بھارت کے اسکول میں بدروحوں کے اثرات یا بچیوں میں اعصابی تناؤ یا کچھ اور۔۔۔

ویب ڈیسک

ان دنوں بھارت کی شمالی ریاست اتراکھنڈ کے باگیشور ضلع کے ایک سرکاری سکول کی وڈیو سوشل میڈیا اور مین اسٹریم میڈیا میں وائرل ہے، جس میں اسکول کی کچھ طالبات بدحواسی کے عالم میں چیخ و پکار کرتی اور پریشان نظر آرہی ہیں

مقامی لوگوں نے اسے بدروحوں کے اثرات قرار دیا ہے، جبکہ اسکول انتظامیہ لڑکیوں کی کاؤنسلنگ اور علاج کے لیے کوششوں میں مصروف ہے

ایک جانب مقامی میڈیا اسے ‘ماس ہسٹیریا’ قرار دے رہا ہے، وہیں ماہرین نفسیات نے اس کے پیچھے کسی صدمے کا شبہ ظاہر کرتے ہوئے کہا ظے کہ ایک دوسرے کو دیکھ کر ایسا کرنا کوئی عجیب بات نہیں

بدروحوں، نفسیات، سماجی ڈھانچے اور صدمے کی اس کہانی کے مرکز میں آٹھویں جماعت کی ایک لڑکی ہے، جسے شاید کوئی صدمہ پہنچا ہے اور وہ اتنی اسمارٹ بھی ہے کہ انسٹاگرام پر فعال ہے

ہوا کیا تھا؟

باگیشور ضلع ہیڈکوارٹر سے لگ بھگ پینتیس کلومیٹر دور گورنمنٹ گرلز جونیئر ہائی اسکول رائکھولی میں کل پچپن طالبات زیر تعلیم ہیں

26 جولائی کو اچانک کچھ لڑکیاں چیخنے چلانے لگیں اور بدحواس ہو گئیں۔ اگرچہ چَھٹی سے آٹھویں تک کی تعلیم کے لیے مختص اس اسکول میں تین اساتذہ ہیں، لیکن اس دن صرف ایک ہی موجود تھیں

بچیوں کی چیخ و پکار سن کر گاؤں کے لوگ بھی اسکول پہنچ گئے۔ ان میں سے کچھ نے بدروحوں کو وقتی طور پر پرسکون کرنے کی مقامی روایت بن کے مطابق بچوں کے سروں پر چاول پھیرنے شروع کر دیے، جبکہ کچھ بچوں کو سنبھالنے لگے

وہیں موجود گاؤں کے ایک رہائشی نے اس واقعے کی وڈیو بنا لی، جو وائرل ہوگئی۔ اگلے دن بھی اسکول میں ایسا ہی ہوا

اس کے بعد ضلع ہیڈکوارٹر میں تعلیم اور صحت کے محکمے حرکت میں آئے اور 28 جولائی کو باگیشور کے چیف ایجوکیشن آفیسر، ایڈیشنل چیف میڈیکل آفیسر، ایس ڈی ایم ہر گری اور کونسلر (نفسیاتی مشیر) اسکول پہنچے

یہاں بچوں اور والدین کی کاؤنسلنگ کی گئی اور قریبی ہیلتھ سینٹر بوہالہ کے میڈیکل آفیسر کو اگلے چار پانچ دنوں تک ان کی نگرانی کی ہدایت دی گئی

اس حوالے سے ایڈیشنل چیف میڈیکل آفیسر ڈاکٹر ہریش پوکھریا نے بتایا ”جب ہم اسکول پہنچے تو ایسا لگ رہا تھا کہ بچے کچھ ڈرے سہمے ہوئے ہیں۔ یہ اس لیے بھی ہو سکتا ہے کہ یہ سب کچھ دو دنوں سے جاری تھا اور بہت سے لوگ وہاں پہنچ رہے تھے۔“

ڈاکٹر پوکھریا نے کہا کہ ٹیم نے بچوں کے حوصلے بلند کرنے کی کوشش کی۔ ان کے ساتھ کھیل کود کیا، کھانا کھایا اور ان کا موڈ بہتر کرنے کے لیے وٹامن سی کی گولیاں دیں

