(اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں پچیس مارچ کو خصوصی نمایندے فرانسسیکا البانیز نے ایک مفصل رپورٹ پیش کی۔اس میں اس بنیادی سوال کا جائزہ لیا گیا ہے کہ اسرائیل ایک نسل کش ریاست ہے یا نہیں؟ یہ رپورٹ چونکہ سب سے ذمے دار عالمی ادارے کے ایک سینئر اہلکار نے مرتب کی ہے لہٰذا کسی ممکنہ تعصب یا جانبداری کا شائبہ مشکل سے ہی ہو سکتا۔پیشِ خدمت ہے اس رپورٹ کے خلاصے کی دوسری قسط، تاکہ آپ اسرائیل کی نسل کش پالیسیاں اقوامِ متحدہ کے نقطہ نظر سے دیکھ اور پرکھ سکیں)۔
نسل کشی کی سات نکاتی تعریف میں یہ بھی شامل ہے کہ کسی بھی انسانی گروہ کو نہ صرف جان بوجھ کے ہدف بنایا جائے بلکہ اس کی نسل کشی کے عمل کو جزوی یا کلی طور پر چھپانے یا پردہ ڈالنے کی کوشش کی جائے۔اس اعتبار سے اسرائیل نسل کشی کی تعریف کے کم ازکم تین نکات پر پورا اتر چکا ہے۔
اول یہ کہ ایک مخصوص انسانی گروہ کو ہلاک کیا جارہا ہے۔اس عمل میں جان بوجھ کر قحط کے حالات پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ بیماریوں اور وباؤں کی روک تھام کی کوششیں ناکام بنائی جا رہی ہیں۔اور اس گروہ کے مادی وجود کو بقائی خطرے میں ڈالا جا رہا ہے۔
اس بنیاد پر مرتب پالیسیوں کے نتیجے میں سات اکتوبر سے اب تک ( پچیس مارچ ) جان لیوا ہتھیاروں اور دیگر ہتھکنڈوں سے بتیس ہزار مقامی باشندے مارے جا چکے ہیں۔فروری کے آخر تک بارہ ہزار سے زائد فلسطینی لاپتہ ہو چکے تھے۔ اکثر ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ ان کی ہلاکت کی باضابطہ تصدیق باقی ہے۔گویا غزہ کی ڈیڑھ فیصد آبادی اب تک لاپتہ اور ہلاک کی جا چکی ہے۔
فوج کشی کے پہلے ہی مہینے میں غزہ کی پٹی پر پچیس ہزار ٹن سے زائد بارود برسایا گیا۔ اس کی مجموعی ہلاکت خیزی جاپان پر گرنے والے دو ایٹم بموں کے برابر ہے۔اسرائیل نے ان گائیڈڈ بم (اندھے بم) بھی بکثرت برسائے اور گنجان عمارات اور محفوظ قرار دیے گئے علاقوں کو دو دو ہزار پونڈ کے بنکر بسٹر بموں کا نشانہ بنایا۔
(اگر اس مقدار کو چھ ماہ سے ضرب دے لی جائے تو اب تک ڈیڑھ لاکھ ٹن یا بارہ ہیروشیما بموں کی طاقت کے مساوی بارود برس چکا ہے۔یوں غزہ کا اسی فیصد انفرااسٹرکچر کلی اور بیس فیصد جزوی طور پر تباہ یا ناکارہ ہو چکا ہے۔بیشتر رقبہ انسانی رہائش کے قابل نہیں رہا مگر اصل تصویر جنگ بندی کے بعد ہی سامنے آ سکتی ہے۔
اوسطاً ڈھائی سو لوگ روزانہ مارے جا رہے۔ان میں بچوں کا اوسط ایک سو نو ہے۔مارنے کے لیے بمباری اور گولہ باری کے علاوہ ماہر نشانچیوں اور اجتماعی سزاِ موت کو بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ نیز خوراک کے حصول کے لیے اکٹھا ہونے والے ہجوم کو نشانہ بنانے کے کئی واقعات ہوئے۔محفوظ مقامات کی جانب ہجرت کرنے والوں کو بھی راستے میں ہلاک کیا گیا۔پچیس مارچ تک مرنے والوں میں ایک سو پچیس صحافی ، تین سو چالیس ڈاکٹر اور نیم طبی عملہ (یعنی غزہ کا چار فیصد طبی عملہ) طلبا، اساتذہ اور ان کے اہلِ خانہ بھی شامل ہیں۔
مرنے والوں میں عورتوں اور بچوں کی شرح ستر فیصد ہے۔تیس فیصد ہلاک ہونے والے مردوں کے بارے میں اسرائیل کو ابھی ثابت کرنا ہے کہ ان کا تعلق حماس سے تھا لہٰذا ان کی موت بین الاقوامی جنگی قوانین کے دائرے میں ہوئی ہے۔
