آج میری اپنے کلینک میں ایک ساٹھ سالہ نارویجین مریض سے ملاقات ہوئی، جو ایک یونیورسٹی کے پروفیسر ہیں۔ انٹرویو کے شروع میں انہوں نے مجھے ایک کانفرنس کے بارے میں بتایا، جہاں انہوں نے ایک ایسا تحقیقی مقالہ پڑھا جسے دوسری یونیورسٹیوں کے پروفیسروں اور طلبا و طالبات نے بہت پسند کیا۔ وہ اپنی کامیابی پر بہت خوش تھے۔
انٹرویو کے آخر میں جب میں نے ان کے نوے سالہ والد کا حال پوچھا، جنہیں دو سال پہلے کینسر ہو گیا تھا تو وہ بہت اداس ہو گئے۔ کہنے لگے، ”میں اگلے ہفتے فلوریڈا جا رہا ہوں۔ ڈاکٹروں نے مجھے بتایا ہے کہ میرے والد کا کینسر سارے بدن میں پھیل گیا ہے اور اب وہ اس دنیا میں چند ہفتوں کے مہمان ہیں۔“
”تو عین ممکن ہے آپ کی اپنے والد سے یہ ملاقات آخری ملاقات ہو۔“
”جی ہاں، آخری ملاقات۔۔“ یہ جملہ کہہ کر وہ زار و قطار رونے لگے۔
جب ان کی حالت سنبھلی تو میں نے کہا ”کیا آپ کو کوئی پچھتاوا ہے؟“
کہنے لگے، ”ڈاکٹر سہیل! مجھے ساری عمر یہ حسرت رہی کہ میرے والد مجھ سے دو جملے کہیں“
”کون سے دو جملے؟“ میں متجسس تھا
”میں تم سے محبت کرتا ہوں،
میں تم پر فخر کرتا ہوں۔۔۔ میرے والد چند ہفتوں کے بعد اس دنیا سے رخصت ہو جائیں گے اور مجھے بقیہ عمر یہ دکھ رہے گا کہ میں اپنے والد کی محبت سے محروم رہا۔“
”کیا یہ ممکن نہیں کہ وہ آپ سے محبت تو کرتے ہوں لیکن روایتی مردوں کی طرح محبت کا اظہار نہ کرتے ہوں؟“
”اگر محبت کا اظہار ہی نہ ہو تو وہ محبت کس کام کی؟“
پھر وہ چند لمحوں کے لیے خاموش ہو گئے، جیسے کسی گہری سوچ میں ڈوب گئے ہوں۔ وہ اس گہری سوچ سے لوٹے تو کہنے لگے ”ڈاکٹر سہیل! میں بچپن سے ایک ذہین بچہ تھا۔ میں ایک کامیاب طالب علم تھا۔ میں اسکول میں اپنی کلاس میں اول آتا تھا۔۔ میں نے کالج میں کئی انعام حاصل کیے،
مجھے یونیورسٹی میں کئی تمغے ملے، میں نے پی ایچ ڈی کے امتحان میں اعلیٰ نمبر حاصل کیے۔۔ میری تمام تر کامیابیوں کے باوجود، انعامات اور تمغوں کے باوجود
میرے والد نے کبھی میری تعریف نہیں کی۔ کبھی مجھے گلے نہیں لگایا۔۔ میں ساری عمر اپنے والد کے ایک پیار بھرے جملے کو ترستا رہا۔
میں اپنے والد سے خوف زدہ رہتا تھا۔ میری والدہ ایک محبتی عورت تھیں لیکن وہ جلد فوت ہو گئیں اور ہمیں ہمارے والد نے پالا۔ پھر انہوں نے دوسری شادی کر لی۔ بدقسمتی سے ہماری سوتیلی ماں جذباتی طور پر ایک بخیل اور محبت کے حوالے سے ایک کنجوس عورت تھیں۔
ہم اپنے گھر میں اجنبیوں کی طرح پلے بڑھے۔ میری کہانی ایک دکھ بھری کہانی ہے۔“
میں نے کہا ”کیا آپ نے فرانز کافکا کا وہ خط پڑھا ہے جو انہوں نے اپنے والد کے لیے لکھا تھا۔“
