قیدی نمبر 804

محمد حنیف

اُمید تھی کہ پاکستان میں ہونے والے حالیہ انتخابات ملک میں استحکام کا باعث بنیں گے، وہ استحکام جس کی ملک میں کمرتوڑ مہنگائی اور تلخ ہوتی سیاسی تقسیم سے نمٹنے کے لیے اشد ضرورت تھی۔ اس کے بجائے، کسی جماعت کو واضح اکثریت نہ مل سکی اور ایک اتحادی حکومت وجود میں آئی، ایک متزلزل اور تذبذب کا شکار اتحاد، جو اپنے ہی مینڈیٹ کے بارے میں غیر یقینی کا شکار دکھائی دے رہی ہے۔

انتخابات کے دو ہفتے بعد سابق وزیراعظم نواز شریف کی قیادت میں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور بلاول بھٹو کی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی نے وفاق میں حکومت بنانے کا اعلان تو کیا مگر ساتھ یہ بھی بتایا گیا کہ پی پی پی اس کا حصہ نہیں بنے گی۔

دونوں جماعتوں کے رہنماؤں کی جانب سے آدھی رات کو (اتحاد کا) اعلان غمگین لہجے میں کیا گیا اور بظاہر یوں محسوس ہو رہا تھا کہ یہ ویسا ہی معاملہ ہے، جیسے کسی جلدبازی میں کی جانے والی شادی کا۔

اچانک سے کُچھ یوں ہوا کہ پاکستان وہ نایاب جمہوری مُلک بن گیا کہ جہاں کوئی وزیراعظم بننے کو تیار نہیں ہو رہا تھا۔

’اسٹیبلشمنٹ‘ ہمیشہ سے یہ مانتی چلی آئی ہے کہ عام انتخابات ایک اتنا حساس معاملہ ہے کہ جسے سیاستدانوں پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ اس بار انھوں نے اپنی پرانی انتخابی پلے بُک کھولی اور ماضی میں کامیابی سے استعمال کی گئی ہر چال کا استعمال کیا۔

پاکستانی سیاست کے ایک اہم کردار عمران خان کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ انہیں 150 سے زیادہ فوجداری اور دیوانی الزامات کا سامنا ہے، جن کی صحت سے وہ انکار کرتے ہیں۔

انتخابات سے ایک ہفتہ قبل انہیں تین مقدمات میں سزا سنائی گئی تھی، اِن تین میں سے ایک کیس میں اُن پر جلد بازی میں شادی کرنے کا الزام تھا۔ ان کی پارٹی کو انتخابی نشان اور ایک متحدہ پلیٹ فارم سے محروم کر دیا گیا، جس کے بعد پی ٹی آئی کے اُمیدوار آزاد حیثیت میں سامنے آئے اور الیکشن لڑنے پر مجبور ہوئے۔

تحریک انصاف کے بہت سے امیدوار اپنے حلقوں میں انتخابی مہم چلانے کے بجائے پولیس کے چھاپوں سے بچ رہے تھے۔ ان کے سیاسی مخالفین کو اُن کے خلاف ماضی میں قائم کیے گئے کئی مقدمات سے بری کر دیا گیا اور انہیں اپنی انتخابی مہم چلانے کے لیے آزادانہ ماحول فراہم کیا گیا۔

انتخابات کے دن سوشل میڈیا اور موبائل فون سروسز کو بظاہر سکیورٹی خدشات کی بنا پر بند کر دیا گیا تھا لیکن حقیقت میں اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ خان کے حامیوں کو پولنگ بوتھ تک آسانی سے رسائی حاصل نہ ہو اور بیلٹ پیپر پر اپنے امیدواروں کی شناخت کرنا مشکل ہو۔

مگر خان کے حامیوں نے غیر معمولی ذہانت کا مظاہرہ کیا، واٹس ایپ گروپس بنائے، ایپس اور ویب سائٹس راتوں رات تیار کیں اور پولنگ بوتھ پر پہنچ کر اپنے امیدواروں کو تلاش کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

ان کی پارٹی نے جیل میں بند اپنے رہنما کا پیغام لوگوں تک پہنچانے کے لیے مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ تقاریر کا استعمال کیا۔ عمران خان کو جیل میں دیا گیا شناختی (قیدی) نمبر کو انتخابی نعرے میں تبدیل کر دیا گیا۔

انہوں نے گوریلا طرز کی مہم چلائی اور انتخابات کے دن سب کو حیران کر دیا۔

دھاندلی کے تمام تر دعوؤں کے باوجود اُن کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) الیکشن میں واحد سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری۔ الیکشن والے دن خان کی مقبولیت کی لہر ایسی تھی کہ معمول کی دھاندلی سے اسے لگام نہیں ڈالی جا سکی۔

