مجھے نہیں معلوم کہ ایک سال میں ایک دن کوئی ایسا گزرا ہو، جس دن اقوام متحدہ نے کسی حیلے بہانے سے بین الاقوامی دن منانے میں کوتاہی کی ہو۔ بتانے والوں نے مجھے بتایا ہے کہ ایک سال کے تین سو پینسٹھ دنوں میں اقوام متحدہ کا ادارہ لگ بھگ سات سو دن بین الاقوامی دنوں کے طور پر مناتا ہے۔ آپ نے ایک سال کے دن کبھی گننے کی کوشش کی ہے؟ میں نے کبھی یہ جان لیوا کوشش نہیں کی ہے۔ ہمارے ایک انقلابی دوست نے یہ کارنامہ کرکے دکھایا ہے۔ انقلاب کی ڈینگیں مارتے مارتے وہ جیل جا پہنچا، چونکہ جیل میں بھی وہ انقلاب کی ڈینگیں مارنے سے باز نہیں آتا تھا، اس لیے جیل حکام نے اسے سب قیدیوں سے الگ تھلگ کر کے رکھا تھا۔
غسل خانے جتنی کوٹھڑی میں اسے بند کر دیا گیا تھا۔ تب اس نے دن گننے، جیسے مشغلے سے دل لگا لیا۔ صبح نیند سے اٹھتا، سب سے پہلے ایک دیوار پر چھوٹی سی لکیر لگا دیتا۔ اس کا مقدمہ اس قدر پیچیدہ تھا کہ سب سے پہلے بیوی نے طلاق کے بعد علیحدگی اختیار کرلی۔ کچھ عرصہ بعد مطلقہ بیوی نے ایک گنجے ایم این اے سے شادی رچالی اور گنجے ایم این اے نے اس کو بھی ایم این اے بنوا دیا۔ ایسے کارنامے گنجے ایم این اے کے لیے دائیں ہاتھ کا کھیل تھے۔ اس نے اپنا کنبہ اسمبلی میں بٹھا دیا تھا۔ اس کے مامے، چاچے، بہنوئی، بھتیجے، نندیں، بھاوجیں، ماسیاں اسمبلی کی ممبر تھیں۔ اقوامِ متحدہ کی جانب سے روزانہ بھاری بھر کم کنبوں کے ہر فرد کا کوئی نہ کوئی دن منایا جاتا ہے۔ ساس کا دن، سسر کا دن، نند کا دن، بھاوج کا دن، سالے کا دن، سالی کا دن، خاص طور پر وہ سالیاں جو دولہا میاں کے جوتے چراتی ہیں اور منہ پر ہاتھ رکھ کر کھل کھلاتی رہتی ہیں۔
مجھے کسی نے بتایا ہے کہ بیس فروری کا دن اقوامِ متحدہ نے چڑیوں کے نام کیا ہوا تھا۔ یعنی بیس فروری کے روز اقوامِ متحدہ نے اور اقوامِ متحدہ کے ممبر ممالک نے چڑیاؤں کے حوالے سے بین الاقوامی دن کے طور پر منایا تھا۔ چڑیاؤں کا عالمی دن دیگر ممالک کے لوگوں کو کیسا لگا تھا، میں نہیں جانتا، مگر چڑیاؤں کا عالمی دن منانا مجھے بہت اچھا لگا تھا۔
چڑیائیں درخت، خاص طور پر نیم کے درختوں پر بسیرا کرتی ہیں۔ درختوں پر اپنا آشیاں یعنی گھونسلا بناتی ہیں۔ شام ہوتے ہوتے چڑیائیں اپنے اپنے آشیانوں یعنی گھونسلوں کی طرف لوٹ آتی ہیں۔ لوٹ آنے کے بعد چڑیائیں خاموش نہیں رہتیں، چہچہاتی رہتی ہیں۔ جب تک آپ سنتے نہیں، تب تک آپ اندازہ نہیں لگا سکتے کہ ہزاروں کی تعداد میں جب چڑیائیں مل کر چہچہاتی ہیں، تب آپ کیسا محسوس کرتے ہیں۔
کراچی کی فٹ پاتھوں پر لگے ہوئے قطار در قطار نیم، برگد اور پیپل اور بادام کے پیڑ آپ نے دیکھے ہی کب تھے۔ درختوں کے نیچے رکھے ہوئے بینچوں پر آپ بیٹھے ہی کب تھے۔ ان بینچوں کے حوالے سے یادوں کے انبار کراچی میں بکھر گئے ہیں۔۔ اب نہ ہیں فٹ پاتھ، نہ ہیں قطار در قطار، نیم، برگد اور پیپل کے گھنے پیڑ اور نہ ہیں درختوں کے سایے تلے رکھے ہوئے خوب صورت بینچ۔۔۔ یہ چیزیں انگریز اپنے ساتھ سمیٹ کر لے نہیں گئے تھے، سب کچھ یہیں چھوڑ گئے تھے۔
