چھ سالہ بچے کی جانب سے ٹیچر کو گولی مارنے کا معاملہ: ذمہ دار کون؟ امریکہ میں قانونی بحث چھڑ گئی

ویب ڈیسک

سنہ 2023ع کے پہلے ہی ہفتے میں امریکہ کے ایک اسکول میں فائرنگ کا ایک ایسا واقعہ پیش آیا، جس نے نہ صرف امریکہ کے سماجی ماہرین کو ہلا کر رکھ دیا بلکہ قانونی حلقوں میں بھی اس حوالے سے نئی بحث چھڑ گئی ہے

اس مرتبہ ورجینیا کے ایک ایلیمنٹری قسکول میں ایک چھ سالہ طالب علم نے ایک دستی بندوق سے اپنے ٹیچر کو گولی مار دی. پولیس نے کہا ہے کہ یہ ’دانستہ‘ طور پر کیا گیا فائر تھا

اس صدمہ انگیز واقعے میں بچے کی کم سنی نے انتہائی پریشان کُن موڑ پیدا کر دیا ہے۔ اس کیس کی وجہ سے مقامی رہنماؤں، پولیس اور آتشیں اسلحے سے تشدد کے ماہرین کے سامنے ایک خوف ناک سوال رکھ دیا ہے: کیا ہوگا, جب پہلی جماعت میں پڑھنے والا بچہ کسی کو گولی مار دے؟

واقعے کے چار دن بعد بھی نیوپورٹ نیوز نامی اس شہر کے لوگ جوابات کی تلاش میں ہیں

قانونی طور پر دیکھیں تو حکام کو کبھی ایسے مسئلے کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے۔ ریاست ورجینیا کا قانون کسی چھ سالہ بچے پر بالغوں کی طرح فردِ جرم عائد کرنے کی اجازت نہیں دیتا

اس بچے پر جووینائل کورٹ میں فردِ جرم عائد کی جا سکتی ہے, لیکن جیل میں جانے کے لیے کم از کم عمر گیارہ برس ہونی لازمی ہے

فی الحال یہ بچہ طبی مرکز میں ہے۔ پولیس چیف اسٹیو ڈریو نے کہا ہے کہ حکام نے اس معاملے پر رہنمائی کے لیے ریاستی چائلڈ سروس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مدد مانگی ہے

یہ ممکن ہے کہ اس بچے کے والدین کو نتائج کا سامنا کرنا پڑے

پیر کو پریس کانفرنس میں حکام نے تصدیق کی کہ یہ بندوق بچے کی والدہ نے قانونی طور پر خریدی تھی اور بچے نے یہ اپنے گھر سے اٹھائی۔ والدہ اس بچے کو لے کر رچنیک ایلیمنٹری اسکول پہنچیں اور اس دوران بندوق بچے کے بیگ میں ہی تھی

حکام نے یہ نہیں بتایا کہ کیا بچے کے والدین پر فردِ جرم عائد کی جائے گی یا نہیں، اور نہ ہی یہ بتایا کہ اُنہوں نے اپنی بندوق گھر میں کیسے رکھی ہوئی تھی۔ اسٹیو ڈریو نے کہا کہ ان کی تحقیقات میں بندوق کی حفاظت ’اہم عنصر‘ ہے

ورجینیا کے قانون کے مطابق: ”ایک لوڈڈ اور غیر محفوظ آتشیں اسحلے کو ایسے بے دھیانی سے چھوڑ دینا کہ اس سے چودہ سال سے کم عمر کسی بچے کی جان یا اعضا کو نقصان پہنچے ایک خفیف یا چھوٹے درجے کا جرم ہے“

حالانکہ اس قانون کا مقصد بچوں کو اسلحے کے استعمال سے روکنے کے بجائے اُنہیں محفوظ رکھنا ہے، مگر جارج میسن یونیورسٹی میں قانون کے پروفیسر رابرٹ لیڈر کے مطابق حکام اس کیس میں اس قانون کا اطلاق کرنا چاہیں گے