ان کا کہنا ہے ”باقی بچے تو ٹھیک تھے لیکن آٹھویں جماعت کی ایک لڑکی کا رویہ کچھ مختلف ہی نظر آيا۔ اس دن بھی اسے ہسٹیریا جیسے دورے پڑ رہے تھے۔“

ٹیم نے اس لڑکی کے گھر والوں سے کہا کہ اگر اسے مزید کوئی مسئلہ درپیش ہے تو وہ اسے ہسپتال میں داخل کرا سکتے ہیں اور اس کا علاج شروع کر سکتے ہیں، تاہم اہل خانہ اس پر راضی نہیں ہوئے

ڈاکٹر پوکھریا کا کہنا ہے ”ایسا لگتا تھا کہ یہ لڑکی اپنے ساتھیوں میں بااثر ہے۔ وہ اس بچی کو ایک کیٹلسٹ کہتے ہیں“

واضح رہے کہ کیٹیلسٹ سے مراد وہ شخص، واقعہ یا مادہ ہے، جو تبدیلی کا باعث بنتا ہے

ڈاکٹر پوکھریا کا کہنا ہے کہ جسے ماس ہسٹیریا کہا جا رہا ہے، اس کی ابتدا بھی اسی لڑکی سے ہوئی۔ اسے دیکھ کر دوسرے بچے (کل چھ لڑکیاں، دو لڑکے) نے بھی ایسا ہی کرنا شروع کر دیا

ڈاکٹر پوکھریا کو گاؤں کے لوگوں سے بات چیت کے دوران معلوم ہوا کہ اس لڑکی کا انسٹاگرام پر اکاؤنٹ ہے۔ انتظامیہ کی ٹیم نے بچی کی والدہ کو بلایا اور ان سے بات کی اور اسے اپنی بیٹی پر نظر رکھنے کو کہا

اس کے بعد اس لڑکی کے ساتھ دو دیگر طالبات کو بھی دو دن کی چھٹی دے دی گئی تاکہ وہ آرام کر سکیں اور اسکول میں بھی امن و سکون رہے

محکمہ صحت کی ٹیم نے اس ‘کیٹلسٹ’ پر نظر رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ڈاکٹر پوکھریا کا کہنا ہے کہ اگر اگلے دو دنوں میں لڑکی کی حالت نارمل نہیں ہوتی ہے تو اسے باگیشور کے ہسپتال میں داخل کر کے علاج شروع کیا جائے گا

وہ بتاتے ہیں ”باگیشور ہسپتال میں ایمس (انڈیا دہلی کے معروف ہسپتال کا ایک سلسلہ) کے سائیکاٹری ڈیپارٹمنٹ کی ٹیلی میڈیسن کی سہولیات دستیاب ہیں۔ لڑکی کو نگرانی میں رکھتے ہوئے رشیکیش میں موجود ایمس کے ڈاکٹروں کی رہنمائی میں اس کا علاج کیا جائے گا“

معاملے کا پس منظر کیا ہے؟

باگیشور ضلع پنچایت کے رکن چندن راوت رائکھولی گاؤں کے رہنے والے ہیں اور وہ اسکول کے قریب ہی رہتے ہیں۔ راوت ایک فارماسسٹ بھی ہیں

انھوں نے بتایا کہ جس لڑکی کی وجہ سے یہ سب کچھ ہو رہا ہے، جمعرات کو گھر میں اس کی طبیعت خراب ہو گئی تھی اور وہ اسکول میں بھی گھر جیسی ہی حرکت کر رہی تھی۔ انھوں نے گھر جا کر اس کی مدد کی تھی

اب گاؤں والے اب ایک چھوٹی سی پوجا (بدروح کو پرسکون کرنے کے لیے) کروانے کی سوچ رہے ہیں تاکہ سکون قائم ہو سکے

راوت کا کہنا ہے کہ دو تین ماہ قبل گاؤں کی ایک معمر خاتون نے اسکول سے تقریباً پانچ سو میٹر نیچے پھانسی لگا لی تھی۔ وہ لڑکی کی رشتہ دار تھی اور جس جگہ اس نے خودکشی کی وہ جگہ لڑکی کے گھر کے قریب ہی تھی