یہ تو اچھا ہی ہوا کہ اقوامِ متحدہ نے بیس فروری کا دن چڑیاؤں کے نام وقف کر دیا، ورنہ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ شامیں کیوں اس قدر اداس ہوتی جا رہی ہیں۔ درختوں کو کٹتے ہوئے اور بینچوں کو غائب ہوتے ہوئے ہم نے جوانی میں دیکھ لیا تھا۔ تب پتا نہیں چلتا تھا کہ ہم کیا کھو رہے تھے۔ ہم اندر سے خالی ہوتے جا رہے تھے مگر بے خبر تھے۔ خدا بھلا کرے اقوامِ متحدہ کا، وہ اگر بیس فروری کا دن چڑیوں کے نام وقف نہ کرتی تو شاید ہم زندگی بھر اپنے وجود کے کھوکھلے پن سے انجان رہتے اور اپنے وجود کی ٹوٹ پھوٹ کا الزام غیر مانوس دشمن کو دیتے۔ کسی سیانے سے سنا ہے کہ ہمارا سب سے بڑا دشمن ہمارے وجود میں رہتا ہے اور ہم اپنے اندر پنپنے والے دشمن کو خوب کھلاتے پلاتے ہیں اور اسے سانڈ بنا دیتے ہیں۔
پچھلے دنوں اقوامِ متحدہ نے عورتوں کا عالمی دن منایا تھا، یعنی خواتین کا عالمی دن منایا تھا۔ مجھے تعجب ہوا۔ میں نے سوچا تھا کہ اقوامِ متحدہ والے آئے دن کسی نہ کسی کا عالمی دن مناتے ہیں، حتیٰ کہ ایروں، غیروں کا دن بھی مناتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ والے میری خالہ کا دن کیوں نہیں مناتے۔ ویسے تو میری چار عدد خالائیں ہیں، مگر میں جس خالہ کی بات کر رہا ہوں، اس خالہ نے مجھے ماں بن کر پالا پوسا ہے۔ ہوا کچھ اس طرح تھا کہ جنم دینے کے فوراً بعد جب میری ماں نے مجھے دیکھا تھا، تب مجھے دیکھتے ہی میری ماں صدمہ سے مر گئی تھی، سب نے میری مری ہوئی ماں کو سمجھاتے ہوئے کہا تھا۔ ’’شمشاد یہ تیرا بیٹا ہے۔ کسی بن مانس کا بچہ نہیں ہے۔ یقین کر، آنکھیں کھول، مرنا نہیں، اگر تو مر گئی تو اس بے چارے معصوم کا کیا بنے گا۔ تیرا میاں ایک ساتھ چار شادیاں رچانے پر تلا بیٹھا ہے۔ دیکھ تو مرنا نہیں، چار سوتیلی ماؤں کے درمیان تیرا بیٹا برباد ہوجائے گا۔“
میری ماں ان کی باتیں نہیں سن رہی تھی۔ میری ماں مر گئی تھی۔ خالہ دلشاد نے پہل کی۔ آگے بڑھ کر انہوں نے مجھے گود میں اٹھا لیا اور پھر مجھے گود لے لیا۔ ان کی گود لمبے عرصہ سے خالی تھی۔ میں نے ایک دانشور سے پوچھا۔ ’’یہ اقوامِ متحدہ والے کبھی خالہ کا دن کیوں نہیں مناتے؟‘‘
دانشور نے کہا، ’’آج ہی تو وہ خالاؤں کا دن منا رہے ہیں۔‘‘ میں نے کہا، ’’آج تو وہ خواتین کا عالمی دن منا رہے ہیں۔‘‘ دانشور نے مسکراتے ہوئے پوچھا، ’’تیری خالہ عورت نہیں ہے کیا؟‘‘
تب مجھے پتہ چلا کہ جب بھی عورتوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے، وہ دن بلا واسطہ ساس، نند، بھاوج، جیٹھانی، چاچی، مامی اور خالہ کا دن ہوتا ہے۔ عورتوں کا دن دراصل میری خالہ کا دن تھا۔
بشکریہ روزنامہ جنگ۔
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)