(اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں پچیس مارچ کو خصوصی نمائندے فرانسسیکا البانیز نے ایک مفصل رپورٹ پیش کی۔اس میں اس بنیادی سوال کا جائزہ لیا گیا ہے کہ اسرائیل ایک نسل کش ریاست ہے یا نہیں؟ یہ رپورٹ چونکہ سب سے ذمہ دار عالمی ادارے کے ایک سینیر اہلکار نے مرتب کی ہے۔آج اس رپورٹ کی چوتھی اور آخری قسط پیشِ خدمت ہے۔تاکہ آپ اسرائیل کی نسل کش پالیسیاں اقوامِ متحدہ کے نقطہ نظر سے دیکھ اور پرکھ سکیں)۔
سات اکتوبر کے بعد سے اسرائیل نے انسانی تحفظ کے بین الاقوامی کنونشن (انٹرنیشنل ہیومینٹیرین لا) کی اصطلاحات (انسانی ڈھال، حادثاتی نقصان، محفوظ علاقہ، انخلا، طبی تحفظ، جائز عسکری اہداف وغیرہ) کو بھی توڑنے مروڑنے اور مسخ کرنے سے گریز نہیں کیا، تاکہ نسل کشی کے ننگ پن کو ان اصطلاحات کے چیتھڑوں سے ڈھانپا جا سکے۔
سویلینز کو فوجی مقاصد کے لئے بطور انسانی ڈھال استعمال کرنا جنگی جرم ہے۔فریقین پر لازم ہے کہ وہ بے گناہ نہتے شہریوں کے تحفظ کے لئے ہر ممکن اقدامات کریں اور متناسب فوجی قوت احتیاط سے استعمال کریں۔اسرائیل نے دو ہزار آٹھ سے اب تک غزہ پر چھ بار فوج کشی کے دوران شہریوں کی بڑی تعداد میں ہلاکت اور انفراسٹرکچر کی بلاامتیاز تباہی کا یہ جواز پیش کیا کہ حماس شہریوں کو بطور انسانی ڈھال استعمال کر رہی ہے لہذا عام شہریوں کی ہلاکت ناگزیر ہے۔ تاہم اسرائیل آج تک کسی بین الاقوامی ادارے کو اس نام نہاد انسانی ڈھال کے بارے میں ٹھوس ثبوت پیش نہیں کر سکا۔
اس بار اسرائیل نے غزہ کی پوری آبادی کو انسانی ڈھال قرار دے کر بلاامتیاز تباہی کا جواز گھڑنے کی کوشش کی۔ اسرائیل وزارتِ خارجہ کے بقول غزہ میں یا تو حماس کے مسلح جنگجو ہیں یا ان کی مدد کرنے والے اور ہمدرد۔۔ لہٰذا پورا غزہ ایک جائز فوجی ہدف ہے۔ چنانچہ جن لوگوں نے مساجد، گرجا گھروں، اسپتالوں، ایمبولینسوں اور اقوامِ متحدہ کی امدادی تنظیموں کے مراکز میں پناہ لے رکھی ہے، وہ سب کے سب حماسی ہیں۔ ان میں امدادی رضاکار، طبی عملہ اور صحافی اور اساتذہ سمیت ہر مقامی شامل ہے۔
اسرائیلی تشریح کے مطابق ہر وہ رہائشی عمارت، محلہ یا کیمپ، جہاں حماس ایک بھی گھر، اپارٹمنٹ یا کمرہ استعمال کر رہی ہے، وہ پورا کا پورا اسٹرکچر جائز فوجی ہدف ہے۔ چنانچہ پچیس اکتوبر کو جبالیہ مہاجر کیمپ کا ایک سالم رہائشی حصہ اڑا دیا گیا۔ اس واردات میں ستر بچوں سمیت ایک سو چھبیس ہلاکتیں ہوئیں اور دو سو اَسی انسان شدید زخمی ہوئے۔ اسرائیل نے اس حملے کا جواز یہ دیا کہ اس جگہ زیرِ زمین سرنگ میں حماس کا ایک کمانڈر چھپا ہوا تھا۔
اکتیس اکتوبر کو غزہ شہر میں التاج ٹاور مسمار کر دیا گیا۔ ایک سو ایک ہلاک شدگان میں چوالیس بچے اور سینتیس خواتین بھی شامل تھیں۔ سینکڑوں دیگر رہائشی زخمی ہوئے۔ اسرائیل نے ڈھٹائی کے ساتھ اس تباہی کو ’’کولیٹرل ڈیمیج“ یا ناگزیر حادثاتی نقصان کی اصطلاح کا کفن پہنانے کی کوشش کی۔
انسانی تحفظ کے بین الاقوامی کنونشن کے مطابق برسرپیکار فریقین پر لازم ہے کہ فوجی مقاصد کے حصول سے قبل شہری آبادی کو ممکنہ میدانِ جنگ سے دور کسی محفوظ مقام پر منتقل کیا جائے۔
ان کی بنیادی سہولتوں کا خیال رکھا جائے اور لڑائی کے بعد ان کی محفوظ واپسی ممکن بنائی جائے۔تیرہ اکتوبر کو اسرائیل نے شمالی غزہ کے گیارہ لاکھ مکینوں کو چوبیس گھنٹے کے اندر اندر علاقہ خالی کر کے جنوبی غزہ منتقل ہونے کا حکم دیا۔ تئیس مقامات پر اس بارے میں فضا سے اشتہارات گرائے گئے۔ سوشل میڈیا پر بھی یہ اعلان جاری ہوا، مگر بمباری پھر بھی نہیں رکی اور مواصلاتی نظام درہم برہم کر دیا گیا۔
