سندھ میں حالیہ عام انتخابات کے تناظر میں، خاص طور پر کراچی ملیر میں، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی جیت کے بعد ملیر کی زمینوں پر چھایا ہوا قبضہ مافیا بلڈر مافیا اور ریتی بجری مافیا کے خطرے کا سایہ ایک بار پھر گھنا ہونے لگا ہے۔ بلڈر مافیا اور لینڈ گریبرز کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ، اس خطرے سے نہ صرف کراچی ملیر کے مقامی لوگوں کو خطرہ ہے بلکہ ملیر کی زرعی زمینوں اور کھیرتھر نیشنل پارک بھی خطرے کی زد میں ہیں۔
جیسے ہی عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کی جیت یقینی ہوئی، اسی دن بحریہ ٹاؤن کراچی کی انتظامیہ نے کھیرتھر نیشنل پارک کی زمینوں پر پیش قدمی کی، جسے وہاں کے مقامی لوگوں نے مزاحمت کے ذریعے ناکام بنا دیا۔ اسی دن کھیرتھر نیشنل پارک میں ریتی بجری مافیا نے مائیننگ کے نئے ’دکے‘ کھولے، جو تاحال جاری ہیں۔ اس کے اگلے ہی روز بحریہ ٹاؤن کراچی کے سامنے ڈملوٹی کی دیھ کھرکھرو کی زرعی زمینوں پر جی ایف ایس کے بروکروں نے غلام قادر جوکھیو کی زمینوں پر قبضہ کے لیئے دھاوا بول دیا ـ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ سب الیکشن کے نتائج کے انتظار میں تھے۔ اس ساری صورتحال میں جو سب سے تشویش ناک بات ابھر کے سامنے آئی ہے کہ ان سارے معاملات میں یہاں کے منتخب نمائندے بھی بروکر کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہاں کے سیاسی معاملات میں قبائلی فیکٹر نمایاں ہے، اس لیئے اس نیم قبائلی سماج میں وہی منتخب ہوتے ہیں، جو اس فیکٹر کو استعمال کرتے ہیں ـ
سندھ ثقافتی اور تاریخی اہمیت کا حامل خطہ رہا ہے۔ تاہم، حالیہ برسوں میں، بلڈر مافیا اور زمین پر قبضہ کرنے والوں کی بے لگام توسیع نے یہاں کے مقامی لوگوں، ماحولیات اور قدرتی ذخائر کے لیے شدید خطرہ پیدا کر دیا ہے اور بے چینی بڑھتی جا رہی ہے، کیوں کہ یہ پیپلز پارٹی کے پچھلے ادوار کا تسلسل ہے۔ تین مہینے اقتدار سے باہر رہنے کے بعد اور اس وقت، جب انتظام ابھی نگراں حکومت کے پاس ہے، یہ ابھی سے زمینوں پر قبضہ کرنے کے لیے بے چین ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ جیسے ان کو کوئی ٹارگیٹ پورا کرنا ہے، جیسے سندھ کے کرپٹ بیوروکریسی نظام میں جو ہمیں نظر آتا ہے کہ بیوروکریٹ تین مہینے کے ٹھیکے پر آتا ہے اور ان تین مہینوں میں اسے دیا ہوا ٹارگیٹ پورا کرنا ہوتا ہے، اب کرپشن بھی ٹی ٹوینٹی کرکیٹ کی طرح فاسٹ ہو گئی ہے۔
سندھ میں عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کی جیت نے اس معاملے کے مزید بڑھنے کے خدشات کو جنم دیا ہے۔ اگرچہ سیاسی تبدیلیاں اکثر مثبت تبدیلی کی امیدیں لاتی ہیں، اس معاملے میں، ایسا لگتا ہے کہ یہ تبدیلی بلڈر مافیاز کی مذموم سرگرمیوں کو مزید تقویت بخشنے کا باعث بننے جا رہی ہے اور ایسی بے خوفی کے ساتھ کام کر رہی ہے، ان تمام قانونی خامیوں کا فائدہ اٹھا رہی ہے کہ ان قانونی خامیوں کو دیکھ کر ایسا گمان ہوتا ہے کہ مقتدرہ قوتوں نے انہیں جان بوجھ کر رکھا ہے اور آج ان کا بھرپور استعمال ہمیں نظر آ رہا ہے۔ جیسے کوئی کرکٹ ٹیم اپنے ہوم گرائونڈ اور کنڈیشن کا بھرپور فائدا اٹھاتی ہے، لینڈ گریبر اور بلڈر مافیاز اپنے مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے سیاسی رابطوں کا فائدہ اٹھا رہے ہیں، حقیقی معنوں میں یہی سیاستدان ہی بلڈرز اور لینڈ گریبر ہیں۔