دسمبر کے وسط تک اسرائیل نے دعویٰ کیا کہ حماس کے سات ہزار ارکان مارے جا چکے ہیں، حالانکہ اس وقت تک صرف پانچ ہزار مردوں کے ہلاک ہونے کی تصدیق ہوئی تھی۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ جتنے بھی مرد مارے گئے ان کا سو فیصد سے زائد تعلق حماس سے بتایا گیا۔ اس منطق کے تحت غزہ کے تمام تئیس لاکھ باشندے بطور دھشت گرد جنگی ہدف ہیں۔
نو اکتوبر کے بعد غزہ کی مکمل ناکہ بندی کے سبب اب بھوک سے روزانہ مرنے والے بچوں کا اوسط دس تک پہنچ چکا ہے۔غذا نہ ہونے کے نتیجے میں معمولی قابلِ علاج بیماریاں بھی جسمانی مدافعت میں کمی سے تباہ کن نتائج پیدا کر رہی ہیں۔ اگر خوراک، صحت اور آلودہ پانی کے حالات ابتر رہے تو اس برس میں غزہ کی کم ازکم پچیس فیصد آبادی بھک مری کی وجہ سے موت کے منہ میں چلی جائے گی۔ یہ تعداد بمباری سے مرنے والوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہو گی۔
نسل کشی کے جس دوسرے نکتے پر اسرائیل پورا اتر رہا ہے وہ ہے ایک انسانی گروہ کو شدید جسمانی و ذہنی نقصان پہنچانے کا سوچا سمجھا عمل۔ ایسے عمل کے ذریعے ذہنی و جسمانی طور پر مفلوج کرنے کی کوشش سے اس گروہ کی قوتِ ارادی اور عزتِ نفس کو تار تار کرنا مقصود ہے۔ اس میں سرسری گرفتاریاں، ٹارچر، جنسی تشدد و اذیت، غیر منصفانہ قوانین کے تحت کڑی سزائیں، بے سروسامانی کے عالم میں ایک مقام سے دوسرے مقام تک دھکیلنے کا عمل بھی شامل ہے۔
سات اکتوبر کے بعد سے ہر عمر کے ہزاروں فلسطینی گرفتار ہوئے۔انھیں نامعلوم مقامات پر رکھا گیا۔ان کی خیر خبر کے بارے میں بنیادی تفصیلات دینے سے انکار کیا گیا۔ سیکڑوں قیدیوں کو انتہائی پرتشدد حالات میں رکھے جانے کی اطلاعات ہیں۔ دورانِ قید متعدد اموات بھی ہوئی ہیں۔
ہلاکت خیز ہتھیاروں کے استعمال سے پچھتر ہزار سے زائد لوگ زخمی ہوئے ہیں اور ان میں سے متعدد بقیہ زندگی بطور اپاہج گذاریں گے۔ جان بچانے اور بے ہوش کرنے والی ادویات اور ضروری طبی سامان کی عدم دستیابی سے اموات اور معذوری کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔اور اس عمل میں بچے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔
زندہ بچ جانے والے روزمرہ بنیاد پر بے گھری ، دوسروں کو مرتا دیکھنے کے عذاب ، توہین آمیز سلوک ، آس پاس کی تباہی ، قریبی عزیزوں کے مرنے کے دکھ ، ملبے تلے دبے انسانوں کی تلاش، فاقہ کشی ، لاوارثی ، نیند کی شدید کمی ، خوف ، بے یقینی اور ڈیپریشن کی سنگین حالت کی لپیٹ میں ہیں۔۔ اور اس عمل سے بھی بچے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ ان بچوں کی نفسیاتی حالت آگے چل کے کن کن پیچیدہ اشکال میں ظاہر ہوگی اور وہ کس طرح کا سماج تشکیل دیں گے۔ فی الحال کوئی نہیں جانتا۔اس وقت تو سب زندہ رہنے کی جدوجہد میں ہیں۔
نسل کشی کی تعریف کا تیسرا نکتہ جس پر اسرائیل پورا اتر رہا ہے، وہ ہے زندگی کو جان بوجھ کے ایسے راستے پر دھکیل دینا، جس کا مقصد ایک انسانی گروہ کو بالآخر صفحہِ ہستی سے مٹانا ہے۔ یہ کام کس کس انداز سے ہو رہا ہے۔اس کی تفصیل اگلی قسط میں۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس۔