ویکسین کے خلاف احتجاج، حالات قابو سے باہر، کینیڈین دارالحکومت میں ایمرجنسی نافذ

ویب ڈیسک

اوٹاوا – کینیڈا کے دارالحکومت اوٹاوا میں ویکسینیشن کے خلاف ٹرک ڈرائیورز کے جاری احتجاج پر انتظامیہ کی جانب سے ایمرجنسی لگا دی گئی ہے، شہر کے میئر نے تسلیم کیا ہے کہ حالات قابو سے باہر ہو گئے ہیں

کینیڈا کے دارالحکومت اوٹاوا کے میئر نے کووڈ19 کی بندشوں کے خلاف ٹرک ڈرائیوروں کے احتجاج کے مد نظر شہر میں ہنگامی حالت کے نفاذ کا اعلان کیا ہے۔ مظاہروں کا سلسلہ گزشتہ ہفتے سے ہی جاری ہے تاہم اس ہفتے کے آخر میں اوٹاوا میں ہزاروں مزید مظاہرین اس میں شامل ہوئے ہیں

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق مظاہرین 29 جنوری کو دارالحکومت پہنچے تھے، انہوں نے اپنے ٹرک سڑکوں پر اور گلیوں میں کھڑے کیے اور جگہ جگہ خیمے لگا لیے، جس سے شہر کا نظام زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا اور شہریوں کو پریشانی کا سامنا ہے

ویکسین کے خلاف احتجاج کے باعث معمولات زندگی شدید طور پر متاثر ہونے کے بعد اوٹاوا کے میئر جم واٹسن کی جانب سے ایمرجنسی لگائے جانے کے اعلان کے ساتھ انتظامیہ نے ایک بیان بھی جاری کیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ”یہ مظاہرین کی وجہ سے بننے والی صورت حال شہر کے رہائشیوں کی سلامتی کے لیے خطرے کا باعث ہے۔“

قبل ازیں اتوار کو میئر واٹسن نے صورت حال کو ’مکمل طور پر قابو سے باہر‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ مظاہرین کے پاس ہمارے اہلکاروں سے زیادہ لوگ ہیں

انہوں نے سی ایف آر اے ریڈیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ’یہ بات واضح ہے کہ ان کی تعداد زیادہ ہے، اور ہم یہ جنگ ہار رہے ہیں۔ اس صورت حال کو تبدیل ہونا چاہیے، ہم کو اپنا شہر واپس لینا ہے۔‘

واٹسن نے ٹرک ڈرائیورز کو ’بے حس‘ قرار دیتے ہوئے کہ انہوں نے ہارن اور سائرن بجانے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اور احتجاج کو پارٹی میں تبدیل کر رکھا ہے

انہوں نے کہا کہ مظاہرین نے، ہارن، سائرن اور آتش بازی کا ایک سلسلہ جاری کر رکھا ہے، اور اسے ایک جشن میں تبدیل کر دیا ہے

اس دوران پولیس نے بھی لوگوں کو مظاہرین کی مدد سے روکنے کے لیے نئے اقدامات کا اعلان کیا ہے۔ اوٹاوا کی پولیس فورس نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا کہ مظاہرین کے لیے مادی امداد لانے کی کوشش کرنے والوں کو گرفتار بھی کیا جا سکتا ہے

پولیس نے یہ بھی کہا کہ اس نے ان مظاہروں سے متعلق ہونے والی خلاف ورزیوں کے سلسلے میں ہفتے کے روز سے اب تک ساڑھے چار سو سے زیادہ چالان جاری کیا ہے

واضح رہے کہ ٹرک ڈرائیوروں نے امریکا اور کینیڈا کے بارڈر پر یہ احتجاج اس وقت شروع کیا، جب ان کے لیے کورونا کی ویکسینیشن لازمی قرار دی گئی

تاہم بعد میں یہ احتجاجی مظاہرے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کی حکومت کے خلاف ایک وسیع تر احتجاج میں بدل گئے۔ گزشتہ ہفتے، کراؤڈ فنڈنگ کی ویب سائٹ، ‘گو فنڈ می’ نے اس احتجاج کے لیے چندہ جمع کرنا شروع کیا تھا

اسی طرح کے مظاہرے ہفتے کے روز ٹورنٹو، کیوبیک سٹی اور ونی پیگ میں بھی ہوئے۔ کیوبیک سٹی میں پولیس نے کہا کہ تقریباً تیس بڑے ٹرک ایک بڑے راستے کو روک رکھا ہے۔ حکام نے انہیں خبردار کیا ہے کہ اگر جلد ہی انہیں نہ ہٹایا گیا، تو انہیں جرمانے کا سامنا کرنا پڑے گا

