سورج مکھی (برازیلی ادب سے منتخب افسانہ)

لیلیٰ ڈی سوزا تشے را (مترجم: محمد فیصل)

آسمان پر صبح کے آثار نمودار ہو چلے تھے۔ یوراگوئے کے اس سرحدی گاؤں میں مقیم فریڈریکو کچی سڑک کے پار سورج مکھی کے پھولوں کے کھیت کو گھور رہا تھا۔ اس کے قیمتی جوتوں پر مٹی تھی یا ریت، اسے اندازہ نہ تھا۔ ہاں البتہ اس کی بیوی لوئیسا فوراََ بتا دیتی۔ لوئیسا کو فطرت سے پیار تھا، اسے سورج مکھی کے پھولوں سے پیار تھا۔ فریڈریکو دارالحکومت میں پلا بڑھا تھا، اسے گاؤں کی زندگی میں کوئی دل چسپی نہ تھی، اس کے برعکس لوئیسا اپنا زیادہ وقت پھول، پودوں اور جانوروں کے ساتھ بسر کرتی۔ جس دن فریڈریکو نے گاؤں سے نقل مکانی کا اعلان کیا تو لوئیسا نے بس ایک درخواست کی کہ کیا وہ علی الصبح کچھ وقت سورج مکھی کے پھولوں کے درمیان گزار سکتی ہے؟ اس نے ہاں کر دی۔

لوئیسا اس سے چند قدم دور کھڑی تھی، اس کے جوتے اس کے ہاتھ میں تھے اور وہ اپنے پیروں سے گویا زمین کو محسوس کر رہی تھی۔ وہ دیر تک سورج مکھی کے پھولوں کو دیکھتی رہی، پھر دھیرے سے فریڈریکو کی طرف مڑ کر بولی، ”سائو پائولو میں سورج مکھی کے پھول نہیں اگتے۔“

فریڈریکو نے سنی ان سنی کر دی۔ اب کے لوئیسا ذرا تیز آواز میں بولی، ”سائو پائولو میں سورج مکھی کے پھول نہیں اگتے۔“

وہ اس کی طرف دیکھے بغیر بولا، ”ہم ہر روز سورج مکھی کے پھول خریدیں گے۔ میں نے تمہیں بتایا تو تھا کہ سائو پائولو میں ہمارے فلیٹ کے پاس ایک بڑی مارکیٹ ہے، جہاں پھولوں کی ایک بہت بڑی دکان ہے۔“

”وہاں کھیت بھی نہیں ہوں گے؟“

وہ اپنی بیوی کے پاس گیا اور بولا، ”وہ شہر تمہاری صحت کے لیے اچھا ہے، وہاں قابل ڈاکٹرز موجود ہیں جو تمہارا علاج بہتر طریقے سے کر سکتے ہیں۔“

”مگر اچھے ڈاکٹرز تو مونٹی ویڈو اور بیونس آئرس میں بھی ہیں جو سائوپائو لو سے نسبتاََ پُر سکون شہر ہیں۔“

”مگر مجھے سائو پائولو میں بہت عمدہ ملازمت مل رہی ہے، جس سے اتنی آمدنی ہو گی کہ ہم تمہارا۔۔۔۔۔“ وہ کہتے کہتے رک گیا۔ لوئیسا کی آنکھیں پُرنم ہو گئیں اور اس کے ہونٹ کانپنے لگے۔ فریڈریکو نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور بولا، ”تم فکر نہ کرو۔ ہمارا جانا بہتر ثابت ہوگا۔“

سورج نکل رہا تھا۔ فریڈریکو نے لوئیسا کو کہا، ”اب چلنا چاہیے۔“

”تم چلو، میں کچھ دیر مزید ان پھولوں کو دیکھنا چاہتی ہوں!“

فریڈریکو آہستگی سے گاڑی کی طرف بڑھا۔ گاڑی ایک بڑے درخت کے نیچے کھڑی تھی۔ اس کی پچھلی سیٹ پر بہت سے کارٹن پڑے تھے۔ اس نے انہیں ترتیب دی کہ وہ گاڑی کے اندر لگے شیشے سے عقب پر نگاہ دوڑا سکے۔ کام مکمل ہونے کے بعد اسے بھوک کا احساس ہوا۔ وہ ڈرائیونگ سیٹ پر آن بیٹھا۔ ونڈ اسکرین کے باہر کا منظر بڑا دل کش تھا۔ کھیتوں سے پرے افق تک پیلاہٹ پھیلی ہوئی تھی جو کہیں کہیں سنہری نظر آرہی تھی، مگر اسے اس منظر سے کوئی دل چسپی نہ تھی۔۔ وہ بس وہاں سے جانا چاہ رہا تھا۔ اسے لوئیسا کے وہاں کھڑے رہنے سے کوفت ہو رہی تھی مگر وہ اس کے پاس جانے سے کترا رہا تھا۔ اسے علم تھا کہ اس وقت تک لوئیسا سب کچھ بھول چکی ہوگی اور اس عالم میں اس کی گفتگو اس کے لیے اذیت ناک ہوتی۔ آخر اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا اور اس نے ہارن بجایا۔ لوئیسا جیسے سوتے سے جاگ پڑی اور خاموشی سے گاڑی میں آ کر بیٹھ گئی۔

