ہندی علماء تہذیب و تمدن و تاریخ کے مطابق یہاں انسانوں کا پہلا گروہ ان سیاہ فام لوگوں کا آیا ہے، جسے مجموعی طور پر نیگرئیو یا حبشی نما کہا جاتا ہے۔ بقول سیتیا کمارچیٹرجی، یہ اتنے بے استعداد لوگ تھے کہ خود کو نسلوں کے سیلاب میں برقرار نہ رکھ سکے اور معدوم ہو گئے۔ اس کے بعد آسٹرک لوگ آئے، یہ رنگارنگ لوگوں پر مشتمل گروہ تھے، اکثر انہیں ’’کول‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔
یہ پہلے زراعت کار اور چھوٹی چھوٹی بستیاں بسانے والے تھے۔ بقول سیتیا کمار، ان کی زبان کے زیادہ اثرات موجودہ بروشسکی زبان میں پائے جاتے ہیں۔ دراوڑ ان کے بعد آئے، جو بڑے بڑے شہر بساتے تھے اور تہذیب و تمدن میں مکمل تھے۔ ان دراوڑ کے بعد جو لوگ آئے، ان کو ’’آریا‘‘ کا نام دیا گیا ہے جو سراسر ایک غلط العام ہے۔ یہ آریا نہیں تھے بلکہ آریاؤں کے حریف اور دشمن ’’اساک‘‘ تھے۔ یونانیوں نے ان کو ’’سیتھین‘‘ کہا ہے۔ ایرانیوں نے ان کا نام تورانی رکھا ہے اور ہند کے برھمنوں نے ان کو کشتری (کش توری) کہا ہے۔
دنیا کی تاریخ میں غلط اور حقیقت کے بالکل برعکس نظریات پھیلانے والی دو اقوام ہیں۔ ایک بنی اسرائیل، جنہوں نے اپنے آپ کو برتر اور خدا کی برگزیدہ قوم بننے کے لیے تاریخ میں بہت ساری خرافات داخل کیں اور دوسرے’’برھمن‘‘ جو بنیادی طور پر بلخ میں پیدا ہوئے تھے اور آریا تھے، لیکن جب ہندوستان میں ان اساک خانہ بدوشوں کے پیر جم گئے اور خوشحال ہو گئے تو یہ آریائی برھمن بھی ان کے پیچھے چلے آئے، ایک لمبے عرصے تک ان کا کشتریوں سے ٹاکرا ہوتا رہا، پھر دونوں ساجھے دار بن گئے۔
برھمنوں نے ہی اجڈ، جاہل اور صرف تلوار کے دھنی کشتریوں کو آریا بنا ڈالا اور ان میں وہ تمام صفات ڈالیں، جو انسان میں ہو سکتی ہیں: بہادر، غیرت مند، شریف، نجیب الطرفین، مہمان نواز، عالی ظرف، سخی، فراخ دل وغیرہ۔ کشتری تو صرف جنگ جُو تھے، ان کا لکھت پڑھت سے کوئی علاقہ نہیں تھا، اس لیے برھمنوں نے جو کہا مان لیا۔ یوں یہ خانہ بدوش لوگ آریا بنا دیے گئے اور وہ بن گئے۔ چنانچہ آریاؤں کے ساتھ تمام صفات وابستہ کی گئیں اور ان سے قبل آریائی لوگوں کو تاریخ سے معدوم کر دیا گیا، جو ہند میں تہذیب و تمدن کے آفریدہ گار تھے۔
پروفیسر محمد مجیب نے اپنی ’’تاریخ تمدن ہند‘‘ نامی کتاب میں لکھا ہے کہ ان آریوں کی آمد سے پہلے ہند میں تہذیب و تمدن عروج پر تھی، اور یہ کہ ہند کے برھمن دراصل شاکھادیپ (ساکوستان) موجودہ سیستان اور بلخ و باختر کے ’مع‘‘ تھے۔ بتانا یہ مقصود ہے کہ ہندوستان میں جب برھمن آریا آئے تو ان بچارے قبل آریائی، زراعت کار اور انتہائی پرامن اور صلح جُو پر حاوی ہو گئے تو انہوں نے ان سے قبل آریائی لوگوں کی تہذیب و تمدن، زبان، تاریخ سب کچھ اپنے نام کرنے کے لیے ان کو ہر طرح مٹانے کی کوشش کی اور یوں جتانے کی کوشش کی جیسے ان لوگوں سے پہلے یہاں نہ کوئی تہذیب تھی، نہ تمدن۔۔ اور یہ سب کچھ ہم لائے ہیں۔
ڈاکٹر وزیر آغا نے مولانا صلاح الدین کے رسالے ’’ادبی دنیا‘‘ میں ایک مضمون لکھا تھا، اس میں کہا تھا کہ ’’بھارت ایک گندے غلیظ جوہڑ کی طرح تھا اور آریا اس میں ایک تازہ اور شفاف دھارے کی طرح آ کر مل گئے اور اسے شفاف کردیا‘‘ اب یہ بھی ایک آریائی فخریہ دعویٰ ہے ورنہ آریا (جو اصل میں آریا تھے ہی نہیں) لوگ اپنے ساتھ جو تحفہ لائے وہ ’’خونریزی‘‘ تھی، اس سے پہلے یہاں امن ہی امن اور آشتی ہی آشتی تھی۔ ثبوت یہ ہے کہ ان سے قبل آریائی آبادیوں کے آثار میں سب کچھ ملا ہے، لیکن ’’ہتھیار‘‘ کوئی نہیں ملا۔
