ایک زمانے میں سب سے بڑی خواہش میری یہ ہوتی تھی کہ میں لچھے بنانے والی ایک مشین خرید لوں۔
جسے آج کل ہمارے بچے کاٹن کینڈی کے نام سے کھاتے ہیں وہ پہلے لچھا ہوا کرتا تھا۔ کئی بار میں گھر سے چینی چرا کے باہر لچھے والے کے پاس لے جاتا۔ وہ سالا آتا بھی بیچ دوپہریا میں تھا۔ اسے اندازہ تھا کہ یہ ٹائم ابا اماں لوگ کے سونے کا ہوتا ہے اور بچہ لوگ کی چوریوں کا۔
تو بس لچھے والے کی گھنٹی ٹن ٹن ٹن بجتی اور ننگے پاؤں میں باورچی خانے جاتا، کسی چھوٹے سے کپ میں چینی ڈالتا اور باہر لے آتا۔ جوتے اس لیے نہیں پہنتا تھا کہ ان کی آواز ہوتی ہے۔ باہر دو تین بچے پہلے سے اسے گھیرا ڈالے ہوتے۔ اچھی بات یہ تھی کہ پیسے نہ بھی لے کے جاؤ تو کوئی مسئلہ نہیں۔ وہ آدھی چینی کے لچھے بنا دیتا تھا اور باقی آدھی چینی اس کی فیس بن جاتی۔ دو سو گھروں کی چینی سارا دن وہ اپنے میلے سے تھیلے میں انڈیلتا رہتا تھا۔
جو بچہ پیسے بھی ساتھ لے کے جاتا وہ بادشاہ ہوتا، اس کی ساری چینی کے لچھے بنتے جو پلیٹ میں سے نکل کر اس کے منہ تک آ رہے ہوتے۔ آپ نے کبھی گرم لچھا چکھا ہے؟
یہاں دماغ غوطہ کھا رہا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ وہ سائیکل پہ آتا تھا، اسٹینڈ پہ سائیکل چڑھاتا، پیچھے کیریر پہ اس کی مشین ہوتی اور اسے چلانے کے لیے وہ چین کے پاس کوئی لیور سا نیچے کرتا تو سائیکل کی چین مشین کے ساتھ کام کرنے لگ جاتی۔
دوسری طرف جو خاکہ بن رہا ہے، وہ ریڑھی پہ رکھی ایک مشین کا ہے، جس کے ساتھ سائیکل کا ایک پہیہ چین سمیت لگا ہوتا تھا۔ کمہار کے چاک جیسی گھومنے والی وہ بڑی سی ’لچھا میکر مشین‘ اس پہیے کو ہاتھ سے گھمانے پر چلتی تھی اور اس کے نیچے ایک چھوٹا سا چولہا ہوتا تھا۔ جیسے ہی گول بڑی تھالی جیسی مشین کے بیچ میں چینی ڈال کے پہیہ گھمانا شروع کیا جاتا، اسی وقت بادلوں کے جیسے ملائم نیم گرم لچھے گول گول تہہ میں ایک دوسرے کے اوپر نازل ہونا شروع ہو جاتے۔
لچھے والا بڑے احترام سے انہیں اٹھا کے ہماری پلیٹوں میں رکھتا چلا جاتا۔ احترام اور نازل کے لفظ اس لیے کہے کہ لچھے اس طرح وجود میں آتے، جیسے باقاعدہ کوئی مقدس ہالہ مشین میں بنتا جا رہا ہے، پھر وہ اتنے نازک ہوتے کہ احتیاط ان کے لیے بہت چھوٹا لفظ ہے۔ نرم ہاتھوں سے، پولے پولے، اٹھانا بھی ہے، بچانا بھی ہے، برتن کی گولائی پر جمی چینی سے چھڑانا بھی ہے، گولائی بھی نہیں ٹوٹنے دینی اور پلیٹ پہ بھی رکھنا ہے، بھئی سبحان اللہ۔۔
تو کبھی گرم لچھے کھائے ہیں آپ نے؟
پھر ایک چیز ہوتی تھی سکرین، میرے بچپن میں باہر کا جو بھی میٹھا میں کھاتا تھا، اس سے امی ڈراتی تھیں کہ وہ لوگ سکرین ڈالتے ہیں اندر اور گلا خراب ہو جاتا ہے اس سے، تو اسی طرح گلابی رنگ کے لچھے سے بھی ڈرایا ہوا تھا مجھے کہ اس میں جعلی رنگ، سکرین اور پتہ نہیں کیا کیا ہوتا ہے۔ اسی لیے اتنے خشوع و خضوع سے چلتی مشین پہ رال بہاتے ہوئے لچھے بنتے دیکھنے اور انہیں کھانے کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی تھی کہ وہ اپنے گھر کی چینی سے بنے چٹے سفید ہوتے تھے، کسی بھی طرح کی ملاوٹ سے پاک، خالص دیسی!