رابرٹ لیڈر کے مطابق ”ایک اور صورت یہ ہو سکتی ہے کہ ریاست ورجینیا یہ دلیل دے کہ والدین کے اقدامات کی وجہ سے ٹیچر کو گولی لگی، اور بچہ خود اتنا چھوٹا ہے کہ اس پر آزادانہ طور پر کی گئی کسی غلط حرکت کا الزام نہیں لگایا جا سکتا“

واضح رہے کہ امریکی اسکولوں میں ہر سال فائرنگ کے کئی واقعات پیش آتے ہیں، لیکن کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی اتنے چھوٹے بچے نے یہ اقدام کیا ہو

کے 12 اسکول شوٹنگ ڈیٹابیس کے مطابق سنہ 1970ع سے لے کر اب تک سکولوں میں فائرنگ کے اٹھارہ واقعات نو برس سے کم عمر کے بچوں نے کیے ہیں۔ یہ کیسز اس ڈیٹابیس میں موجود دو ہزار دو سو واقعات کا ایک بہت تھوڑا سا حصہ ہیں

اس پراجیکٹ پر کام کرنے والے محقق ڈیوڈ ریڈمین کے مطابق ”ایک چھ سالہ بچے کو بندوق صرف تب مل سکتی ہے جب وہ اپنے گھر سے اٹھائیں“

نیوپورٹ نیوز میں اس واقعے سے قبل ایک ایسا تاریخی اسکول شوٹنگ کا واقعہ ہو چکا ہے، جس نے قوم کو ہلا کر رکھ دیا تھا

یہ فروری سنہ 2000ع کی بات ہے، جب ایک چھ سالہ بچے نے مشیگن کے ایک ایلیمینٹری اسکول میں اپنی ایک ہم جماعت کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ اس جرم کے گواہ ایک اور بچے کے مطابق چھ سالہ کیلا رولینڈ کو قتل کرنے سے پہلے اس بچے نے اسے کہا ”مجھے تم پسند نہیں“

نیوز ویب سائٹ ایم لائیو کے مطابق استغاثہ اس نتیجے پر پہنچا کہ بچے پر فردِ جرم اس لیے عائد نہیں کی جا سکتی کیونکہ وہ قتل کا ارادہ باندھنے جتنی پختہ عمر کو نہیں پہنچا ہے

لیکن اس کے بجائے اُنہوں نے اس کے ساتھ رہنے والے گھر کے بالغ افراد پر مقدمہ درج کیا کیونکہ وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ بندوق اس بچے نے اپنے خاندانی گھر سے چُرائی ہے۔ اس بچے کو چائلڈ سروسز کے حوالے کر دیا گیا تھا

بعد ازاں خاندان کے ایک فرد نے بالآخر قتلِ خطا کا الزام قبول کر لیا

یہ کیس ملک بھر میں شہہ سرخیوں میں رہا اور سابق صدر بل کلنٹن نے ’کیلا کا قانون‘ نامی ایک اصلاحاتی پیکج متعارف کروایا

صدر کلنٹن نے کانگریس کے ارکان سے پوچھا کہ ’آخر کتنے لوگ مارے جائیں گے، جس کے بعد ہم کچھ کریں گے؟‘

دو دہائیوں بعد اب بھی امریکہ اس حوالے سے ایک قومی قانون منظور کرنے کی جدوجہد کر رہا ہے اور اس دوران اسکولوں میں فائرنگ کے سینکڑوں واقعات ہو چکے ہیں

ورجینیا میں آتشیں اسلحے سے تشدد روکنے کے لیے کام کرنے والے ایک گروپ ’جِفورڈز‘ کے ایک ڈائریکٹر شان ہولیہن نے بتایا کہ ورجینیا میں پہلے ہی کتابوں میں قانون موجود ہے کہ وہ اسلحہ اپنے بچوں کی پہنچ سے دور رکھیں

شان ہولیہن نے کہا ”نئی قانون سازی اور ملک گیر سطح پر پابندیوں کی عدم موجودگی میں زیادہ ضرورت لوگوں کو آگاہ کرنے اور اُنھیں اسلحے کے ذمہ دار مالک بنانے کی ہے“

وہ کہتے ہیں ”اگر آپ گھر میں کسی بچے کے ساتھ رہتے ہیں تو خدا کے لیے اپنے اسلحے کو بند کر کے رکھیں“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close