لہٰذا گیارہ لاکھ لوگوں کو نہ تو محفوظ علاقوں کے بارے میں بروقت مکمل معلومات پہنچ سکیں، نہ محفوظ راستوں کا پورا علم ہو سکا۔ نتیجتاً جو بھگدڑ مچی اور بمباری کے درمیان جس طرح نقلِ مکانی میں کثیر ہلاکتیں ہوئیں ان کا اندازہ کوئی بھی لگا سکتا ہے۔ شمالی غزہ کے تمام بائیس اسپتالوں کو بھی خالی کرنے کا حکم ملا، جو پانچ لاکھ سے زائد سویلین اس علاقے سے نہ نکل سکے انہیں انسانی ڈھال قرار دے کر ایک جائز فوجی ہدف کے حاشیے پر ڈال دیا گیا۔
یہی نہیں بلکہ کسی ایک علاقے کو محفوظ قرار دیا گیا اور چند دن بعد کسی نئے علاقے کو محفوظ قرار دے کر اس کی جانب نقلِ مکانی کا حکم دیا گیا۔ ایسا اب تک درجنوں بار ہوا۔ گویا پوری آبادی کو مریضوں، بچوں اور حاملہ خواتین سمیت ایک سٹرٹیجک فٹ بال بنا دیا گیا۔اس آنکھ مچولی کا نتیجہ مزید ہلاکتوں اور تباہی کی شکل میں نکل رہا ہے۔
فوجی کشی کے پہلے ڈیڑھ ماہ میں اسرائیل نے دو ہزار اور پانچ سو پاؤنڈ کے جو امریکی ساختہ بم نسل کشی کے لئے استعمال کئے، ان میں سے بیالیس فیصد بم خود اپنے ہی اعلان کردہ ’’سیف زونز‘‘ پر گرائے گئے۔ جبکہ توپوں اور جنگی بحری جہازوں سے مسلسل گولہ باری اور اجتماعی قتلِ عام کی درجنوں وارداتیں بھی ساتھ ساتھ جاری رہیں۔
اب آخری سیف زون یعنی انتہائی جنوبی شہر رفاہ بھی فوجی ہدف قرار دے دیا گیا ہے، جہاں ایک چھوٹے سے علاقے میں پندرہ لاکھ انسان کھلے آسمان تلے بیٹھے ہیں۔اس وقت رفاہ کی گنجانیت بائیس ہزار دو سو نفوس فی مربع کلومیٹر ہے جو گنجانیت کا عالمی ریکارڈ ہے۔ جنوبی شہر خان یونس کے علاوہ رفاہ کی تمام طبی سہولتیں برباد ہو چکی ہیں۔ جن راستوں کو محفوظ قرار دیا گیا انہیں فوجی نشانچیوں، بمباری اور گولہ باری کی مدد سے ’’شاہراہِ مرگ‘‘ بنا دیا گیا۔ راہ چلتوں کو گرفتار کر کے غائب کیا گیا یا پھر پکڑ کے ہلاک کر دیا گیا۔ جو پناہ کی تلاش میں سڑک چھوڑ کے کھلے علاقے یا سمندر کی جانب بھاگے انہیں ڈرونز سے نشانہ بنایا گیا۔
اصل مقصد کیا ہے؟ اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے کہا کہ اسرائیل غزہ سے نقل مکانی کا خیرمقدم کرے گا۔ وزیرِ خزانہ نے کہا کہ بیس لاکھ لوگ جتنی جلد نکل جائیں، ان کے لئے اتنا ہی بہتر ہے۔ وہ مصر کے علاقے سینا یا کہیں بھی رہ سکتے ہیں۔
بارہ جنوری کو تل ابیب میں تعمیراتی کمپنیوں کی ایک کانفرنس میں چھ اسرائیلی وزرا نے شرکت کی۔ اس کانفرنس کا مقصد جنگ کے بعد غزہ میں یہودی آباد کاری اور ساحل کے ساتھ ساتھ تفریحی انفراسٹرکچر کی تعمیر کا خاکہ تیار کرنا تھا۔(لگژری ہوٹل انڈسٹری میں ممکنہ سرمایہ کاری میں سابق امریکی صدر ٹرمپ کے داماد ڈیوڈ کشنر نے بھی دلچسپی ظاہر کی ہے)۔
اس رپورٹ میں سفارش کی جاتی ہے کہ اسرائیل کو مزید فوجی امداد نہ دی جائے۔عالمی عدالتِ انصاف نسل کشی کے بارے میں جنوبی افریقہ کی درخواست پر سماعت کو تیز رفتار بنائے۔ غزہ میں عام شہریوں کو زد میں لانے والے تمام مسلح اقدامات کی شفاف غیر جانبدارانہ بین الاقوامی تحقیقات کروائی جائیں اور ذمہ داروں کے خلاف بین الاقوامی قوانین کے تحت ضروری کارروائی کی جائے۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس۔