بس تو میرا دل چاہتا تھا کہ میرے پاس لچھے بنانے والی ایک مشین ہو، میں ڈھیر سارے لچھے بناؤں، کھاؤں، سب میں بانٹوں، اڑاؤں، لٹاؤں۔۔۔ اس سے بڑی کوئی خواہش اتنی شدت سے ایک طویل عرصے تک اور کوئی نہیں تھی۔ ٹھیک ہے، آپ نے شاید گرم لچھے نہ کھائے ہوں، آپ بس کہانی سن کے رانجھا راضی کریں۔
ابھی اوپر میں نے کہا کہ دماغ غوطہ کھا رہا ہے، مجھے یاد نہیں کہ لچھے والا سائیکل پہ آتا تھا یا اس کے پاس ریڑھی تھی کہ جس پہ ایک طرف وہ بڑی گول سی پرات نما مشین اور ایک طرف سائیکل کا پہیہ لگا ہوتا تھا۔ چیزیں مکس ہو رہی ہیں، لیکن جو یاد ہے، وہ ذائقہ ہے۔
یہ بھول جانا ہی ہم سب کے بچپن کا سب سے بڑا رومانس ہے۔ کوئی چیز ریکارڈ نہیں ہو سکی، تصویریں بہت کم بنیں، جو کچھ باقی ہے، وہ یادداشت کا سہارا ہے۔ ہمارے بچوں سے یہ دھندلکا چھن چکا ہے۔ ان کا بچپن ہمارے موبائیلوں سے بنی ویڈیوز اور تصویروں میں اس طرح واضح ہے، جیسے گرمیوں کی دھوپ۔ ان کے پاس وہ نامحسوس ڈور نہیں ہے جو بے یقینی کو یقین سے ملاتی تھی، جس کے سہارے ہم کہانیاں بُنتے تھے، ہمیں آسمان پہ دھوئیں کی باریک لکیر چھوڑنے والا جہاز چاند کو جاتا راکٹ لگتا تھا اور جو جہاز تھوڑا نیچے نظر آتا، اسے ہم اس یقین سے بائے بائے کرتے تھے جیسے مسافر ہمیں جواب دے رہے ہوں گے۔ ہمارے لیے تو یہ بات بھی پکی تھی کہ مور کے پر چینی کے ساتھ کسی کتاب میں رکھیں تو وہ کچھ دن بعد ڈبل ہو جاتے ہیں یا سکہ ریل کی پٹری پہ رکھا جائے، اور ٹرین اس پر سے گزر جائے تو وہ مقناطیس بن جاتا ہے۔
اب والے بچے دماغ سے زیادہ گوگل کی مدد لیتے ہیں اور یہ بھی ان کو ہماری ہی عطا ہے۔ انہیں سب کچھ پتہ ہے۔ وہ مور کے پروں کو چینی سمیت کتاب میں دبانے سے پہلے اس کا نتیجہ گوگل پہ دیکھ لیں گے، یہی کام انہوں نے سکے اور ٹرین والی گیم کے ساتھ کرنا ہے۔ بلکہ شاید وہ اگر یہ سب کچھ سنیں تو ہمیں چونچ سمجھیں گے، سرچ وغیرہ کے تکلف میں ہی نہیں جائیں گے۔ تو سب کچھ اتنا کھل کر سامنے آ جانا، اتنا باعلم ہونا اور کچھ بھی چھپا نہ ہونا، کوئی چیز غیر واضح نہ ہونا، کیا یہ کسی عذاب سے کم نہیں ہے؟ یاد رہے کہ اس ہذیان کو سمجھنے والی آخری نسل بھی آپ ہی ہیں۔
اب ہوتا کیا ہے، بچہ جانتا ہے کہ لچھے میں اتنی کیلوریز ہوتی ہیں، یہ اس طریقے سے بنایا جاتا ہے، اور جب بھی دل کرے تو فلاں جگہ سے لے کر کھایا جا سکتا ہے، مشین گھر پہ رکھنے کی ضرورت نہیں ہے، پیسے جیب میں ہوں تو پوری دنیا لچھے کی چلتی پھرتی مشین ہے۔