اسٹیبلشمنٹ نے ڈیجیٹل معاملات کی سمجھ بوجھ رکھنے والی نسل پر قابو پانے کے لیے 20 ویں صدی کے ہتھکنڈوں کا استعمال کیا، مگر ناکامی ہوئی۔

فوج کی آزمائی گئی چالوں پر، ووٹرز کا جواب شائستہ اور انحراف پر مبنی تھا، ’شکریہ، مگر ہم اتنے جاہل اور ناخواندہ نہیں ہیں، جتنا آپ سمجھتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ہم سڑکوں پر آپ کا مقابلہ نہ کر سکیں، آپ کے پاس بندوقیں ہیں، لیکن یہاں ووٹ پر ہماری مہر ہے۔ اب اس کا آپ جو مرضی چاہیں کریں۔‘

تجربہ کار باغی

عمران خان کو پارلیمنٹ میں سادہ اکثریت نہیں ملی، انہوں نے حکومت سازی کے لیے کسی دوسری پارٹی کے ساتھ اتحاد کرنے سے انکار کر دیا اور اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا۔

انہوں نے اپنا تشخص اور اپنی سیاسی مہم کو اپنے مخالفین کو کرپٹ کے طور پر پیش کر کے پروان چڑھایا ہے۔ وہ ان سیاستدانوں کے ساتھ اقتدار بانٹنے سے بیزار دکھائی دیے، جن پر وہ اپنے سیاسی کیرئیر میں اکثر اوقات تنقیدی جُملوں سے حملہ کرتے رہے۔

زیادہ تر پاکستانی سیاستدانوں کو کسی نہ کسی دور میں جیل میں وقت گزارنا پڑا ہے، لیکن اس چیز کا عمران خان سے زیادہ لطف کسی اور نے نہیں اُٹھایا۔

اپنے حامیوں تک پہنچنے کے لیے انہیں کوئی بھی عوامی پلیٹ فارم دستیاب نہیں تھا، انہوں نے اپنے وکلا اور قریبی خاندان کے افراد کے ذریعے بھیجے گئے پیغامات کے ساتھ اپنے جیل کی کوٹھری سے یہ انتخابی کامیابی حاصل کی ہے۔

گذشتہ مئی میں جب عمران خان کو ان کی حکومت کی برطرفی کے بعد پہلی بار گرفتار کیا گیا تو ان کے حامیوں نے ہنگامہ آرائی کی، فوج کی چھاؤنیوں اور فوج کی طاقت اور وقار کی دوسری علامتوں پر حملہ کیا۔ ایک سینیئر جنرل کے گھر کو آگ لگا دی گئی اور کچھ مشتعل افراد آرمی ہیڈ کوارٹرز میں داخل ہونے میں بھی کامیاب ہوئے۔

اس کے بعد ہونے والا کریک ڈاؤن برق رفتار اور سفاکانہ تھا۔

پی ٹی آئی کی زیادہ تر اعلیٰ قیادت کو اُٹھا لیا گیا اور عمران خان سے علیحدگی کے لیے دباؤ ڈالا گیا، کچھ نے اُن (عمران خان) کی سیاست کی مذمت کی، کچھ نے تاحیات سیاست ہی چھوڑ دی۔

اسٹیبلشمنٹ ایک واضح اشارہ دینا چاہتی تھی کہ عمران خان اور ان کی پارٹی ختم ہو چکی ہے۔ خان کے جیل میں ہونے کے ساتھ، جیسے جیسے الیکشن قریب آیا، پارٹی کو دوسرے درجے کی قیادت اور مقامی وفادار کارکنوں نے سنبھال لیا جو شکست خوردہ پارٹی کی جیت کی مہم کو منظم کرنے میں اہم کردار رہے۔

انہیں یقین تھا کہ ان کے لیڈر کو دوبارہ اقتدار میں آنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، لیکن انہوں نے اپنے ووٹ کے ذریعے ظاہر کیا کہ وہ اپنے لیڈر کو صرف اس لیے نہیں چھوڑ دیں گے کیونکہ فوج اُن کے اِس عمل کی خواہش کر رہی ہے۔

عمران خان جب اقتدار سے باہر ہوئے تو وہ ’افراتفری کے بادشاہ‘ بنے، جنہوں نے نہ صرف اپنے سیاسی مخالفین بلکہ آرمی اسٹیبلشمنٹ پر بھی اپنا غصہ اتارا۔

