدانوں میں دَوڑنے لگیں

اگر اُنتیسویں چاند کی رات کو چاندنی چَٹکے

شاید اُس وقت تم سے میری نفرت کم ہو جائے

شاید اُس وقت میں تم سے مذاکرات کر لوں)

(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close