اپنے متنازع بیان پر برطرف برطانوی وزیر داخلہ کون ہیں؟

ویب ڈیسک

برطانیہ کے وزیراعظم رشی سوناک نے پیر کے روز سینیئر وزیر داخلہ سویلا بریورمین کو اُن کے عہدے سے برطرف کر دیا

واضح رہے کہ سویلا بریورمین نے گزشتہ ہفتے ایک مضمون میں فلسطین کی حمایت میں منعقد کیے جانے والے مارچ سے نمٹنے کے طریقہ کار پر پولیس کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا، جس سے وزیراعظم رشی سوناک کی مشکلات میں اضافہ ہوا

ناقدین کے مطابق سویلا بریورمین کے مؤقف سے دائیں بازو کے مظاہرین کی حوصلہ افزائی ہوئی اور انہوں نے لندن کی سڑکوں کا رُخ کیا، جس سے حکومت کی مشکلات بڑھیں اور وزیراعظم پر دباؤ بڑھا کہ وہ اس پر کارروائی کریں

سویلا بریورمین نے میٹروپولیٹن پولیس پر جانب داری کا الزام لگاتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ وہ انتہائی دائیں بازو کے مظاہروں کو روک رہی ہے مگر اس نے اسرائیل کی غزہ پر جارحیت کے بعد فلسطین کے حامیوں کو جلوس نکالنے کی اجازت دے رکھی ہے۔ برطانوی اور بین الاقوامی میڈیا میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق بریورمین کو اس بیان پر شدید عوامی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا

برطانیہ میں حالیہ دنوں میں فلسطین کے حق میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کو ’نفرت مارچ‘ قرار دینے پر بھی برطانوی وزیر داخلہ سویلا بریورمین پر شدید تنقید کی گئی تھی

سویلا بریورمین پر الزام تھا کہ وہ برطانوی معاشرے میں تقسیم اور نفرت کے بیج بو رہی ہیں

لندن اور دیگر برطانوی شہروں میں مسلسل تین ویک اینڈز سے ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل رہے ہیں اور غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ پولیس نے ہفتے کے روز کو پانچ افراد پر مقدمہ درج کرنے کی تصدیق کی تھی

میڈیا رپورٹس کے مطابق سویلا شروع ہی سے سخت بیان بازی کرتی رہی ہیں، جس سے انہیں کٹر دائیں بازو کی حمایت تو حاصل ہوئی مگر زیادہ اعتدال پسند دھڑے ان سے الگ تھلگ ہو گئے تھے

یہ معاملہ اس وقت مزید تلخ ہو گیا جب گذشتہ بدھ کو بریورمین نے برطانوی اخبار ’دا ٹائمز آف لنڈن‘ میں ایک آرٹیکل لکھا، جس میں انہوں نے شہر کی مرکزی پولیس فورس پر الزام عائد کیا کہ وہ ہفتے کے آخر میں ہونے والے فلسطینیوں کے حق میں ہونے والے احتجاجی مارچ پر پابندی لگانے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہی ہے

انہوں نے ہفتے کے روز لندن میں فلسطینیوں کی حمایت میں ہونے والے عام مظاہروں میں شرکت کرنے والے ہزاروں افراد کو ’نفرت انگیز مارچ کرنے والے، (hate marchers)‘ ’اسلام پسند‘ اور ’ہجوم‘ قرار دیا حالانکہ یہ مظاہرے زیادہ تر پرامن رہے ہیں

اپنے مضمون میں سویلا بریورمین نے پولیس پر الزام عائد کیا تھا کہ انہوں نے مظاہروں سے نمٹنے کے طریقہ کار میں ’دہرا معیار‘ اپنا رکھا ہے۔

انہوں نے لکھا کہ دائیں بازو اور قوم پرست مظاہرین جو جارحیت میں ملوث ہیں، انہیں بجا طور پر سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن تقریباً ایک جیسے رویے کا مظاہرہ کرنے والے فلسطینی حامی ہجوم کو بڑی حد تک نظر انداز کیا جاتا ہے

وزیرِ اعظم رشی سونک کے ایک ترجمان نے اس آرٹیکل کی اشاعت کے بعد کہا تھا کہ اسے وزیر اعظم کی منظوری کے بغیر شائع کیا گیا تھا۔

وزیر اعظم نے بریورمین کی جگہ جیمز کلورلی کو وزیر داخلہ مقرر کیا ہے

اسکاٹ لینڈ کے فرسٹ منٹسر حمزہ یوسف نے ایکس پر ہفتے کے روز لکھا تھا ’ہوم سکریٹری نے کٹر دائیں بازو والوں کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ انہوں نے اپنا ہفتہ تقسیم کے شعلوں کو بھڑکانے میں گزارا ہے۔ اب وہ جنگ بندی کے قومی دن کے موقعے پر پولیس پر حملہ کر رہی ہیں۔ وہ اب مزید کام نہیں کر سکتیں۔ انہیں مستعفی ہو جانا چاہیے۔‘

