تھرپارکر کے جین مندر اور وراثت کی حفاظت کا سفر

صبا حسین

کٹے ہوئے پہاڑ اور کھنڈر نما مندروں کے بیچ ایک عجیب سی کیفیت پیدا ہوئی۔ میں کارونجھر کے پہاڑ کے بالکل سامنے جین مت کے مندر میں کھلے آسمان تلے بیٹھی ہوئی تھی۔ دھوپ بہت تیز تھی لیکن احساسِ ندامت اس سے بھی شدید تھا۔ میرا ایک ساتھی غصے سے بول پڑا، ”یہ ہمارا ورثہ نہیں ہے۔۔ یہ تو دراوڑی ورثہ ہے، پھر ہم اس کا خیال کیوں کریں؟”

برصغیر پاک و ہند کے مرکز میں واقع سندھ، ایک ایسا خطہ ہے جو بھرپور تاریخی، ثقافتی تنوع اور قدیم تہذیبوں سے بھرا ہوا ہے۔ سندھ کا تعلق وادیِ سندھ کی طاقتور تہذیب سے ہے، جہاں کبھی دراوڑی لوگوں کا بسیرا بھی رہا۔ دراوڑی لوگ برصغیر پاک و ہند میں صدیوں سے آباد ہیں، ان کی ثقافتی اور لسانی جڑیں قدیم دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔ آثارِ قدیمہ کے مطابق دراوڑی آبادی وادیِ سندھ کی تہذیب (تقریباً 3300–1300 قبل مسیح) کے دوران برصغیر پاک و ہند میں موجود تھی۔ جنوبی ہندوستان سے تعلق رکھنے والے دراوڑی لوگوں نے سندھ کے ثقافتی منظر نامے پر انَمِٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ یہ بھی بتاتی چلوں کہ سب دراوڑی جین مت کے ماننے والے نہیں ہیں، لیکن جین مت کی مذہبی روایات دراوڑی لوگوں سے ہی شروع ہوئی ہیں۔

جین مت کیا ہے اور اس کی شروعات کہاں سے ہوئی؟

جین مت ایک قدیم مذہب ہے، جو عدم تشدد (اہنسا)، سچائی، چوری نہ کرنے اور غیر منسلکیت پر زور دیتا ہے۔ اس کے پیروکار، جنہیں جین کہا جاتا ہے اور یہ کرما، تناسخ کے نظریے پر یقین رکھتے ہیں، اور یہ پیدائش اور موت کے چکر سے روح کی آزادی چاہتے ہیں۔ جین مت کی بنیاد بھگوان مہاویر نے چھٹی صدی قبل مسیح میں رکھی تھی، لیکن اس کی جڑیں اس سے بھی آگے ہیں۔ اس میں اہم فلسفیانہ، اخلاقی اور روحانی تعلیمات ہیں، جنہوں نے صدیوں سے ہندوستانی ثقافت اور فکر کو متاثر کیا ہے۔

بھوڈیسر میں گھومتے ہوئے ایک ساتھی نے کہا، اس دھرم کے پیروکار فطرت دوست تصور کیے جاتے تھے۔ جین مت کو ماننے والے عدم تشدد کو اتنی ترجیح دیتے تھے کہ وہ پاؤں میں کچھ بھی نہیں پہنتے تھے کیونکہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ ان کے جوتوں سے، زمین پر جو جاندار ہیں، ان کو نقصان پہنچے گا۔ اس وقت میرا دل چاہا کہ میں بھی اپنے جوتے اتاروں اور اس مثالی ’اہنسا‘ کے تصور کی پیچیدگی کو سمجھ سکوں۔

سندھ میں جین مت کی باقیات مختلف جگہوں پر ہیں بلکہ پورے پاکستان میں اس قدیم مذہب کی باقیات موجود ہیں۔ سندھ میں نگرپارکر، جو تھر کے صحرا کا حصہ کہلاتا ہے، لیکن اپنے گلابی گرینائٹ کے پہاڑوں اور کارونجھر کے پہاڑ کی وجہ سے بالکل مختلف نظر آتا ہے۔ نگرپارکر میں سات جین مندر ہیں جن میں گوری مندر کی حالت بہتر ہے، جب کہ بھوڈیسر کے باقی مندر دن بہ دن خراب ہوتے جا رہے ہیں۔

بھوڈیسر، نگرپارکر کے شمال مغرب میں تقریباً چار میل کے فاصلے پر واقع ہے، جو بیس میل کے دائرے میں پھیلا ہوا ہے۔ تین قدیم جین مت کے مندروں کی باقیات وہاں آج بھی موجود ہیں، جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ 1375ء اور 1449ء میں تعمیر کیے گئے تھے۔ ان ڈھانچوں کی رہی سہی کسر سندھ کی وزارت ثقافت و سیاحت اور انڈومنٹ فنڈ ٹرسٹ فار ریسٹوریشن آف ہیریٹیج نے مل کر پوری کی ہے۔ ان میں سے ایک قدیم مندر کے اسٹیج نما پلیٹ فارم کے لگائے ہوئے قدیم پتھروں کو نکال کر وہاں چونے کے پتھر لگا دیئے گئے ہیں۔ چونے کا پتھر قدیم عمارات کو محفوظ کرنے کے لیے استعمال میں لیا جاتا ہے لیکن اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہے کہ قدیم پتھروں یا قدیم عمارت کی کسی بھی اینٹ کو نکال پھینکا جائے۔ اصل میں مندر کے ڈھانچے کو بحالی کی ضرورت تھی، کہ وہ اب بھی اسی تباہ حالی میں اپنی مدد آپ کے تحت کھڑا ہے۔ قدیم عمارات کی بحالی کی بنیادی صورت ہی یہ ہوتی ہے کہ اس قدیم عمارت کو اسی صورت میں رکھا جائے۔ اگر اس کی پرانی اینٹوں یا پتھروں کو تبدیل کریں گے تو یہ اس کی قدیم حیثیت کو ختم کرنے کے برابر ہوگا۔

اس ساری بحالی کے عمل کے بعد سندھ کی وزارتِ ثقافت و سیاحت کی طرف سے ایک بورڈ لگا دیا گیا ہے، جس پر لکھا ہوا ہے، ”کوئی بھی شخص اس قدیم یادگار کو تباہ یا نقصان پہنچاتا ہے، اس میں ردوبدل کرتا ہے، بگاڑتا ہے، لکھتا ہے تو وہ پاکستان کے ایکٹ 1975 کے سیکشن 19 کے تحت قابلِ سزا ہوگا۔“ امید ہے آپ کا دھیان ردوبدل پر گیا ہوگا۔

بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close