وہ بایونک مین بننا چاہتا ہے، اسپائیڈر مین کی گاڑی لینا چاہتا ہے، ہیلی کاپٹر نہ سہی، ڈرون کیمرہ لینا چاہتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جدید ترین ماڈل کا وہ موبائل لینا چاہتا ہے جو کم از کم ڈیڑھ دو لاکھ کا ہو۔ یعنی اسے اپنی خواہش کی قدر معلوم ہے۔ دو لاکھ روپے میں خواب پورا، اگلا خواب دو کروڑ کا، وہ بھی پورا، اگلا خواب دس کروڑ کا۔۔۔
میں نے آج تک کسی سے یہ نہیں پوچھا کہ لچھے والی مشین آتی کتنے کی ہے۔ ہمارے خواب، ہماری خواہشیں اس لیے بھی رومانٹک لگتی ہیں کہ پتہ تھا ہاتھ میں لے دے کر باقی کچھ رہا تو یہی ارمان ہونے ہیں جو پورے نہیں ہو سکتے تو ان کی قیمت جان کر کیا کرنا۔۔ ابھی ایسا نہیں ہے۔ اب تو جیٹ فلائیر بھی آ گیا ہے۔ انجن کمر سے باندھیں اور دنیا بھر میں اڑتے پھریں۔ اس کی بھی ایک قیمت ہے۔ گوگل کریں، قیمت دیکھیں اور جیب اجازت دے تو منگوا لیں۔ پیسے نہ ہوں تو بندوبست کرتے پھریں ساری عمر۔
تو یار اس بچے کی پریشانی سوچیں، جسے معلوم ہو اس کے خوابوں کی قیمت کیا ہے، جسے پتہ ہو جن بھوت کچھ نہیں ہوتے، جو یہ جانتا ہو کہ یہ بادل وادل سب پانی کے قطرے ہیں جو بس ہوا اڑائے پھرتی ہے، جسے سمجھ ہو کہ بچے آسمان سے پریاں جھولے میں نہیں لاتیں، جسے عقل ہو کہ پیار محبت دماغ میں کیمیکلز کم زیادہ ہونے کی مار ہیں، جسے علم ہو کہ ڈالر میں آج کے دن کتنے روپے ملیں گے، جس کا سب سے بڑا استاد گوگل ہو اور جس نے گرم لچھا بنتے دیکھا ہو نہ چکھا ہو، وہ بچہ آپ سے لچھے بنانے والی مشین کی فرمائش کیوں کرے گا؟
بڑی فرمائشیں کرنا اس کا حق ہے۔ اسے سمجھانا آپ کا اختیار ہے۔ آپ اسے ڈانٹ بھی سکتے ہیں لیکن پہلے یہ سوچیں کہ ہماری زندگی کا سب سے بڑا پہیہ وہ تھا، جس پہ لچھا بنتا تھا، ہم سے پہلے والوں کے لیے کمہار کا چاک وہ پہیہ تھا مگر ان کے لیے تو حیرت اور کائنات کا کنارہ ہی کوئی نہیں ہے۔
چوائسز لامحدود ہیں، چیزوں کی دستیابی چوبیس گھنٹے ہے اور سب کچھ پیسے کی ڈور سے جڑا ہے۔ آپ انہیں پیدا کر چکے ہیں تو آپ کو چوبیس گھنٹے وائی فائی اور انٹرنیٹ کا بندوبست بھی رکھنا ہے، لیپ ٹاپ بھی دلانا ہے اور موبائل کا خرچہ بھی نہیں ٹلنے والا، ہاں آپ خود اتنی کمانڈ رکھتے ہوں اور آپ کو ٹیکنالوجی کا پتہ ہو تو شاید آپ کوئی درمیانہ راستہ نکال سکیں۔
اس کا واحد فول پروف حل یہ ہے کہ یا تو یہ سب اولاد پیدا کرنے سے پہلے سوچیں اور یا پھر دے مار ساڑھے چار، اپنے سے زیادہ کمپلیکسڈ پروڈکٹ ایک ایک کر کے مارکیٹ میں پھینکتے جائیں، مالک پالنہار ہے، موبائل شوبائل بھی دلا ہی دے گا۔
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو۔
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)