راوت کا کہنا ہے کہ لڑکی نے خاتون کی لاش درخت پر لٹکتی دیکھ لی تھی اور شاید اسے دیکھ کر اسے صدمہ لگا تھا۔ ان کا خیال ہے کہ اس لڑکی نے یہ سب اپنے دوستوں کو بتایا ہوگا اور وہ اس وقت بھی وہی سوچ رہی ہوگي جب وہ اچانک ہائپر ہوگئی ہوگی

اور اسے دیکھ کر باقی لڑکیاں بھی بدحواس ہو گئیں اور ماس ہسٹیریا جیسا ماحول پیدا ہو گیا

لیکن کسی واقعے، صدمے کے اتنے عرصے بعد اس طرح کے اچانک رویے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟

اتراکھنڈ کی اسٹیٹ مینٹل ہیلتھ اتھارٹی کے رکن اور نفسیاتی امراض کے ماہر ڈاکٹر پون شرما اسے ایک عام بات قرار دیتے ہیں

ان کا کہنا ہے کہ پہاڑوں پر ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں کہ اگر کسی کو چیتا، ریچھ، شیر نظر آتا ہے تو وہ اس سے لڑتے ہیں لیکن جب بعد میں گاؤں آ کر اس واقعہ کے بارے میں بتاتے ہیں تو بیہوش ہو جاتے ہیں

ان کے مطابق ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ جس وقت وہ جانور سے لڑ رہے ہوتے ہیں تو وہ اس واقعے میں شامل ہوتے ہیں۔ جب وہ آکر کسی کو اس کے بارے میں بتاتے ہیں تو انھیں احساس ہوتا ہے کہ وہ کس خوفناک صورتحال سے گزرے تھے۔ پھر ان کا دماغ بتاتا ہے کہ وہ ڈرے ہوئے ہیں اور وہ بیہوش ہو جاتے ہیں

ماس ہسٹیریا کا سبب کیا ہوگا؟

ڈاکٹر شرما کا کہنا ہے کہ ایک کو دیکھ کر دوسرے کا اسی طرح کا ردعمل کوئی عجیب بات نہیں، ہمارا دماغ ایسا کرتا ہے۔ جیسے جمائی کی مثال لے لیں

ان کا کہنا ہے کہ آج تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ ایک کی جمائی دوسرے تک کیسے پہنچ جاتی ہے۔ اگر ایک آدمی جمائی لے گا تو دوسرا بھی ایسا ہی کرے گا، اور تیسرا چوتھا بھی جمائی لے گا۔۔۔

درحقیقت دوسروں سے متاثر ہو کر ہمارا دماغ لاشعوری طور پر ایسی لہریں خارج کرتا ہے اور جسم بھی ایسا ہی کرنا شروع کر دیتا ہے

مثال کے طور پر اگر ایک شخص سوگ کے ماحول میں رونا شروع کردے تو اس کا بھی سلسلہ وار ردعمل سامنے آتا ہے اور دوسرے بھی رونے لگتے ہیں

ایسا پہلی بار نہیں ہوا

باگیشور کے چیف ایجوکیشن آفیسر، گجیندر سون کا کہنا ہے کہ جمعرات کو دو تین طالبات کے اسکول سے جانے کے بعد، سب کچھ پرامن طریقے سے گزرا اور جمعہ کو سب کچھ معمول پر تھا

ان کا کہنا ہے کہ ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے۔ چمولی، الموڑہ، پتھورا گڑھ سمیت کئی مقامات پر اس طرح کے واقعات منظر عام پر آ چکے ہیں۔ یہ سب تین چار دن سے زیادہ نہیں رہتے۔ پھر سب کچھ نارمل ہو جاتا ہے

سون کہتے ہیں کہ اب سہولیات بھی ہیں اور پہنچنا بھی آسان ہے۔ محکمہ تعلیم، طبی محکمہ اور انتظامیہ سبھی رکھولی پہنچ گئے۔ بچوں کا معائنہ بھی کیا گیا اور کونسلنگ بھی کی گئی

انہیں امید ہے کہ پیر سے جب تمام بچے سکول آنا شروع کریں گے تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا، اب ایسا کچھ نہیں ہوگا

تاہم ڈاکٹر شرما کا کہنا ہے کہ جن بچوں کو ایسا صدمہ پہنچا ہے یا وہ ایسے حالات سے گزر چکے ہیں یہ صدمہ ان کی پوری زندگی کو متاثر کرے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close