صدیوں سے آباد مقامی لوگ اب نقل مکانی اور پسماندگی کے خطرے کا سامنا کر رہے ہیں، جیسے کہ پاکستان اسٹیل مل کی وجہ سے پچاس کے قریب گوٹھوں کو ہٹایا گیا جو آج تک در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں، ایسا ہی پورٹ قاسم کی وجہ سے ہوا، جہاں مقامی لوگ اپنے گھر اور روزگار سے ہاتھ دو بیٹھے۔ بحریہ ٹائون کراچی، ڈی-ایچ-اے، فضائیہ سٹی، رومی بلڈر، کمانڈر سٹی یہ وہ ہائوسنگ سوسائیٹیز ہیں جو ہزاروں ایکڑ پر مشتمل ہیں، جن کی وجہ سے سیکڑوں گوٹھ متاثر اور ہزاروں ایکڑ زرعی زمینیں اور چراگاہیں ختم ہو گئیں، جس سے مقامی لوگ معاشی حوالے سے مزید کمزور ہو گئے۔ اتنی بڑی تباہی کے بعد یہ بلڈر مافیاز جو ایک منافع بخش رئیل اسٹیٹ منصوبوں کے لیے خطے میں وسیع و عریض اراضی پر نظریں جمائے ہوئے ہیں، مقامی لوگ اپنے آپ کو طاقتور مفادات کے رحم و کرم پر پاتے ہیں، کیوں کہ یہ جن کو ووٹ کرتے ہیں، جن کا انتخاب کرتے ہیں، وہی ان کے پیروں کے نیچے سے زمین کھینچ رہے ہیں، انہیں ان زمینوں سے بے دخلی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، جہاں وہ صدیوں سے آباد ہیں۔
ملیر کی زرعی زمینیں، جو کبھی خطے کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی تھیں، اب بلڈر مافیاز اور لینڈ گریبرز کے محاصرے میں ہیں۔ زمین پر قبضہ کرنے والوں کے مسلسل تجاوزات نہ صرف مقامی ھاریوں اور کاشتکاروں کی معشیت کو متاثر کر رہے ہیں، بلکہ خطے میں ماحولیاتی نظام اور زرعی معشیت کو بھی نقصان پہنچا رہے ہیں۔
حیاتیاتی تنوع اور ماحولیاتی اہمیت کے حامل کھیرتھر نیشنل پارک پر تجاوزات کی وجہ سے صورتحال مزید پیچیدہ ہو گئی ہے۔ اربنائزیشن کی غیر تصدیق شدہ توسیع کھیرتھر نیشنل پارک کے اندر ماحولیاتی نظام کے توازن کو خطرے میں ڈال رہی ہے ، جس سے نباتات اور حیوانات کی متعدد انواع کو خطرہ لاحق ہو رہا ہے۔
سندھ میں بلڈر مافیا اور زمینوں پر قبضہ کرنے والوں کا خطرناک اضافہ گورننس اور ریگولیشن میں وسیع ترانتظامی ناکامی کی نشاندہی کرتا ہے۔ قوانین کے کمزور نفاذ، بدعنوانی اور سیاسی سرپرستی نے ان غیر قانونی سرگرمیوں کو پھلنے پھولنے کے لیے ایک سازگار ماحول پیدا کیا ہے۔
اس اہم مسئلے کو حل کرنے کے لیے، پالیسی اور نچلی سطح پر مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ ریگولیٹری میکانزم کو مضبوط بنانا، زمین کے لین دین میں شفافیت کو بڑھانا، اور مقامی کمیونٹیز کو ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے بااختیار بنانا بلڈر مافیا کے اثر و رسوخ کو روکنے اور مقامی علاقوں کے تحفظ کے لیے ضروری اقدامات کرنے ہونگے۔
قدرتی ذخائر کے تحفظ کی اہمیت کے بارے میں بیداری پیدا کرنا جدید زرعی اور پائیدار ترقی کے طریقوں کو فروغ دینا ملیر اور کھیرتھر نیشنل پارک جیسے خطوں کی ماحولیاتی سالمیت کے تحفظ کے لیے انتہائی اہم ہے۔
سندھ میں بلڈر مافیا اور زمین پر قبضہ کرنے والوں کی بڑھتی ہوئی لہر مقامی آبادیوں، زرعی زمینوں اور قدرتی ذخائر کے لیے شدید خطرہ ہے۔ حکام کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس خطرے سے نمٹنے کے لیے فیصلہ کن اقدام کریں اور خطے کے ثقافتی اور ماحولیاتی ورثے کو محفوظ رکھتے ہوئے کسانوں، پسماندہ لوگوں کے حقوق کو برقرار رکھیں، زرعی اصطلاحت لائیں۔ ایسا کرنے میں ناکامی نہ صرف سماجی ناانصافی کو برقرار رکھے گی بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے ماحول کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچائے گی۔