”نہیں۔“
”ضرور پڑھیں۔ اس میں باپ بیٹے کے حوالے سے کچھ نفسیاتی راز ہیں۔ اس خط سے آپ کو فائدہ ہوگا۔“
جب میرا مریض چلا گیا تو میں کافی دیر تک سوچتا رہا کہ میرے مریض کے باپ کی طرح اس دنیا میں نجانے کتنے ایسے باپ ہیں، جنہوں نے اپنے بچوں سے کبھی بھی کھل کر اپنے جذبات اپنے احساسات اپنی محبت اپنی اپنائیت کا اظہار نہیں کیا۔
بہت سے روایتی باپ جب اپنے بچوں کو سرزنش کر رہے ہوتے ہیں اور ان کی غلطیوں پر تنقید کر رہے ہوتے ہیں تو وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی محبت کا اظہار کر رہے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ماں باپ بچوں کی تعریف نہیں کریں گے، ان کی حوصلہ افزائی نہیں کریں گے تو پھر کون کرے گا۔ ہمسائے تو آ کر کرنے سے رہے۔۔
دنیا میں نجانے کتنے روایتی مشرقی و مغربی باپ ایسے ہیں، جنہوں نے اپنے جذبات کا اظہار نہیں سیکھا۔ یہ سلسلہ نسل در نسل چلا آ رہا ہے۔ بہت سے مردوں کو اچھے رول ماڈل نہیں ملے۔ بعض کے باپ تو ماؤں کو مارتے بھی تھے، ان کی تحقیر و تذلیل بھی کرتے تھے۔
بہت سے مرد یہ سمجھتے ہیں کہ وہ نوکری کرتے ہیں
بچوں کو کھانا کھلاتے ہیں
ان کے لیے کپڑے خریدتے ہیں
گھر کا کرایہ دیتے ہیں
اس طرح وہ اپنے بچوں کا خیال رکھتے ہیں۔
ایسے باپ یہ نہیں سمجھتے کہ بچوں کی جسمانی ضروریات کے ساتھ ساتھ ان کی جذباتی اور ذہنی ضروریات بھی ہوتی ہیں۔
بہت سے باپ یہ نہیں جانتے کہ
بچوں کو گود میں لینا
انہیں کھانا کھلانا
ان کے ساتھ سیر کے لیے جانا
انہیں چڑیا گھر کی سیر کرانا
ان کی سالگرہ پر انہیں تحفہ دینا
ان کی کہانیاں سننا
یہ سب باپ بننے کا حصہ ہے۔
اگر آپ کے والد نے ایسا نہیں کیا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ بھی نہ کریں۔
آپ اپنے بچوں سے دوستی کریں انہیں بتائیں کہ آپ ان سے محبت کرتے ہیں اور ان پر فخر کرتے ہیں۔
آج میں نے فیس بک پر ڈاکٹر بلند اقبال کو اپنی بیٹی علائنہ کے ساتھ البرٹ کیمو کا ناول ’اجنبی‘ پڑھتے دیکھا تو مجھے بہت خوشی ہوئی۔ میں نے سوچا کہ وہ بچی کتنی خوش قسمت ہے کہ اسے ایک محبت کرنے والے والد ملے اور پھر یہ بھی سوچا کہ بلند بھی تو خوش قسمت تھے کہ انہیں حمایت علی شاعر جیسے محبت کرنے والد ملے۔
اگر دنیا میں حمایت علی شاعر اور بلند اقبال جیسے اور بہت سے والد ہوتے تو دنیا محبت بھرے خاندانوں کی دنیا ہوتی، جہاں والدین اور بچے ایک دوسرے پر فخر کرتے۔
عید ایک اچھا موقع ہے کہ آپ اپنے بچوں کو گلے لگا کر کہیں
میں تم سے محبت کرتا ہوں،
میں تم پر فخر کرتا ہوں۔
بشکریہ ہم سب۔