سٹی کونسل کے ایک رکن ڈیانے ڈینز نے کہا کہ اب یہ احتجاج، ”صرف اوٹاوا کے ایک شہر کا مسئلہ نہیں، بلکہ اس سے بڑا ہے، یہ ایک ملک گیر بغاوت ہے۔”

ہفتے کے روز اوٹاوا پولیس کے سربراہ پیٹر سلوی نے ان مظاہروں کو ایک ”محاصرہ” قرار دیتے ہوئے مزید فورسز کو طلب کیا۔ ادھر وفاقی کینیڈین ماؤنٹیڈ پولیس 250 افسران پر مشتمل ایک ٹیم ا وٹاوا بھیجنے والی ہے

مقامی رہائشیوں نے شکایت کی ہے کہ ڈرائیور کی جانب سے بجائے جانے والے ہارنز کی وجہ سے ان کو بے آرامی کا سامنا ہے، جبکہ مظاہرین کی جانب سے مبینہ طور پر ہراساں کیے جانے اور تضحیک کا نشانہ بنائے جانے کی شکایت بھی کی ہے

دوسری جانب مظاہرین اور ان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ احتجاج کا سلسلہ تب تک جاری رہے گا، جب تک حکومت کورونا سے متعلق بندشوں کو ختم نہیں کرتی

ادہر امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ سمیت امریکی ریپبلکن پارٹی کے بعض دیگر اراکین نے ٹرک ڈرائیوروں کے ان احتجاجی مظاہروں کی حمایت کی ہے۔ ٹرمپ نے کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کو، ”بائیں باوز کا سخت گیر پاگل“ قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کووڈ19 سے متعلق قوانین نافذ کر کے کینیڈا کو تباہ کر دیا ہے

تاہم اتوار کو کینیڈا کے سابق امریکی سفیر نے ایسے بیانات کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کو اپنے پڑوسیوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت بند کرنی چاہیے

انہوں نے مزید کہا کہ بدقسمتی سے آج کینیڈا امریکی بنیاد پرست سیاست دانوں کا سامنا کر رہا ہے، جو خود کو کینیڈا کے گھریلو مسائل میں شامل کر رہے ہیں۔ ٹرمپ اور ان کے پیروکار نہ صرف امریکا بلکہ تمام جمہوریتوں کے لیے خطرہ ہیں

انہوں نے مزید کہا، ”بد قسمتی سے آج کینیڈا امریکی بنیاد پرست سیاست دانوں کا سامنا کر رہا ہے، جو خود کو کینیڈا کے گھریلو مسائل میں شامل کر رہے ہیں۔ ٹرمپ اور ان کے پیروکار نہ صرف امریکا بلکہ تمام جمہوریتوں کے لیے خطرہ ہیں۔”

قبل ازیں ہفتہ اور اتوار کو بھی احتجاج کا سلسلہ جاری رہا تھا اور اس کا دائرہ وسعت اختیار کرتے ہوئے کینیڈا کے معاشی مرکز ٹورانٹو تک پہنچ گیا تھا

روئٹرز نے رپورٹ کیا تھا کہ ہفتے کو دارالحکومت اوٹاوا سے شروع ہونے والا احتجاج کا سلسلہ زیادہ تر پرامن مگر شور شرابے سے بھرپور ہے

مظاہرے میں شریک رابرٹ نامی شخص، جنہوں نے اپنے نام کا دوسرا حصہ نہیں بتایا، کا کہنا تھا کہ’ہم سب ایسے حکم ناموں اور دھمکیوں سے تنگ آ گئے ہیں جس نے ہماری زندگی کو ایک بڑی جیل تک محدود کر دیا ہے۔‘

مظاہرین نے آٹھ روز تک اوٹاوا کو بند رکھا جن میں سے کچھ نے نازی پرچم اٹھا رکھے تھے جبکہ کچھ کا کہنا تھا کہ وہ کینیڈا کی حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں

وزیر ٹرانسپورٹ عمر الغبرا کا کہنا ہے کہ ’اوٹاوا میں مظاہرین نے اپنا موقف پیش کیا، اور پورے ملک میں ان کی بات سنی گئی ہے۔‘

انہوں نے مظاہرین پر زور دیا کہ وہ گھروں کو جائیں اور منتخب حکام سے بات کریں.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close