سویلا بریورمین کون ہیں؟

حکمران کنزرویٹو پارٹی سے تعلق رکھنے والی سویلا بریورمین برطانیہ میں قانون نافذ کرنے والے اداروں، امیگریشن اور قومی سلامتی کی ذمہ دار رہیں۔ فلسطینی مظاہرین کے معاملے پر سخت رویہ اپنانے کی وجہ سے انہیں کو اپنے عہدے سے ہاتھ دھونا پڑے، مگر ان کی متنازع بیانات کی لمبی تاریخ ہے

انہیں کچھ ہفتوں سے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا تھا کہ وہ برطانوی معاشرے میں ’تقسیم اور انتشار کے بیج‘ بو رہی ہیں۔ وہ ایک ایسی سیاست دان ہیں جو سخت بیان دینے سے گریز نہیں کرتیں

اخبار گارڈین نے لکھا ہے کہ برطانیہ کی وزارت داخلہ کی سربراہی کی ایک سالہ مدت کے دوران بریورمین نے کسی بھی پیش رو کے مقابلے میں زیادہ سیاسی تنازعات کو جنم دیا ہے

اخبار نے مزید لکھا ہے کہ بریورمین کی شخصیت تضادات کا مجموعہ ہے۔ انہوں نے پیرس میں تعلیم حاصل کی اور وہ فرانسیسی ثقافت کی مداح ہیں لیکن اس کے باوجود وہ بریگزٹ کی حمایت میں ڈٹ کر کھڑی ہو گئیں

حیران کن بات یہ ہے کہ وہ خود تارکین وطن والدین کی اولاد ہیں، مگر تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کی خواہش مند ہیں

قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ بریور مین لز ٹرس کے دور میں بھی وزیرِ داخلہ کے عہدے سے مستعفی ہونے پر مجبور کیا گیا تھا

اے ایف پی کے مطابق بریورمین خود کو برطانیہ کی کنزرویٹو پارٹی کے مستقبل کے رہنما کے طور پر پیش کرنے کی ممکنہ کوشش ہے

25 اکتوبر 2022 کو 43 سالہ سویلا بریورمین کو وزیر خارجہ مقرر کیا گیا تھا۔ اس سے قبل وہ چھ ستمبر 2022 اور 19 اکتوبر 2022 کے درمیان اسی عہدے پر فائز رہ چکی ہیں۔

وہ 13 فروری 2020 سے چھ ستمبر 2022 تک اٹارنی جنرل بھی رہ چکی ہیں۔

سویلا مئی 2015 میں فریہم کے علاقے سے کنزرویٹو رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئی تھیں

سویلا بریورمین انڈین نژاد برطانوی ہیں۔ ان کے والدین افریقہ سے 1960 کی دہائی میں برطانیہ آئے تھے

انہوں نے اپنی ویب سائٹ پر لکھا ہے کہ میرے والدین 1960 کی دہائی میں کینیا اور ماریشس سے بہت کم جمع پونجی کے ساتھ اس ملک میں آئے تھے۔ میری والدہ جب 18 سال کی تھیں تو انہوں نے برطانوی محکمۂ صحت میں کام کرنا شروع کیا اور 45 سال تک نرس کے طور پر خدمات سرانجام دیں۔

سویلا بریورمین 2015 میں پارلیمنٹ کی رکن منتخب ہونے سے پہلے بطور وکیل کام کر رہی تھیں

سویلا کی ہندو والدہ اوما کا تعلق انڈیا کی جنوبی ریاست تمل ناڈو اور مسیحی والد کرسٹی فرنینڈس کا تعلق مغربی ریاست گوا سے ہے

سویلا نے لندن کے ہیتھ فیلڈ اسکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی اور پھر کوئنز کالج سے گریجویشن اور کیمبرج میں قانون کی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد انہوں نے پینتھیون سوربون یونیورسٹی سے یورپی اور فرانسیسی قانون میں ماسٹر ڈگری مکمل کی

انہوں نے 2018 میں رایل بریورمین سے شادی کی تھی، جن سے ان کے دو بچے ہیں

ہندو والدہ اور مسیحی والد اور شوہر کے باوجود سویلا خود بدھ مت کی پیروکار ہیں، جو لندن کے بدھسٹ سینٹر میں باقاعدگی سے جاتی ہیں

انہوں نے پارلیمنٹ میں بھگوان بدھ کے اقوال پر مبنی مذہبی کتاب دھرم پادا پر اپنے عہدے کا حلف لیا تھا

انہوں نے 2005 میں لیسٹر ایسٹ سے عام انتخابات میں حصہ لیتے ہوئے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کیا اور مئی 2015 میں فیئرہیم سے رکن پارلیمنٹ بنیں

پھر وہ 2017 اور 2019 میں دوبارہ پارلیمنٹ کی رکن منتخب ہوئیں۔

بورس جانسن کے اقتدار سے بے دخلی کے بعد سویلا وزارت عظمیٰ کے منصب کی اولین امیدواروں میں سے ایک تھیں، تاہم یہ عہدہ ایک اور انڈین نژاد رشی سونک کو مل گیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close