گرفتاری اور دیوار سے لگائے جانے سے قبل عمران خان نے اپنی تقاریر میں دعویٰ کیا کہ انہیں آزاد خارجہ پالیسی پر عمل کرنے کی پاداش میں امریکا کے کہنے پر اقتدار سے نکالا گیا۔

ان کے مخالفین کہتے ہیں کہ اقتدار میں رہتے ہوئے ان کی تمام پالیسیاں صرف اُن کی اپنی انا اور خواہشات پر مبنی تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب وہ اقتدار میں تھے تو انہوں نے ملک چلانے سے زیادہ وقت اپنے مخالفین کو راستے سے ہٹانے اور سزا دینے میں صرف کیا۔ حکومت میں رہتے ہوئے خان بٹے ہوئے دھیان کے ساتھ نظر آئے جو مہنگائی پر لگام لگانے کے لیے بروقت فیصلے کرنے میں ناکام رہے۔

حتیٰ کہ حکومت میں بھی وہ ایک اپوزیشن سیاست دان کی طرح اپنے سیاسی دشمنوں اور میڈیا کے خلاف آواز اٹھاتے تھے۔

دوسروں کو مشکل میں مبتلا رکھنا ان کی عادت ہے۔

جب ان کی پارٹی 2013 کے انتخابات میں ہار گئی تو انہوں نے نتائج کو الٹنے کے لیے انتھک مہم چلائی اور دارالحکومت اسلام آباد کا محاصرہ کر لیا۔ وہ اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی سے ایسا کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اب جب کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے دشمن نمبر ایک ہیں، تو وہ انتخابات میں اپنی پارٹی کی شاندار کاکردگی کے بعد خوش ہیں۔

ان کی پارٹی نے اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن عمران خان اپنی سیاست پارلیمنٹ میں نہیں بلکہ سڑکوں پر عوامی جلسوں اور سوشل میڈیا کی مدد سے کرنا پسند کرتے ہیں۔ موجودہ حکومت کو پہلے ہی ’ہارنے والوں کا اتحاد‘ کہا جا رہا ہے، یہ حقیقی طور پر ان سیاسی جماعتوں کا اتحاد ہے جنہیں انتخابات میں خان نے بری شکست دی۔

نتیجتاً الیکشن کے دو ہفتوں بعد تک خان کے مخالفین میں حکومت بنانے کا کوئی جوش دکھائی نہیں دیا۔ ایسا پہلی مرتبہ ہوا کہ ملک سرکردہ سیاستدان اقتدار کا دعویٰ کرنے کے بجائے اس کی ذمہ داری قبول کرنے سے گریزاں تھے۔

حکومت کرنے میں ہچکچاہٹ اس لیے ہے، کیونکہ پاکستان کو قرضوں کے شدید بحران کا سامنا ہے اور ایندھن اور خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے محنت کش طبقے کے لیے زندگی کو ناقابل برداشت بنا دیا ہے۔ حکمرانی کے ہر شعبے میں فوج کے بڑھتے ہوئے کردار کے ساتھ، اقتدار میں موجود سیاستدانوں کا کردار اب دنیا بھر میں گھوم پھر کر بین الاقومی اداروں سے بیل آؤٹ پیکج حاصل کرنے تک محدود ہو چکا ہے۔

بہت سے لوگوں نے ان خدشات کا اظہار بھی کیا ہے کہ کیا عمران خان کا جیل میں رہنا انہیں زیادہ سمجھدار سیاستدان بنا دے گا مگر اس کا امکان تو نہیں لگتا۔

وہ ایک آوارہ مزاج کے طور پر ترقی کی منازل طے کر رہے ہیں، وہ اسٹیبلشمنٹ کے لیے قابلِ قبول بننے کے لیے اپنے ایک حلیم ورژن میں تبدیل نہیں ہونا چاہیں گے۔

پرانے سیاستدانوں کے خلاف ان کے غصے نے انہیں پاکستان کا مقبول ترین لیڈر بنا دیا ہے۔ اور وہ اپنے اس تشخص کو محض اس لیے دھندلا نہیں ہونے دیں گے کہ وہ ایسے ملک کو چلائیں، جسے ان کے ہارے ہوئے مخالفین بھی چلانے سے گریزاں ہیں۔

یہ عمران خان کے لیے اپنی جنگ جاری رکھنے کے لیے بہترین ماحول ہے، اس صورتحال میں بھی جب وہ ملک کے سب سے مشہور قیدی نمبر 804 کے طور پر اڈیالہ جیل کی ایک کوٹھری میں قید ہیں۔

بشکریہ بی بی سی اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close