لوئیسا برازیل کی سرحد آنے تک سوتی رہی۔ سرحد پر واقع ایک چھوٹے سے ہوٹل سے انہوں نے دوپہر کا کھانا کھایا۔ فریڈریکو کی آنکھیں نیند سے بوجھل ہو رہی تھیں مگر اس نے اپنا سفر دوبارہ شروع کیا۔ لوئیسا کے چہرے پر کچھ عجیب سے تاثرات تھے۔ فریڈریکو نے اسے اس کی دوائی اور پانی کی بوتل پکڑائی۔

لوئیسا اس کی طرف دیکھے بغیر بولی، ”تمہیں میری وجہ سے بہت پریشانی اٹھانا پڑتی ہے۔“

”ہاں مگر اس میں تمہارا کوئی قصور نہیں۔۔ ہم اس موضوع پر بات کر چکے ہیں۔“

”اگر تمہیں میری وجہ سے کوئی پریشانی نہیں اٹھانا پڑتی تو ہم برازیل کیوں جا رہے ہیں؟“

”ہم اس لیے جا رہے ہیں کہ تمہارا علاج ہو سکے۔ وہاں کوئی تمہیں اس قصبے کے لوگوں کی طرح پاگل نہیں سمجھے گا۔ یہاں کے ڈاکٹر تمہارے دماغی خلل کو سمجھ نہیں پا رہے۔“ فریڈریکو نے یہ کہہ تو دیا مگر پھر وہ پچھتانے لگا

”تم مجھ سے تنگ آ چکے ہو؟“

وہ تنک کر بولا، ”لوئیسا میری بات غور سے سنو!“

وہ رندھی ہوئی آواز میں بولی، ”مجھ پر چیخو مت!“

فریڈریکو نے اس کا ہاتھ تھاما اور اسے پچکارتا ہوا بولا، ”دیکھو لوئیسا! میں تم پر چیخ نہیں رہا مگر میں چاہتا ہوں کہ تم میری بات سنو۔“

لوئیسا کچھ نہ بولی۔ اس نے ڈیش بورڈ سے ایک کاپی پنسل نکالی اور کچھ بنانا شروع کر دیا۔

”تم کیا بنا رہی ہو؟“

”سورج مکھی کے پھول۔۔۔“

”ہم اسے فریم کروائیں گے۔ وین فوگ نے بھی سورج مکھی کے پھولوں کی تصویریں بنائی ہیں۔“

”اچھا! پھر تو میری اس سے اچھی نبھے گی۔ وہ میری بات آسانی سے سمجھ لے گا۔“

”ہاں! تم دونوں دوست بن جاؤ گے۔“

شام ڈھلے وہ کروز آلٹا پہنچے۔ یہاں ایک ڈیپارٹمنٹل اسٹور تھا، جو شاید پچاس برس پہلے تو اچھی حالت میں ہو مگر اس وقت اس کی حالت بڑی خستہ تھی۔ ان کے پاس صرف بوتلیں اور چپس تھے۔ پورے اسٹور میں جابجا بالٹیاں پڑی تھیں، تاکہ بارش کی صورت میں چھت سے ٹپکنے والے پانی کو جمع کیا جا سکے۔ عقبی کھڑکی کا شیشہ ٹوٹا ہوا تھا۔

لوئیسا اسٹور کے واش روم میں چلی گئی۔ فریڈریکو باہر نکل آیا۔ اس کے دل میں اچانک خیال آیا کہ یہ جگہ لوئیسا کے لیے بہترین ہے، اس کا دل چاہا کہ وہ اسے یہیں چھوڑ کر روانہ ہو جائے مگر پھر اسے اپنے اس خیال پر شرمندگی ہونے لگی۔ تھوڑی دیر بعد لوئیسا بھی آ گئی۔ اس کی آنکھیں ادھ کھُلی تھیں۔ وہ خاموشی سے گاڑی میں بیٹھے اور شمال کی جانب روانہ ہو گئے۔

کچھ کلومیٹر چلنے کے بعد ان کی گاڑی کے دائیں جانب ایک مال گاڑی نمودار ہوئی جو ان کی مخالف سمت رواں دواں تھی۔ مال گاڑی گزر گئی تو دور اُفق پر سورج غروب ہو رہا تھا۔ اس وقت اس کا رنگ شعلے کی طرح سُرخ ہو رہا تھا۔ لوئیسا کے ہاتھ میں اس کی بنائی ڈرائنگ دبی ہوئی تھی اور وہ گہری نیند میں تھی۔ اس سمے فریڈریکو کو نہ جانے کیوں یہ احساس ہوا کہ سب کچھ ٹھیک ہونے جا رہا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close