آج تک ر وئے زمین پر ایسا کبھی نہیں ہوا ہے کہ آپ نے بیج بویا ہو اور آناً فاناً وہ بیج سر سبز پھل دار درخت بن کر زمین سے نکلا ہو، اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ درخت آسمان کو چھونے لگا ہو۔ یا پھر ایک بچہ پیدا ہوتے ہی ایک سو میٹر آٹھ سکینڈ میں دوڑنے لگا ہو۔ یہ ممکن نہیں ہے۔ پہلی اینٹ رکھنے کے فوراً بعد تاج محل بن کر تیار نہیں ہوا تھا۔ تاج محل بننے میں بائیس برس لگے تھے۔
ڈیڑھ سو برس پہلے الیگزینڈر گراہم بیل نے اگر ٹیلیفون ایجاد نہیں کیا ہوتا، تو آج آپ کے ہاتھ میں موبائل فون نہ ہوتا۔ آناً فاناً کچھ نہیں ہوتا۔ بیج بونے کے فوراً بعد زمین سے دیو ہیکل درخت اچانک پھوٹ کر نہیں نکلتے ۔ ارتقائی عمل صبر آزما ہوتا ہے۔ آج جو آپ معاشرے کو اس قدر ترقی یافتہ دیکھ رہے ہیں، ہماری پچاس، ساٹھ ، ستر برس کی لگاتار کوششوں کا ثمر ہے۔ ہم نے پچاس، ساٹھ اور ستر برس پہلے جو بیج بویا تھا، آج آپ اس کی بدولت اپنے معاشرے کو ترقی یافتہ کہلوانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔
اقوامِ عالم کے ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں ہمارا شمار پہلے پانچ ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں شخصی آزادی، اظہار کی آزادی لکھنے پڑھنے کی مکمل آزادی ہے۔ ہمارے ہاں دن دہاڑے مارپیٹ، چھینا جھپٹی اور قتل و غارت گری نہیں ہوتی۔ آپ کے جان و مال کی حفاظت حکومت کی ذمہ داری ہے۔ طبی اور تعلیمی سہولتوں کے لئے آپ کو اپنا پرس ٹٹولنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ یہ دونوں سہولتیں آپ کے بنیادی حقوق میں شامل ہیں۔ عدالتوں کے دروازے آپ پر کبھی بند نہیں ہوتے۔ پسینہ خشک ہونے سے پہلے آپ کو اپنے کام کی اجرت مل جاتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں دروازوں کو کنڈی یا تالا لگانا ضروری نہیں سمجھا جاتا۔ جو کچھ آپ نے کمایا ہے، وہ آپ کی املاک ہے۔ کوئی آپ سے آپ کی املاک چھین نہیں سکتا۔ آپ کی روحانی تربیت میں شامل کر دیا جاتا ہے کہ آپ کسی سے اس کی اپنی اشیا اور املاک چھین نہیں سکتے۔ آپ اپنے خیالات اور سوچ کسی پر مسلط نہیں کر سکتے۔ تربیت کے دوران آپ کو ہدایت دی جاتی ہے کہ معاشرے میں اپنی عزت کروانے کے لئے لازمی آپ دوسروں کی عزت کریں۔
جب معاشرہ ترقی یافتہ ہوتا ہے، تب دو اعمال خاص طور پر بڑھ چڑھ کر نمایاں ہونے لگتے ہیں۔ ایک تخلیقی عمل اور دوسرا تکنیکی یعنی Technological یعنی فنی، صنعتی علوم عام ہونے لگتے ہیں۔ بچوں کو تعلیم و تدریس کے دوران، خاص طور پر ابتدائی برسوں میں میکانکی Mechanical، الیکٹریکل آلات اور مشینری سے روشناس کروا دیا جاتا ہے۔ آپ ترقی کی ان بلندیوں پر پہنچ جاتے ہیں جہاں Exports کی مد میں اس قدر خود کفیل ہو جاتے ہیں کہ آپ کو زرمبادلہ امداد میں غریب ملکوں کو اور آئی ایم ایف اور ایشیائی ترقیاتی بینک کو عطیہ کی مد میں دیتے ہیں۔ دنیا بھر میں قدیم ثقافتوں اور آثار قدیمہ کی حفاظت کرنے والے ادارے یونیسکو کو بھی ہم عطیہ دیتے ہیں۔ جن ممالک میں تعلیمی اداروں کی کمی اور کوتاہی ہے، ان ممالک میں ہم فی سبیل اللہ اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں کا جال بچھا دیتے ہیں، جی ہاں حقائق پر مبنی باتیں میں آپ کو سنا رہا ہوں۔۔
یہ سب کچھ آناً فاناً نہیں ہوا ہے۔ اس کے پیچھے بلکہ پسِ پردہ ہماری ٹی بی تحریک کار فرما ہے۔ ٹی بی تحریک نے پچاس، ساٹھ ستر برس پہلے اپنے معاشرے کی کسمپرسی کا تجزیہ کر لیا تھا۔ تمام اسباب کا باوا آدم ایک ہی سبب تھا۔ وہ تھا، حکومتوں میں اقرباپروری کا نقص۔ ایک بنیادی غلطی، کوتاہی، نقص آنے والے ایام میں آپ کے لئے غلطیوں، کوتاہیوں اور نقائص کے انبار لگا دیتے ہیں۔ آپ بکھرنے لگتے ہیں۔ آپ ٹوٹنے لگتے ہیں۔ کسمپرسی میں دھنستے چلے جاتے ہیں۔ آپ غریب اور مفلس ہوتے جاتے ہیں۔ بھیک مانگنے کے لئے آپ کشتہ اٹھالیتے ہیں۔ امداد کی خاطر آس لگائے بیٹھے رہتے ہیں۔ دولتمند اسلامی ممالک سے آپ زکوٰۃ لینے میں عار محسوس نہیں کرتے۔ یہ سب کچھ ہوتا ہے اسباب کے ایک باوا آدم سبب کی وجہ سے۔۔
ایک کے بعد دوسری ناقص اور نا اہل حکومت کی وجہ سے ملک زوال پذیر ہوتا جاتا ہے۔ حکومتیں ناقص، نالائق اور نا اہل اس لئے ہوتی ہیں کہ ایسی نکمی حکومتیں کنبوں پر مبنی ہوتی ہیں اور کنبے کے افراد مل جل کر حکومت چلاتے ہیں۔ بھانجے، بھتیجے ، بھتیجیاں، چاچے، مامے، کزن اور ٹیلنٹڈ کزن، ساس، سسر، داماد، بہوئیں، بیٹے اور بہنیں حکومتوں کی باگ ڈور انہماک سے سنبھالے رکھتے ہیں۔
ٹی بی تحریک نے فیصلہ کیا کہ ملک کو ایک اہل اور لائق حکومت دینے کے لئے ہم ملک گیر مہم چلائیں گے۔ ہم لوگوں کو قائل کریں گے کہ وہ کھوج لگائیں اور فیملی ممبرز کو انتخابات میں ہرگز ووٹ نہ دیں۔ پورے کنبے کو ملنے والے جعلی ووٹوں پر نظر رکھیں۔ جس روز آپ کنبوں کو انتخابات میں شکست دے دیں گے، اس روز سے پاکستان کی ترقی کا آغاز ہوگا۔
بھائیو اور بہنو، یہ جو آپ ملک میں ہوشربا ”ترقی“ کا بول بالا ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، وہ آج سے پچاس، ساٹھ ، ستر برس پہلے شروع کی گئی ملک گیر مہم کا حصہ ہے۔ یہ جو ہمارا شمار دنیا کے معتبر پانچ ”ترقی یافتہ“ ممالک میں ہوتا ہے، اس کا بیج پچاس، ساٹھ، ستر برس پہلے ٹی بی تحریک نے بویا تھا۔ ٹی بی تحریک سے مراد ہے تیتر بٹیر تحریک، اس تحریک میں ایسے لوگ شامل تھے، جو افسانے لکھتے تھے اور کسی نہ کسی اخبار کے لئے کام بھی کرتے تھے۔ ان میں خوشونت سنگھ بھی شامل تھے۔ کرشن چندر بھی شامل تھے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ۔
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)