گوڑانو ڈیم کا عذاب

آفاق بھٹی (ترجمہ: مجتبیٰ بیگ)

اہلِ تھر کی زندگیوں سے جڑے ایک بنیادی مسئلے پر آواز اٹھانے کے لیے ’تھر راجونی تنظیم‘ کے بلاوے پر 9 مارچ 2024 بروز ہفتہ ہم اسلام کوٹ کے نزدیک گوڑانو ڈیم پہنچے۔ ہم نے وہاں کے گاؤں والوں سے ملاقات کی اور ان کا حال احوال دریافت کیا، ان میں سے ہر ایک نے خواہ وہ بچے ہوں یا عورتیں، جوان ہوں یا بوڑھے، اپنے اوپر ہونے والے مظالم کی داستانیں سنائیں۔

ان کی کہانیاں ایسی درد بھری کہ حساس دل یا کمزور اعصاب والے سنیں تو ان پر رقت طاری ہو جائے۔ سڑکوں پر لگے رنگ برنگے بورڈز کو دیکھ کر ہم تھر کی ترقی کے دعووں کو مان تو جائیں مگر جوں ہی سڑکوں سے ہٹ کر کچے رستوں پر آئیں تو اصل حقائق دکھائی دیتے ہیں۔

اس جدید دور میں بھی تھر کے لوگ آج سے سو سال پیچھے رہنے پر مجبور ہیں۔ پانچ ہزار سال سے بھی پہلے آباد موہن کے شہر (موہن جو دڑو) سے پکی اینٹوں کے گھروں کے آثار ملے ہیں، مگر آج کے اس جدید دور میں ایک چھوٹی شہری آبادی کے علاوہ پورے تھر میں پکی اینٹوں کے گھر کہیں نہیں ہیں۔ دیگر سہولیات تو دور کی بات، تھر کے باسی اب بھی پینے کے صاف پانی کے گھونٹ گھونٹ کے لیے ترس رہے ہیں۔

تھرکول کے منصوبے کے بعد تھر کے باسیوں کے مسائل سنگین اور زیادہ ہو گئے ہیں۔ چُلو بھر میٹھا پانی نہ ہونا تو رہا ایک طرف، اب تو صاف ہوا کا حق بھی ان سے چھین لیا گیا ہے۔۔ ایک دیہاتی نے بتایا کہ جب سے کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹس لگے ہیں، ان کے گاؤں کے بہت سے لوگ دمہ جیسی خطرناک بیماری میں مبتلا ہو چکے ہیں، جب کہ صحرا میں جِلد اور خارش کی بیماریاں بھی عام ہیں۔

ہم نے گوڑانو ڈیم پر تمام درختوں کو سوکھا ہوا دیکھا۔ اس حوالے سے دیہاتیوں کا کہنا تھا کہ گوڑانو کے اردگرد 55 کنوؤں کا پانی زہریلا ہو چکا ہے، جس سے علاقے کے لوگ نقل مکانی پر مجبور ہو گئے ہیں۔ کمپنی والے تو بس جھوٹے وعدے کر رہے ہیں، اب ہم اپنے بال بچوں کو لے کر کہاں جائیں۔

میں نے ان سے کہا کہ کمپنی تو کہتی ہے کہ دیہاتیوں کے لیے آر او پلانٹ لگائے گئے ہیں، جن سے مقامی لوگوں کو صاف پانی فراہم کیا جا رہا ہے۔

جس کے جواب میں دیہاتیوں کا کہنا تھا کہ ہر گاؤں میں آر او پلانٹس نہیں ہیں، جبکہ دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہر شخص کو صرف دو لیٹر یومیہ پانی دیا جاتا ہے۔ اب آپ ہی بتائیں کہ اس دو لیٹر کا ہم کیا کریں اور دوسری بات یہ کہ اتوار کو آر او پلانٹس بند ہوتے ہیں۔

مہمان آ جائیں تو کیا کریں؟ مہمان آتے ہیں تو ہم اپنے حصے کا پانی انہیں دے کر خود پیاسے رہتے ہیں۔

ہماری کوئی سننے والا نہیں ہے۔ ہم مقامی لوگوں کو تھر کول منصوبے سے بہت نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ گوڑانو ڈیم کے اردگرد انسانی المیہ رونما ہوا ہے اور اطراف کا قدرتی ماحول تباہ ہو گیا ہے۔

کوئلے کے منفی اور ماحولیاتی اثرات کی وجہ سے جلے ہوئے درختوں، پودوں، پرندوں اور جنگلی حیات کے رہن سہن پر بہت زیادہ منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

گوڑانو ڈیم کے کڑوے پانی سے زمینی پانی زہریلا ہونے پر تھر پنچایت تنظیم کی جانب سے تھر کے قدرتی ماحول سے اظہار یکجہتی کے لیے انسانی زنجیر بنائی گئی۔

ملک کے مختلف حصوں سے ماحول دوست کارکنان، فنکاروں، ادیبوں اور صحافیوں نے بھی اس سلسلے سے متاثرہ دیہاتیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے تقریب میں شرکت کی۔ گوڑانو ڈیم پر منعقدہ جلسہ عام کے اختتام پر تھر کی عوامی پنچایت کے قائدین بھیم راج، لچھمن داس، دیدار بھیل، رسول بخش سموں، طالب علم رہنما کش کمار نے درج ذیل مطالبات پیش کئے۔

 

کوئلے کی کان کنی سے نکلنے والے زہریلے پانی سے ہونے والے نقصانات کا ازالہ کیا جائے۔

کوئلے کی بجائے متبادل توانائی کے منصوبے متعارف کروائے جائیں۔

مقامی آبادی کے لیے پینے کے صاف پانی سمیت ان کی زمینوں اور ماحول کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے ۔

مقامی لوگوں نے مطالبہ کیا کہ تھر میں کوئلے کے گندے پانی کی ذخیرہ گاہ کو انسانی آبادی سے دور محفوظ طریقے سے بنایا جائے اور کوئلے کے منفی اثرات کو روکنے کے لیے قانونی اقدامات کیے جائیں۔

جیون سانجھ راجونی، پاکستان ماحولیاتی تحفظ موومنٹ، کلائمیٹ ایکشن سینٹر کے روح رواں یاسر دریا، سندھ انڈیجینس رائٹس الائنس، حیدرآباد پریس کلب کے صدر لالہ رحمان، فشر فوک رہنما فاطمہ مجید، پروفیسر اسماعیل کنبھر کی قیادت میں جامعہ زرعیہ ٹنڈوجام کے طلباء کے وفد اور اسلام کوٹ سمیت ملک کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کی بڑی تعداد نے احتجاج میں شرکت کی۔

بشکریہ چہرہ نیوز۔
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close