ایک جوان نے نوکری جوائن کی اور دوسرے دن استعفیٰ دے دیا۔ ’وجہ پوچھی، کہنے لگے یارر وائب نہیں آ رہی تھی۔۔‘
اگلے روز چند دوست موجود تھے، یہ قصہ سنایا گیا۔ اس وقت ہم سب ہنس پڑے، بڑا شغل لگا لیکن مسلسل یہ معاملہ دماغ میں اٹکا رہا۔
بڑا سوچا، نتیجہ یہی نکلا کہ وائب واقعی ضروری ہے اگر استعفیٰ دینے والے کے گھر میں دانے پورے ہیں۔ اس کے علاوہ ۔۔۔ وائب نہ آئے تو السلام علیکم بول دینا چاہیے۔
وائب بولے تو پسند کا تاثر، جیسے کسی جگہ کے بارے میں لگے کہ یار یہ تو میرے لیے بنی ہے، کوئی انسان لگے کہ یہ تو بالکل میں ہوں، کچھ بھی، فرنیچر کی بھی وائب ہو سکتی ہے، واش روم میں کموڈ تک کی وائب ہوتی ہے بابا، خیر۔۔۔ مثالیں بہت ہیں لیکن وائب ایک سالڈ چیز ہے، اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
اصل میں بات یہ ہو رہی تھی کہ ہمارے زمانے میں وائب نامی کچھ نہیں ہوتا تھا۔۔ جو ہے، جہاں ہے، بس اسی کے اندر ایڈجسٹ کرنا ہوتا تھا، یہ وائب بازیاں ساری آج کل کے بچوں کا کھیل ہیں۔۔۔
لیکن ایسا نہیں تھا۔
پسند ناپسند ہر زمانے میں رہی ہے، آپ بتائیں، کسی بندے سے پہلی ملاقات میں ہی آپ کو اندازہ نہیں ہو جاتا کہ استاد یہ دوست ہے، اپنی پارٹی ہے، اس سے اچھی چلے گی؟
ایسا ہوتا نہیں کہ بعض ہوٹلوں میں نیند تک نہ آ رہی ہو لیکن کسی دوسرے سستے والے میں آپ کو زیادہ مزے آ جائیں؟ کوئی سیکنڈ ہینڈ موٹر سائیکل یا گاڑی ہاتھ رکھتے ہی لگے کہ بس یہ زندہ باد ہے اور وہ نکل بھی آئے اسی طرح کی؟
آپ کا اندازہ بعض اوقات غلط بھی ہو سکتا ہے لیکن اکثر چیزوں میں وائب کو میں نے ٹھوس حقیقت پایا ہے۔
انسانوں کے معاملے میں تو بھائی خود اپنی وائب کا مرید ہے۔ دوستی سب سے آپ کرتے ہیں یار، لیکن دوست کون ہے، یہ آپ کو وائب ہی بتا سکتی ہے اور بچپن سے آج تک 95 فیصد تو اپنی وائب بہترین چلی ہے۔
اب یہاں تک آ کے ہر بندہ اپنی بندیوں کی شکل یاد کر رہا ہوگا، بندیاں سوچ رہی ہوں گی کہ یہ ایویں جھک مار رہا ہے، کوئی وائب کا چکر نہیں ہوتا، شروع میں سب چمکدار لگتے ہیں، بعد میں ایسی تیسی پھیر کے دائیں بائیں ہو جاتے ہیں یا ٹاکسک پنے کو چل پڑتے ہیں۔
وہ وائب کا قصور نہیں ہے بھئی۔۔ وہ اس دھاگے کی نزاکت ہے، جس سے آپ نے دوسرے کا سر باندھ لیا تھا۔ محبوب قدموں میں گرانے کے لیے نہیں ہوتے، وہ ہوتے ہی تب تک ہیں، جب تک آنکھوں میں، سر پہ سجے ہوں، قدم پہ گر گیا تو محبوب، فقیر، کتے اور غرض مند میں کیا فرق رہ گیا؟
جب تک محبت ہے، محبوب کی وائبز بہترین ہوں گی، فل طوطا اینڈ مینا۔۔ جیسے ہی گھیرو پروگرام شروع ہوگا، دونوں طرف سے وائب شائب چنے بیچنے نکل جائے گی۔ تو یہ بہرحال وائب کے سر پہ نہ ڈالیں، وائب ٹھیک تھی، آپ دونوں خود غلط تھے۔
یاد آ گیا۔۔ تب اگر کسی بندے سے وائب نہیں آتی تھی تو ہم کہتے تھے، یار یہ عجیب سا آدمی تھا، سمجھ نہیں آ رہا، چھوڑ دو، اس سے نہیں بنتی، یا پھر وہ جو ہر محلے میں ایک گھر کی چھت، یا فلانا کمرہ بھاری ہو جاتا تھا، وہ بھی شاید وائب کی کمی ہوتی ہوگی.
بعض اوقات مالک کو سواری راس نہیں آتی تھی، نیا کپڑا پہنتے ہوئے سیدھی آستین یا سیدھا پائنچہ پہلے چڑھاتے تھے، یہ سب کچھ وائب قابو کرنے کے لیے ہی ہوتا ہوگا۔
ایک چیز ہوتی ہے ’اورا‘۔۔۔ سمجھ لیں کسی انسان کی شخصیت کا ہالہ۔۔۔ جسے ہم دیکھ نہیں سکتے لیکن محسوس کرتے ہیں۔
بعض لوگوں سے بات کر کے اچھا لگتا ہے، کسی سے بات کرنے کو آپ راضی ہی نہیں ہوتے، کوئی چپ چاپ بھی اندر گھستا چلا جاتا ہے، یہ سب اورے کی گیم ہوتی ہے اور اسی تماشے کو آپ وائب ملنا کہہ سکتے ہیں۔
اسی طرح جگہوں کا ’اورا‘ ہوتا ہے، اُدھر موجود غیر سائنسی چیز ایموشنل ریزیڈیو (emotional residue) کی برکتیں ہوتی ہیں۔۔۔ آپ ہوٹل کے جس کمرے میں ہیں، ادھر دو سال پہلے اگر کوئی قتل ہوا ہو تو کمرہ بالکل نہیں بولے گا لیکن جسم بعض اوقات ایویں اکتاہٹ کا شکار ہو جاتا ہے.
یہ سب سے آسان مثال دماغ میں آئی، یعنی اس کمرے نے جو خوف، وحشت، اذیت اور تکلیف دیکھی، وہ فضا میں کہیں نہ کہیں رہ گئی۔ بعض اوقات نہیں بھی رہتی ہوگی، یہ چیز بہرحال ثابت نہیں ہو سکتی لیکن وائب بھی تو جمع تفریق والا چکر نہیں ہے؟ کہ ہے؟
تو بس اتنی بات ہی کہنا تھی کہ وائب آئے تو دل کی بات سن لینے میں کوئی برائی نہیں، دماغ ہمیشہ چوکس رہتا ہے لیکن وہ صرف دو جمع دو کو مانتا ہے۔۔۔ انسان لامحدود ہے!
بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)