ایک اور خاص بات یہ ہے کہ دنیا کے سارے قدیم آثار میں ملنے والے سارے نوشتے پڑھے جا چکے ہیں، لیکن ان سے قبل دراوڑی آبادیوں سے ملنے والی مہریں اور تحریریں ابھی تک نہیں پڑھی جا سکی ہیں، کیوں؟ اس لیے کہ اگر تحریریں پڑھی گئیں آریائی فخر کی بلند ترین عمارت گر جائے گی، حالانکہ یہ قبل آریائی تہذیب اتنی وسیع تھی کہ دجلہ و فرات کی ایک تختی پر ہری یوپیا (ہڑپا) اور کے کپاس کے تاجروں کا ذکر موجود ہے بلکہ یہ ایک تجارتی معاہدہ ہے جو ’’ہری یوپیا‘‘ کے کپاس کے تاجروں سے کیا گیا تھا۔
خلاصہ اس بحث کا یہ ہے کہ ان آریا (کشتریوں اور برھمنوں) سے پہلے یہاں زبانیں بھی تھیں اور تحریریں بھی۔۔ اور ان زبانوں کی جانشین زبانیں اب بھی یہاں موجود ہیں اور ان زبانوں کی پہچان بھی بڑی آسان ہے۔ وہ تمام زبانیں جن میں ’’ڑ‘‘ کی آواز یا حرف ہے۔ ان قدیم زبانوں کی جانشین ہیں۔ ان زبانوں میں کیرل یا پھر سندھی، پنجابی پشتو اور کئی مقامی زبانیں۔ جن میں(ڑ) کا حرف یا آواز موجود ہے۔ کیونکہ جس زمانے میں ’’انسانیت‘‘ بچہ تھی، تو انسانوں کا ’ووکل ساونڈ‘ سسٹم یا مخرج بچوں کی طرح کھردرا تھا۔ بچے جب ابتدا میں بولنا سیکھتے ہیں، چاہے وہ کسی بھی زبان کے ہوں تو ان کے منہ سے ڑ ڑ ڑ کی آواز زیادہ نکلتی ہے۔ جو بعد میں صاف ہو کر (ر) بن جاتی ہے۔
یہ (ڑ) صرف قبل آریائی قدیم زبانوں کی خصوصیت ہے۔سنسکرت میں (ڑ) کا حرف بالکل موجود نہیں ہے، چنانچہ سنسکرت میں (ڑ) کا حرف (ڈ) سے لکھا جاتا ہے، جیسے سڑک کو سڈک گاڑی کو گڈی، بوڑھے کو بڈھا، لڑکا لڑکی کو لڈکا لڈکی۔ لڑائی کو لڈائی گڑھے کو گڈھا، بڑے کو بڈا لکھا جاتا ہے۔
اب ہم اس (ڑ) کو لے کر ڈھونڈنے نکلتے ہیں تو یہ آواز یا حرف دنیا کی کسی زبان یا لسانی نظام میں نہیں پایا جاتا، جو قدامت کا ناقابل تردید ثبوت ہے۔ صرف اس وجہ سے نہیں کہ پشتو میری اپنی زبان ہے بلکہ غیرجانبدارانہ حیثیت سے بھی کہا جائے تو یہ (ڑ) کا حرف سب سے زیادہ پشتو میں پایا جاتا ہے، نہ صرف الفاظ بلکہ تمام افعال میں بھی (ڑ) کی کثرت ہے، بلکہ ایسا جملہ کوشش کر کے ہی بولا جا سکتا ہے، جس میں ایک دو دفعہ (ڑ) نہ آتی ہو۔
کڑے دے (کیا ہے) اوکڑہ (کرو) مہ کڑہ (مت کرو) کڑم (کرتا ہوں) مڑ (مر) مڑ دے (مر گیا ہے) مڑینہ (موت) مڑے (مردہ) مڑشو (مرگیا) خوڑل (کھانا) خوڑہ (کھانے کی چیز) خوڑلے (کھائی ہوئی) خوڑدہ (تبرک) یہاں تک کہ دنیا کی کسی زبان میں بھی کسی لفظ کی ابتدا (ڑ) سے نہیں ہوتی چنانچہ لغتوں اور ڈکشنریوں میں جب (ڑ) کی باری آتی ہے تو وہاں لکھا ہوتا ہے کہ کسی بھی لفظ کی ابتدا اس پندرہویں حرف سے نہیں ہوتی۔ لیکن پشتو میں ایسے بے شمار الفاظ ہیں جو (ڑ) سے شروع ہوتے ہیں ڑوند (اندھا) ڑاندہ (اندھے) ڑنگ (بگڑا ہوا) ڑق (ہلنا) ڑپ (پانی کی آواز) ڑہ (دل)
مطلب یہ ہے کہ انسانیت کے بچپن میں جب مخرج کھردرے تھے، وہی زبانیں رائج ہوئیں، جن میں (ڑ) کا حرف سب سے زیادہ استعمال ہوتا تھا، پھر جو لوگ یہاں سے نقل مکانی کر کے دنیا میں منتشر ہوئے، ان کی زبانیں بھی بدل گئیں، لیکن یہ خطہ جہاں کے لوگ یہیں رہ گئے، ان کی زبانوں نے ترقی نہیں کی جیسے سرچمشے کا پانی ہمیشہ ایک رنگ اور ذائقہ رکھتا ہے جو پانی بہہ کر دوسری زمینوں میں جاتا ہے وہ بدل تو جاتا ہے لیکن اصل سرچشمے کا پانی ان میں موجود ہوتا ہے، چنانچہ ان قدیم زبانوں کے الفاظ بھی ساری زبانوں میں موجود ہیں۔ (اختتام)
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)